Column
جمہوریت اور اتحادیوں کا امتحان ….. علی حسن

علی حسن
یہ اعصاب کا امتحان بھی ہے۔ ایک ایک فرد کی حاضری اور ووٹ کی گنتی ہوگی پھر کہیں جا کر نتیجہ آئے گا۔ حکومتی جماعت کے خلاف داخل کی گئی تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں قومی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ طے ہونا ہے۔ طریفین کا دعویٰ ہے کہ انہیں مطلوب اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ حکومتی جماعت تحریک انصاف اپنے اراکین اور اتحادیوں کو منانے اور سمیٹنے میں ہی مشغول ہے۔ کسی ایک کو تو کامیابی حاصل ہوگی لیکن ملک کے سب سے اہم، بڑے اور مقتدر ادارے کے اراکین کے رویہ پر انگلیاں ضرور اٹھ رہی ہیں کہ کیا ملک کے اہم ترین ایوان کے اراکین اس طرح جمہوریت کی نشو ونما اور بقا چاہتے ہیں؟ سالوں سے حکومت کے ساتھ چلنے والے ، وزارتیں رکھنے والے ، امتحان کے اس وقت میں اپنے مطالبات منوانے پر مصر ہیں۔ حالانکہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں ایک سال ہی رہ گیا ہے۔ تحریک پیش کرنے والوں نے تو سوشل میڈیا کے مطابق عہدے بھی تقسیم کر لیے ہیں لیکن لوگوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستانی سیاست دانوں نے ماضی میں کبھی ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا۔ ہر تحریک کا انجام جمہوریت کی بقا کے لیے نہیں ہو سکا بلکہ وفاقی وزیر شیخ رشید کے مطابق ایسا نہ ہو کہ دس سال لائن میں لگا رہنا پڑے۔ دس سال سے ان کا اشارہ غیر آئینی تبدیلی کی طرف ہوگا۔
اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو ملک اور جمہوریت کا ہی نقصان ہے اور اگر تحریک ناکام ہوتی ہے تو بھی ملک اور جمہوریت کا ہی نقصان ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی غلطیوں کا خمیازہ تو بھگت رہے ہیں۔ اتحادیوں کا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ نہیں پکڑا، انہیں مناسب وقت نہیں دیا اور جس بات کا سب سے زیادہ فقدان محسوس کیا گیا وہ مشاورت کا فقدان تھا۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ ان کے گرد ایسے افراد کا ہالا رہا جو کسی عتاب کو شکار ہونے کے خوف کی وجہ سے صائب مشورے نہیں دے سکے۔ مفتوں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مرحوم حکیم اجمل خان صاحب کے صاحبزادہ حکیم جمیل احمد خان کو بھی اس کے مصاحبوں کی احمقانہ خوشامدوں نے تباہ کیا۔ ہندوستان کے وائسرائے گورنمنٹ ہائوس میں سال میں ایک مرتبہ دہلی کی پبلک کو پارٹی دیا کرتے تھے ۔ دو ہزار کے قریب جو دعوت نامے جاری کئے گئے ان میں ایک حکیم جمیل احمد خان کے نام بھی تھا۔ حکیم صاحب کے مصاحبوں میں سے کسی نے کہا کہ پہلے وائسرائے صاحب کو حکیم صاحب سے ملاقات کے لیے آنا چاہیے اس کے بعد حکیم صاحب کو اس دعوت میں جان چاہیے ۔ خوشامدیوں کی اس محفل میں نوے فیصد جاہل، نالائق اور سیاست سے قطعی نا آشنا تھے ۔ جن لوگوں کو حکیم جمیل احمد خان سے ملنے کا اتفاق ہوا ، وہ اقرار کریں گے کہ حکیم صاحب ذاتی طور پر بے حد شریف، وضع دار اور اخلاقی اعتبار سے بلند شخصیت ہیں مگر خوشامدیوں کے نرغے میں آکر حکیم صاحب بالکل ہی تباہ ہو گئے۔ وہ شریف منزل (حکیم اجمل خان کی رہائش گاہ اور مطب) جہاں ہر وقت سینکڑوں مریضوں کا مجمع رہتا، ہندوستان کے اکثر راجے، مہاراجے، اور نواب علاج کے لیے آتے اور حکیم اجمل خان کے زمانے میں جسے ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی، آج وہاں الو بول رہے ہیں ۔
اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو ملک اور جمہوریت کا ہی نقصان ہے اور اگر تحریک ناکام ہوتی ہے تو بھی ملک اور جمہوریت کا ہی نقصان ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی غلطیوں کا خمیازہ تو بھگت رہے ہیں۔ اتحادیوں کا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ نہیں پکڑا، انہیں مناسب وقت نہیں دیا اور جس بات کا سب سے زیادہ فقدان محسوس کیا گیا وہ مشاورت کا فقدان تھا۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ ان کے گرد ایسے افراد کا ہالا رہا جو کسی عتاب کو شکار ہونے کے خوف کی وجہ سے صائب مشورے نہیں دے سکے۔ مفتوں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مرحوم حکیم اجمل خان صاحب کے صاحبزادہ حکیم جمیل احمد خان کو بھی اس کے مصاحبوں کی احمقانہ خوشامدوں نے تباہ کیا۔ ہندوستان کے وائسرائے گورنمنٹ ہائوس میں سال میں ایک مرتبہ دہلی کی پبلک کو پارٹی دیا کرتے تھے ۔ دو ہزار کے قریب جو دعوت نامے جاری کئے گئے ان میں ایک حکیم جمیل احمد خان کے نام بھی تھا۔ حکیم صاحب کے مصاحبوں میں سے کسی نے کہا کہ پہلے وائسرائے صاحب کو حکیم صاحب سے ملاقات کے لیے آنا چاہیے اس کے بعد حکیم صاحب کو اس دعوت میں جان چاہیے ۔ خوشامدیوں کی اس محفل میں نوے فیصد جاہل، نالائق اور سیاست سے قطعی نا آشنا تھے ۔ جن لوگوں کو حکیم جمیل احمد خان سے ملنے کا اتفاق ہوا ، وہ اقرار کریں گے کہ حکیم صاحب ذاتی طور پر بے حد شریف، وضع دار اور اخلاقی اعتبار سے بلند شخصیت ہیں مگر خوشامدیوں کے نرغے میں آکر حکیم صاحب بالکل ہی تباہ ہو گئے۔ وہ شریف منزل (حکیم اجمل خان کی رہائش گاہ اور مطب) جہاں ہر وقت سینکڑوں مریضوں کا مجمع رہتا، ہندوستان کے اکثر راجے، مہاراجے، اور نواب علاج کے لیے آتے اور حکیم اجمل خان کے زمانے میں جسے ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی، آج وہاں الو بول رہے ہیں ۔
قاف ناراض، ایم کیو ایم ناراض، حتیٰ کہ بلوچستان عوامی پارٹی تک ناراض۔ یہ تین جماعتیں ہی مشترکہ طور پر17 اراکین کی طاقت رکھتے ہیں۔ اگر یہ سترہ افراد تحریک کی حمایت کرتے ہیں تو حکومت کو 179کی بجائے 162اراکین کی حمایت حاصل رہے گی ۔ تحریک کی کامیابی کے لیے 172 اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ عمران خان وزیر اعظم ہونے کے باوجود اپنے اتحادی ساتھیوں کے دلوں میں کیوں نہیں اتر سکے؟ اسے ان کی انا پرستی کا نام دیا جائے یا ان کا تکبر کہا جائے لیکن بہر حال اس وقت وہ سخت ذہنی دبائو کے علاوہ امتحان سے دوچار ہیں۔ سیاسی مبصرین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنمائوں نے جمہوریت رویوں اور تقاضوں کے بر عکس فیصلہ کیا ہے کہ عین وقت پر عہدوں کے وعدے پر ہم سفر تبدیل کر نے کا سوچ رہے ہیں۔ صرف عہدوں کے لیے سیاسی ہم سفر تبدیل کرنا کسی اچھی ذہانت کا ثبوت نہیں ۔ اگر ہم سفر کی تبدیلی کی ناراضگی کا اظہار ہے، تو بھی وقت کا انتخاب سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری لگتا ہے۔ اکثر سیاست دانوں کے کردار کی پستی سامنے آئی ہے۔ کردار کی یہ پستی تو اکثر سیاست دانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ خوشامد ایسی کہ دیکھنے، سننے والے پریشان ہو جائیں ۔
برصغیر میں سیاست دانوں کا مجموعی سیاسی رویہ بڑا خوش کن نہیں رہا ۔ برصغیر میں صحافت کے میدان میں دیوان سنگھ مفتوں بڑا نام قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ سیف و قلم میں ایک جگہ وہ مضمون ’’ سیاست دانوں کی دروغ بیا نیاں ‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’میرے تجربہ کے مطابق لیڈر کلاس میں سے تو نوے فیصد لگ جھوٹ بولتے ہیں ‘‘۔ یہ تبصرہ انہوں نے ایک سیاسی رہنماء کے کئے گئے وعدے کے سلسلے میں اپنے ایک دوست سے کیا تھا ۔ مفتون لکھتے ہیں کہ ’’ انگریزی زبان کی کہاوت کے معنی یہ ہیں کہ’’ مصیبت بہت تکلیف دہ ہوا کرتی ہے۔ مگر اس کا ایک روشن پہلو موجود ہے کہ کسی مصیبت میں دوستوں کا امتحان ہوجاتا ہے۔ اس طرح اقتدارا ور عروج کا ختم ہونا تکلیف دہ ضرور ہے، مگر اس کا روشن پہلو ضرور موجود ہے کہ وہ دوست الگ ہوجاتے ہیں، جن کی دوستی صرف سود و زیاں یا فائدہ و نقصان کی بنیادوں پر ہوا کرتی تھی اور اس چھانٹ میں صرف وہ ہی دوست باقی رہ جاتے ہیں جن کی دوستی اخلاص محبت اور قدر کی بنیادوں پر تھی اور یہ ہی دوست قابل فخر ہیں‘‘۔ کیا عمران خان کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اب اپنی ایک ٹیم سامنے لاسکیں تاکہ آئندہ انتخابات میں اپنی کارکردگی دکھا سکیں۔
برصغیر میں سیاست دانوں کا مجموعی سیاسی رویہ بڑا خوش کن نہیں رہا ۔ برصغیر میں صحافت کے میدان میں دیوان سنگھ مفتوں بڑا نام قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ سیف و قلم میں ایک جگہ وہ مضمون ’’ سیاست دانوں کی دروغ بیا نیاں ‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’میرے تجربہ کے مطابق لیڈر کلاس میں سے تو نوے فیصد لگ جھوٹ بولتے ہیں ‘‘۔ یہ تبصرہ انہوں نے ایک سیاسی رہنماء کے کئے گئے وعدے کے سلسلے میں اپنے ایک دوست سے کیا تھا ۔ مفتون لکھتے ہیں کہ ’’ انگریزی زبان کی کہاوت کے معنی یہ ہیں کہ’’ مصیبت بہت تکلیف دہ ہوا کرتی ہے۔ مگر اس کا ایک روشن پہلو موجود ہے کہ کسی مصیبت میں دوستوں کا امتحان ہوجاتا ہے۔ اس طرح اقتدارا ور عروج کا ختم ہونا تکلیف دہ ضرور ہے، مگر اس کا روشن پہلو ضرور موجود ہے کہ وہ دوست الگ ہوجاتے ہیں، جن کی دوستی صرف سود و زیاں یا فائدہ و نقصان کی بنیادوں پر ہوا کرتی تھی اور اس چھانٹ میں صرف وہ ہی دوست باقی رہ جاتے ہیں جن کی دوستی اخلاص محبت اور قدر کی بنیادوں پر تھی اور یہ ہی دوست قابل فخر ہیں‘‘۔ کیا عمران خان کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اب اپنی ایک ٹیم سامنے لاسکیں تاکہ آئندہ انتخابات میں اپنی کارکردگی دکھا سکیں۔





