Column
محب وطن اور غدار ….. مظہر چودھری

مظہر چودھری
گذشتہ دنوں سیاسی محاذ پر آنے والی ڈرامائی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں حکومت کے ممکنہ زوال کو دیکھتے ہوئے انیسویں صدی کے مشہور انگلش شاعر رابرٹ براﺅننگ کی نظمPatriot into Traitor)) یاد آ گئی۔نظم ”محب وطن اور غدار“ ایک سیاسی لیڈر کے عروج و زوال کی داستان بہت موثر اور قائل کرنے والے انداز میں بیان کرتی ہے۔اس نظم کا لب لباب یہ ہے کہ سیاسی لیڈر سمیت کوئی بھی انسان زیادہ دیر تک اپنے ملک یا زمانے کے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتا۔بعض اوقات حالات میں ایسی ڈرامائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو مقبول ترین لیڈر کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔وہی لوگ جو کچھ عرصہ پہلے کسی لیڈر کے ہمنوا ہوتے اور اس کا ہر طرح سے ساتھ دیتے ہیں ۔اس کے اچھے کاموں میں بھی عیب نکالنے لگتے ہیں اور اسے غدار قرار دے دیتے ہیں۔ ان پڑھ اور غریب لوگ صحیح قوت فیصلہ سے محروم ہونے کی وجہ جلد پراپیگنڈاکا شکار ہو جاتے ہیں۔عام آدمیوں کی ناپختہ اور جذباتی رائے کسی عام سیاسی رہنما کو شہرت کی بلندیوں پر بھی پہنچا دیتی ہے اور کسی مقبول ترین لیڈر کو راتوں رات تختہ دار پر بھی لٹکانے کا باعث بن جاتی ہے۔جب تک سیاسی لیڈر اقتدار میں رہتا ہے، عوام کی اکثریت قریباً ہر کام میں اس کی تائید کرتی ہے لیکن جیسے ہی لیڈر زوال پذیر ہونے لگتا ہے یا اسے اقتدار سے باہر کر دیا جاتا ہے تواس کے تمام حمایتی اسے چھوڑ جاتے ہیں۔سیاسی عروج کے زمانے میں لوگ نہ صرف اس کے راستے میں پھول بچھاتے ہیں بلکہ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے وعدے کرتے ہیں لیکن دور زوال میں وہی لوگ اس کو پتھر مارنے کے ساتھ ساتھ اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکتادیکھنے کے لیے پھانسی گھاٹ کے بالکل سامنے جمع ہو جاتے ہیں۔
یہ نظم بنیادی طور پرڈیڑھ دو سو سال پہلے تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والی ڈرامائی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں لکھی گئی۔انیسویں اور بیسویں صدی میں تیسری دنیا کے ممالک میں ایسی ڈرامائی تبدیلیاں عام تھیں ۔بیسویں ویں صدی کے دوسرے نصف کے اختتام تک بھی زیادہ تر ترقی پذیز ممالک میں عوام پہلے سیاسی لیڈرز کو اقتدار کی مسند پر بٹھا کر ان کی مقبولیت کے گن گاتے لیکن حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوے پورے نہ ہونے کی صورت میں یہی عوام اپنے مقبول لیڈر وں سے نالاں ہو کر ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے نئی تبدیلی کے خواہش مند ہوتے جس کے نتیجے میں ان ممالک کی فوج سیاستدانوں کو غدار قرار دے کر نہ صرف اقتدار پر قابض ہو جاتی بلکہ لوگوں کے محبوب سیاسی لیڈروں کو ان کے سامنے تختہ دار پر لٹکادیتی۔
دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی ماضی میں سیاسی لیڈروں کو تختہ دار پر چڑھانے ، جلاوطنی پر مجبور کئے جانے اور سیاست سے نااہلی کی سزائیں ملتی رہی ہیں۔اگرچہ20ویں صدی میں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں عوامی سطح پر ایسی ناپختہ رائے اور متلون مزاجی دیکھنے میں آئی لیکن سرد جنگ کے بعد سے دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں بھی عوام کا مزاج بتدریج بدل گیا ہے۔ اب دنیا کے کسی مہذب ملک میں آمریت کو کھلے عام ویلکم کہنے والے بمشکل ہی نظر آتے ہیںلیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاںاب بھی عوام کی اچھی خاصی تعدادجمہوریت سے نالاں ہوکر کسی طالع آزما کی راہ تک رہی ہے۔
ویسے توناپختہ رائے اور غیر مستقل مزاجی کسی بھی لحاظ سے اچھا وصف نہیںلیکن سیاسی معاملات میں کسی قوم کی رائے میں پختگی کا فقدان اورسطحی جذباتیت کافرواں ہونا ملکی ترقی و خوشحالی کی منزل میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔سیاسی طور پر غیر متلون مزاج قوموں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف توکسی بھی نظام کو مستقل طور پر اپنانے میں ناکام رہتی ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی ووٹوں سے منتخب کردہ حکمرانوں سے بہت جلد بیزاریت کا شکار ہوجاتی ہیں۔پاکستان کی 71سالہ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستانی قوم کی غیر مستقل مزاجی کا مشاہدہ کرناچنداں مشکل نہیں رہتا۔ ملک میں جب جب منتخب حکومتوںیا ان کے سربراہوں کو منتخب صدور ،فوجی آمروں یاعدالتوں نے برطرف کیا، عوامی سطح پر زیادہ تر خوشی کا اظہار ہی دیکھنے میں آیا ۔ فوجی آمریتوں کے درمیان قائم ہونے والی منتخب عوامی حکومتوں سے بھی عوام کو بہت جلد بیزار ہوتے دیکھا گیا۔موجودہ حکومت کو آئے ابھی چھ ماہ نہیں ہوئے تھے کہ میڈیا سمیت عوام کی ایک بڑی تعدادنے اس سے بیزار ی کا اظہار کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ اس حکومت میں ملکی و عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ۔ پاکستانی عوام کے غیر مستقل مزاج ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت قرار دی جاتی ہے۔اگرچہ حالیہ دنوں سمیت ماضی میںاسٹبلشمنٹ کی جانب سے سیاست میں مداخلت کی تردید ہوتی رہی ہے لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی حکومتوں کو بلا شرکت غیرے اقتدار سونپنے کی بجائے شراکت اقتدار کے تحت ہی اقتدار سیاسی حکومتوں کو منتقل ہوتا آیا ہے۔
ویسے توناپختہ رائے اور غیر مستقل مزاجی کسی بھی لحاظ سے اچھا وصف نہیںلیکن سیاسی معاملات میں کسی قوم کی رائے میں پختگی کا فقدان اورسطحی جذباتیت کافرواں ہونا ملکی ترقی و خوشحالی کی منزل میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔سیاسی طور پر غیر متلون مزاج قوموں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف توکسی بھی نظام کو مستقل طور پر اپنانے میں ناکام رہتی ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی ووٹوں سے منتخب کردہ حکمرانوں سے بہت جلد بیزاریت کا شکار ہوجاتی ہیں۔پاکستان کی 71سالہ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستانی قوم کی غیر مستقل مزاجی کا مشاہدہ کرناچنداں مشکل نہیں رہتا۔ ملک میں جب جب منتخب حکومتوںیا ان کے سربراہوں کو منتخب صدور ،فوجی آمروں یاعدالتوں نے برطرف کیا، عوامی سطح پر زیادہ تر خوشی کا اظہار ہی دیکھنے میں آیا ۔ فوجی آمریتوں کے درمیان قائم ہونے والی منتخب عوامی حکومتوں سے بھی عوام کو بہت جلد بیزار ہوتے دیکھا گیا۔موجودہ حکومت کو آئے ابھی چھ ماہ نہیں ہوئے تھے کہ میڈیا سمیت عوام کی ایک بڑی تعدادنے اس سے بیزار ی کا اظہار کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ اس حکومت میں ملکی و عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ۔ پاکستانی عوام کے غیر مستقل مزاج ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت قرار دی جاتی ہے۔اگرچہ حالیہ دنوں سمیت ماضی میںاسٹبلشمنٹ کی جانب سے سیاست میں مداخلت کی تردید ہوتی رہی ہے لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی حکومتوں کو بلا شرکت غیرے اقتدار سونپنے کی بجائے شراکت اقتدار کے تحت ہی اقتدار سیاسی حکومتوں کو منتقل ہوتا آیا ہے۔
پاکستانی قوم کا غیر مستقل مزاج ثابت ہونے کا دوسرا اہم سبب انتخابی مہمات کے دوران کیے جانے والے سیاسی جماعتوں کے بلندو بانگ دعوے ہیں۔ہماری سیاسی جماعتیں یا تو زمینی حقائق کا ادارک کئے بغیر بڑے بڑے ملکی و عوامی مسائل کے حل کے دعوے کرتی رہی ہیں یا پھر محض انتخابات جیتنے کے لیے عوام کو پرکشش نعروں اور بلند و بانگ دعووں کا فریب دیتی چلی آ رہی ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد سیاسی جماعتیں یا سیاسی رہنما جب اپنے دعووںکے مطابق ڈلیور نہیں کر پاتے تو عوام انہیں ہیرو سے زیرو بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو ا ہے ۔عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت نے عوام کو کچھ زیادہ ہی سبز باغ دکھا دیئے تھے۔ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر تو محض خیالی پلاﺅ ہی تھے لیکن بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نہ کرنا اور آٹا، چینی اور پٹرول مافیاز کو لگام ڈالنا تو ان کے بس میں ہونا چاہیے تھا۔ ان کے دور میں ماضی کی نسبت مہنگائی اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تو اپوزیشن جماعتوں کے میڈیا سیلز نے ماضی میں اس حوالے سے عمران خان کے بیانات کی ویڈیوز چلا کر عوام کو باور کرا دیا کہ ان کے لیڈر کے قول وفعل میں شدید عدم مطابقت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا کی وجہ سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوالیکن عوام کے بیزا ر ہونے کی وجہ صرف کرونا کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی ہی نہیں۔ملک میں مہنگائی میں ریکارڈ اضافے کے پیچھے آٹا، چینی ، پٹرول اور ادویات مافیاز ہیں۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو ایسے تمام مافیاز کو لگام ڈالنے کے دعوے کیے تھے لیکن وہ اس حوالے سے بری طرح ناکام رہے۔





