Columnمحمد مبشر انوار

وسیع تر قومی مفاد … محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

عالمی سطح پر معاملات دن بدن گمبھیر ہو رہے ہیں اوردنیا بھر کے ممالک ان تبدیلیوں پر اپنے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہیں۔روس، یوکرائن کی جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اوردوسری طرف چین ،بھارت اور تائیوان کے ساتھ معاملات پر اپنی پوزیشن لے رہے ہیں۔ یورپ ،جو ایک عرصہ تک امریکہ کا حامی رہا ہے بلکہ اس کے ہر عمل میںاس کا دست راست بنا رہا ، اب یورپ انگڑائی لے رہا ہے اور امریکی اقدامات واحکامات کے خلاف اپنے ریاستی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے۔ دنیا ایک نئی سمت میں جا رہی ہے ،سرد جنگ اب باقاعدہ میدانوں میں لڑی جار ہی ہے،روس نے ،یوکرائن کے ساتھ جاری جنگ میں ،پولینڈسے متصلہ علاقے میں بمباری کر کے وہاں قریباً 180کے قریب ایسے افراد کو ٹھکانے لگایا ہے،جن کے متعلق روس کا خیال ہے کہ وہ نیٹو سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی حیثیت فری لانسر کی تھی۔ مطلب یہ کہ یوکرائن جنگ میں نیٹو کی طرف سے انہیںبطور فری لانسر اتارا گیاتھا تا کہ اس کی ذمہ داری کسی بھی طور پر نیٹو یا امریکہ پر عائد نہ ہو اور یہی ایسے آزاد کنٹریکٹر کی خاصیت ہے کہ پکڑے جانے پر وہ اپنے مالک کا نام کسی بھی صورت افشا نہیںکرتے بلکہ ان کی حیثیت کرائے کے قاتلوں کی سی رہتی ہے۔

