سلیکٹڈ اور بھاشانی والا کردار! … کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
نوجوان ذوالفقار علی بھٹو سیاست میں داخل ہوئے تو انہیں لانے والا اسکندر مرزا تھا جن کی ایرانی بیوی ناہید سے نصرت بھٹو کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ چونکہ ملک میں سیاسی نظام مستحکم نہیں تھا تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس وقت کی وفاقی کابینہ میں بطور وزیر سلیکٹ ہی کیا گیا تھا۔ نواز شریف جب پہلی مرتبہ وزیر بنے تو اپنی مخصوص خدمات کے عوض الیکٹڈ نہیں بلکہ سلیکٹڈ ہی تھے یوں لاہور کے گوالمنڈی سے کونسلر کا الیکشن ہارنے والے کو پنجاب میں صوبائی وزیر خزانہ سلیکٹ کر لیا گیا پھر 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے بندوبست میں صاحبزادہ حسن محمود اور ملک اللہ یار آف کھنڈا کی بجائے پہلی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے والے نواز شریف کو گورنر غلام جیلانی اور جنرل ضیاء الحق نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سلیکٹ کیا ۔ اس کے بعد جب وفاقی حکومت بنانے کی باری آئی تو محمد خان جو نیجو کو بھی سلیکٹ ہی کیا گیا تھا۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں عوام کے منتخب اراکین اسمبلی کو وزیر اعلیٰ و وزیر اعلیٰ بننے کے لیے صدر مملکت سلیکٹ ہی کرتا ہے اور پھر حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو 1988میں جب غلام اسحاق خان نے طویل مدت کے بعد قومی اسمبلی کی93 سیٹیں جیتنے کے بعد حکومت بنانے کی دعوت دی تو وہ بھی سلیکشن ہی تھی کہ وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ پر ان کا اختیار نہیں تھا۔ 1989 کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد جب غلام اسحاق خان نے محترمہ کی حکومت اگست 1990 میں گھر بھیجی تو آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے جو الیکشن لڑا گیا تھا اس کے سرخیل غلام مصطفی جتوئی تھے لیکن90 کے الیکشن کے بعد کے بندوبست میں نواز شریف کو بطور وزیر اعظم سلیکٹ کیا گیا ۔ اس کے بعد کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ گو مختلف ادوار میں پاکستان میں انتخابات ہوتے رہے لیکن وزیر اعظم و وزرائے اعلیٰ سلیکٹڈ ہی ہوتے تھے اور عوام کی منشاء کے مطابق حکومتیں کبھی بھی نہیں بنیں۔ اس کی مثال 1988 میں پنجاب میں بننے والی صوبائی حکومت تھی۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اکلوتی اکثریتی پارٹی تھی لیکن پنجاب میں نوازشریف کو بطور وزیر اعلیٰ سلیکٹ کیا گیا تھا۔ یہ سلیکشن کا سلسلہ پاکستان میں قریباً ہر سیاستدان کے ساتھ چلتا رہا ہے اور میاں نواز شریف واحد سیاسی شخصیت ہیں جو بار بار سلیکٹ ہونے میں کامیاب ہوئے۔
معین قریشی، ظفر اللہ خان جمالی اور سید یوسف رضا گیلانی گو وزرائے اعظم تھے لیکن وہ بھی تو اس منصب کے لیے سلیکٹ کئے گئے تھے۔ پاکستان ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے اور اس میں پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے سرحدوں پر اور اندرون ملک بچانے والی افواج پاکستان ہی ہے اور جو بھی حکومت برسر اقتدار آتی ہے افواج پاکستان کی منظوری یا آشیرواد کے بغیر اس کا کام کرنا ممکن نہیں۔ مطلب پاکستان جن شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے اور اس تناظر میں جو پالیسیاں ملک کی سکیورٹی ایجنسیاں ترتیب دیتی ہیں ان کی منظوری اور تائید اگر حکومت وقت نہ دے تو پھر پاکستان کی سالمیت مشکل میں پڑ جائے لیکن جو الزام آج کی اپوزیشن عمران خان پر لگاتی ہے مجھے تو اس میں سے ملک کے خلاف سازش کی بو آتی ہے کہ پاکستان کے عوام نے جس شخص کی جماعت کو قومی اسمبلی کے 155ممبران کو منتخب کر کے ایوان میں پہنچایا یہ سب اسے سلیکٹڈ کہتے ہیں۔ میرے لیے حیرت کا باعث ہے کہ بارہا آزمائی ہوئی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہر روز سلیکٹڈ تو کہا جاتا ہے لیکن سلیکٹر کا نام لیتے ہوئے ان کی بھی جان نکلتی ہے۔ کاش اپوزیشن کی تمام قیادت اتنی صاف ہوتی کہ ماضی میں عوام کے مینڈیٹ کو روندتے ہوئے عوامی رائے چوری کرنے میں ملوث نہ ہوتی اور سلیکٹرز (اگر کوئی ہیں) کا نام لینے کی ہمت بھی رکھتے۔ دراصل اپوزیشن کی تمام ہی جماعتوں کا موجودہ موقف پاکستان کی افواج کے خلاف ہے۔