یوکرائن کے مسلسل مطالبے کے باوجود امریکہ نہ تواسے نیٹو کا رکن بناسکا اور نہ ہی روس کے ساتھ براہ راست جنگ میں اس کی مدد کر سکا،جو امداد امریکہ نے یوکرائن کو مہیا کی وہ صرف اور صر ف معاشی پابندیوں تک ہی محدود رہ سکی،جس کے متعلق گمان یہ ہے کہ ان پابندیوں سے امریکی مفادات حاصل ہوں یا نہ ہو ں لیکن یہ ضرور ہے کہ عالمی منڈی میں ایک طرف تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیںتو دوسری طرف امریکہ کا راج بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔امریکہ اپنی بھرپور کوشش میں ہے کہ کسی طرح چین کو روس سے الگ کر سکے تا کہ اس جنگ میں اسے کامیابی ہو سکے لیکن چینی قیادت ،امریکی ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہے اس لیے و ہ کسی طرح بھی امریکی چالوں کا شکار نہیں ہو رہا، بلکہ ہر ملاقات اور ہر چال کے جواب میں پہلے سے زیادہ عزم کے ساتھ روس کے ساتھ کھڑا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ امریکہ نے چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو حد میں رکھنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش اور اس کے خلاف ہر طرح کے محاذ بنائے ہیں،اس کے پڑوسی ممالک کو اس کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش بھی کرچکا ہے لیکن اس کا سب سے قریبی اتحادی،بھارت اس کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا ،الٹا امریکی شہہ پر اپنے بہت سے علاقے چین کے ہاتھوں گنوا بیٹھا اوراب بھی مسلسل شکست سے دوچار ہو رہا ہے۔
پاکستان ایک عرصہ تک برصغیر میں امریکی مفادات کی نگہبانی کرتا رہا ہے لیکن بدلتے حالات اور امریکہ کی بے اعتباری نے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے پیدا کر دئیے ہیں۔ بالخصوص موجودہ پاکستانی حکومت اس امر پر قائل ہے کہ اسے امریکی جنگ میں ساتھ دے کر اپنے ملک میں مسائل کھڑے کرنے کی بجائے،اس سے الگ رہ کر اپنے ریاستی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ اس پس منظر میں عمران خان نے اپنے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں ”قطعی نہیں“کہہ کر ایک طرف تو پاکستانی قوم کو مسرور کیا(جو بالعموم امریکی سامراج کے خلاف کھڑے ہونے والی ہر قیادت کو اپنا مسیحا تصور کرتی ہے)تو دوسری طرف امریکہ کو اپنا مخالف بنا لیا۔ امریکی پالیسی ساز اپنے حلیفوں یا حریفوں کے ساتھ کبھی بھی مخلص نہیں رہے کہ ان کا خلوص کلیتاً اپنا ریاستی مفادات رہتا ہے،اس لیے وہ کسی بھی دوسرے ملک میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں میں ہی سرمایہ کاری کرتا ہے اور بوقت ضرورت ان سے کام نکلوانے کا فن بھی بخوبی جانتا ہے۔بہرکیف،صرف امریکہ کو کسی بھی کام کے لیے مورود الزام اس لیے نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ بسا اوقات ریاست کے اندر ،دانستہ و نا دانستہ،بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں امریکہ کو اپنے مفادات حاصل کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے اور وہ اندرونی حالات سے باآسانی کھیل ،کھیل جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ حکومت سازی میں کون کون شریک کار رہتا ہے یا کس کے اشارہ ابرو سے حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیںاور حکومتوں سے ان کی توقعات کیا رہتی ہیں،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت،حکومت بناتے ہی ببانگ دہل یہ اعلان کرتی نظر آتی ہے کہ سب سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہیں اور ہنی مون کا دورانیہ ایسے ہی ہنسی خوشی گذرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ،ایک پیج کا بیانیہ متاثر ہوتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے کہ ہر نئی بننے والی حکومت کی یہ خام خیالی ہوتی ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی گرفت معاملات پر مضبوط تر ہو رہی ہے اور وہ آزادانہ فیصلے کرنے میں خودمختار ہے لیکن پس پردہ ایسی کوئی بھی حقیقت موجود نہیں ہوتی۔ گذشتہ تین ادوار کو دیکھیں تو واضح ہے کہ ہر حکومت بیساکھیوں پر قائم ہوئی اور یہ بیساکھیاںدرحقیقت پس پردہ طاقت کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی ہیں اورجہاں کہیں بھی حکومت اپنی من مانی کرنے کی کوشش کرتی ہے، یہ بیساکھیاں لرزنے لگتی ہیں اور حکومت کو دوبارہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے،پرانی تنخواہ پر کام کرنا پڑتا ہے۔ حکومتی من مانیوں میں نواز شریف کا دور حکومت زیادہ ملوث رہا ہے کہ میاں صاحب کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ انہیں اقتدار کلی حاصل ہو،جو 1997کی اسمبلی میں انہیں ملا بھی، لیکن بدقسمتی سے میاں صاحب اس اقتدار کلی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے بم کو لات مار بیٹھے۔ اس کے بعد کسی بھی حکومت کو ایسا اقتدار کلی نصیب نہیں ہوا بلکہ بیساکھیوں کے سہارے ہی حکومتیں قائم ہوئیں اور ان بیساکھیوں نے حکومتوں کو ان کی حد میں رکھا۔ ایک پیج کی بات سمجھنے والے یہ بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ جس پیج کی بات ہو رہی ہے اس کی خواہشات کیا ہوتی ہیں اور وہ حکومتوں سے کیا چاہتا ہے؟ایک پیج کے علاوہ جو دوسری اہم ترین حقیقت ہے کہ حکومت بذات خود کیا کررہی ہے؟کیا حکومت نے عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی لی ہے؟ عوام کو روزمرہ زندگی میں ریلیف دیا ؟اپنے انتخابی منشور پر عمل درآمد کیا؟جن بیساکھیوںپر حکومت قائم ہے ان کو عزت دی اور ان کے ساتھ وعدے پورے کئے ؟ یا ان وعدوں کو بقول زرداری صاحب قرآن و حدیث نہ سمجھتے ہوئے مسترد کیا،وعدہ خلافی کی ہے؟
اس پس منظر میں اگر کسی بھی وقت ایک پیج برقرار نہیں رہتا تو کیا یہ بیساکھیاں بھی حکومت کو میسر رہ سکتی ہیں؟موجودہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہو چکی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد نے حکومت کو لرزا دیا ہے،اتحادی جو پہلے ہی بہ امر مجبوری حکومت کے ساتھ تھے،کسی اشارہ ابرو کے منتظر ہیں بقول کامل علی آغا،سینیٹر قاف لیگ،کے وہ ریاست کے ساتھ ہیں اور جو ریاست کے مفاد میں ہوا،ان کی جماعت وہی فیصلہ کرے گی۔ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے بھی اسی طرح کامو ¿قف اپنائے ہوئے ہیں،”باپ“ بھی اسی طرح کے خیالات کی عکاسی کر رہی ہے،اتحادیوں کی اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتیں جاری ہیں اور اگریہ تسلسل جاری رہتا ہے تو گمان یہی ہے کہ حکومت قائم رکھنا مشکل ہو گا۔ تاہم حکومت بھی اپنے تمام داو ¿ پیچ آزما رہی ہے لیکن اگر ”فیصلہ“ ہو چکا ہے تو وسیع تر قومی مفاد میں بیساکھیوں کا سہارا ختم ہو جائے گا لیکن یہ وسیع تر قومی مفاد بہرطور نہ کل قوم کے مفاد تھا اور نہ آج قوم کے مفاد میں نظر آتا ہے البتہ اس وسیع تر قومی مفاد کی آڑ میں سب سیاسی جماعتیں اپنا حصہ بقدر جثہ حاصل کرنے کے چکر میں ضرور نظر آتی ہیں،جسے انہوں نے وسیع تر قومی مفاد کا نام دے رکھا ہے۔

جواب دیں

Back to top button