پچھلے دو سالوں میں جس قسم کی زبان پاکستانی فوج اور جرنیلوں کے خلاف اپوزیشن کے نواز شریف اور مریم صفدر نے سرعام بولی اس کا تصور کسی ملک دشمن سے بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ ایسا ہی ماجرا فضل الرحمان کا ہے کہ وہ اپنے آبائی حلقے کی دونوں سیٹیں ہارنے کے باوجود ملک کے نظام کی تباہی کے لیے کوشاں ہیں۔ قارئین کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں مولانافضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود ہر موقعہ پر یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ ’’پاکستان بنانے کی غلطی میں میں اور میری جماعت شامل نہیں ہیں‘‘ آج ہوس اقتدار میں جو کچھ مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں وہ ناقابل یقین اور ناقابل برداشت ہے۔سابقہ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کی وجہ شہرت بھی جلاؤ گھیراؤ کی سیاست تھی اور مشرقی پاکستان میں عوام کو متشدد کرنے میں مولانا بھاشانی کا بہت بڑا اور مکروہ کردار تھا۔ آج جس قسم کا اعلان 23 مارچ کو(لانگ مارچ) مولانا فضل الرحمان نے کیا ہے وہ او آئی سی کے 15سال بعد اسلام آباد میں ہونے والے تاریخی اجلاس کے تناظر میں نہایت خطرناک اور ملک دشمنی پر مبنی ہے۔ ریاست پاکستان میں جتھوں کی سیاست و بالادستی کی کبھی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ جب چاہیں نظام کو الٹ پلٹ کر رکھ دیں۔ ابھی چند دن قبل ہی جو کچھ پارلیمنٹ لاجز میں فضل الرحمان کے متوالے مدرسوں کے طالب علموں نے کیا وہ نہایت افسوسناک اور خطرناک تھا۔
بات عدم اعتماد سے شروع ہو کر ملک میں انتشار پیدا کرنے تک پہنچ چکی ہے۔اگر پی ڈی ایم کے پاس قومی اسمبلی کے ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری ہوتی تو پھر انہیں اس قسم کے انتشار پر مبنی اعلانات کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو بھاری رقوم کے عوض خریدنے کی کوششوں کا بھانڈہ پھوٹ چکاجبکہ حکمران جماعت نے کچھ ثبوت ویڈیوز کی شکل میں ڈی چوک میں27 مارچ کے اپنے ممکنہ جلسے میں دکھانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ بظاہر یہ ہی لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے اتحادی(بالشمول قاف لیگ) بھی اپوزیشن کے جھانسے میں نہیں آئے تو اب ملک میں وسیع پیمانے پر افراتفری پھیلانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ حکومت کو ملک میں انارکی پھیلانے والے کسی بھی گروپ یاجتھے کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا کہ اگر اس طرح کے اقدامات کی حمایت کی گئی تو پھر ریاست کا وجود شدید خطرات کا شکار ہو جاے گا۔
بطور صحافی مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مریم صفدراقتدار کے لیے ایک جانب افواج پاکستان کے خلاف غلاظت اچھالتی رہیں اور دوسری جانب چور دروازوں پر بھی دستک دیتی رہیں جبکہ شہباز شریف اندر سے نواز شریف کے ساتھ ہونے کے باوجود مقتدر حلقوں کو قابل قبول ہونے کی یقین دہانیوں کرواتے رہے۔ اقتدار کے پجاری اور ملکی دولت کے لٹیروں کا یہ اصل چہرہ ہے جو نہایت بھیانک ہے۔ویسے مجھے حیرت تو تحریک انصاف کے اراکین اور ترجمانوں پر بھی ہے جو4 سال سے سلیکٹڈ کہنے والوں کو یہ جواب نہیں دے سکے کہ عوام اراکین اسمبلی کو الیکٹ کرتے ہیں اور پھر وہ اپنا وزیر اعظم سلیکٹ کرتے ہیں تو اراکین اسمبلی کا سلیکٹڈ ہونے میں کیا برائی ہے۔ رہی بات اس نازک موقعہ پر تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے اور پھر جتھوں کے ساتھ اسلام آباد پر یلغار کے اعلان کی، تو یہ واضع کرتا ہے کہ اصل مقصد کشمیر پر ہونے والے او آئی سی کے اجلاس کو ناکام بنانا ہے۔اس اجلاس میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلیمان اپنے شمولیت موجودہ بدترین صورتحال کی وجہ سے منسوخ کر چکے ہیں اور اپوزیشن کو اس محاذ پر ملک دشمنی میں کامیابی مل چکی ہے لیکن اس اجلاس میں روس کے سعودی عرب میں سفیر اور دفاعی آبزرور بھی شرکت کر رہے ہیں اور اپوزیشن کا ملک میں انارکی پھیلانے کے منصوبوں کا مقصد اب بالکل واضع ہو چکاہے جو عمران خان کو گھر بھیجنے کی بجائے بیرونی قوتوں(یورپ اور امریکہ) کے خوفناک ایجنڈے کی تکمیل ہے۔







