Column
انتقام …….. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
سیاست کو عبادت ، خدمت اور مظلوم کی مدد جبکہ ظالم کے خلاف جہاد تصور کیا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں سیاست اس سب کے بالکل الٹ ہے اور زیادہ تر لوگ سیاست کو دھوکہ، فراڈ اور کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں توقانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہوتا، وہاں کے سیاستدان اپنے ملک اور قوم سے مخلص اور سیاست کو خدمت اور عبادت کی نظر سے دیکھتے اور کرتے ہیں۔ان ممالک میںعدم اعتماد اور قوم کی ناراضگی پر سیاسی قائدین خود دست بردار ہو جاتے ہیں۔ عوام کے مفاد کی خاطر وہ اپنے مفاد کو آگے نہیں لاتے۔ انتقام نام کی کوئی چیز ان کی زندگی میں نہیں ہوتی۔دنیا میں جتنے بھی عظیم رہنماء گزرے کسی کی زندگی میں انتقام لینے کا کوئی واقعہ درج نہیں،بلکہ حسن سلوک سے ان کی زندگیاں استوار ہیں۔
نیلسن منڈیلا ایک عظیم لیڈر گزرے ہیں، آج ایسے کم لوگ ہوں گے جو ان کے نام اور شخصیت سے واقف نہ ہوں۔ ان کا ایک مشہور واقعہ ہے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد ایک دن کہیں جا رہے تھے کہ سڑک کنارے ایک عام ہوٹل میں کھانے کے لیے رک گئے۔ ٹیبل پر بیٹھنے کے بعدان کی نظر سامنے میز پر بیٹھے ایک آدمی پر پڑی جو بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں نیلسن منڈیلا کے ساتھیوں نے پوچھا کہ یہ بندہ آخر کیوں ایسا گھبرایا ہوا ہے تو نیلسن منڈیلا نے اس بندے کو اپنی میز پر بلایا اور اپنے ساتھ کھانے پر بٹھایا، خوب کھانا کھلایا اور پھر اس کے بعد اس کو پیار محبت سے رخصت کر دیا۔ یہ سارا ماجرا نیلسن منڈیلا کے ساتھی دیکھ رہے تھے۔ اس کے جانے کے بعد اس عظیم شخصیت نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ شخص جیل میں ڈیوٹی پر تھا اور اس کو مجھے سخت سزا دینے پر مقرر کیا گیا تھا اور یہ مجھے بہت زیادہ سخت سزا دیا کرتا تھا، بہت سختی سے میرے ساتھ پیش آتا تھا۔ آج جب اس نے مجھے دیکھا تو اسے وہ ظلم اور تشدد یاد آ گیا اور یہی سوچ رہا تھا کہ اب میں اس سے بدلہ لوں گا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ایسے ہوتے ہیں عظیم لیڈر اور تاریخ کے سنہری اوراق کے پیامبر، لیکن اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جسے بطور حوالہ پیش کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست کو عبادت، خدمت اور قوم کا نام روشن کرنے کی بجائے دھوکہ دہی و فراڈ سے اپنا بینک بیلنس بنانے، اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے اور ملک اور قوم کا پیسہ اڑانے، عیاشیاں کرنے، بیرون ممالک میں جائیدادیں خریدنے، غرض ہر ناجائز طریقے سے مال کمانے کا زریعہ بنا دیا گیا ہے۔ ملک کے غریب عوام کا گلا دبانا، انہیں محروم رکھنا،ذاتی عناد اور انتقام لینے کا نام سیاست رکھا گیا ہے ۔ ہم نے سیاست کو اتنا بدنام کیا ہے کہ لوگ سیاست کے نام سے بھی نفرت کرتے ہیں اور سیاسی لیڈر کو فراڈی، دھوکہ باز، رشوت خور اور حرام خور سمجھتے ہیں۔ رویے اس قدر تلخ ہیں کہ ہمارے ہاتھوں دوسرے کی عزت تک محفوظ نہیں۔گذشتہ دنوںفیڈرل لاجز میں پولیس اور جمعیت علمائے اسلام کے رضاکاروں کے درمیان جو ہاتھا پائی اور گالی گلوچ کا منظر دیکھاتو یقین کریں ایک لمحے کے لیے میں اپنے حواس میں نہ رہا۔ اسی دوران ایک دوست ملک ثناء اللہ جو قومی امن کمیٹی کو دیکھتے ہیں ،کی کال آئی ، کہنے لگے ٹی وی پر جو منظر ہے اسے دیکھ کر میرے بچے ملکی سیاست سے بہت مایوس ہوئے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بچوں کے ذہنوں پر اس طرح کے واقعات سے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
یہی تو وہ تنگ نظری اور انتقامی روش تھی جس سے تنگ آکر قوم نے ایک نئی جماعت کو حکمرانی کا موقع دیا، مگر افسوس ہم آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جس کی روش قیام پاکستان کے پانچ سال بعد ڈال دی گئی تھی۔بروز اتوار جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ میں ٹماٹر اور آلو کا ریٹ کنٹرول کرنے نہیں آیا بلکہ میں تو آپ کو ایک قوم بنانے آیا ہوں۔حالانکہ عمران خان یہ دعویٰ کرکے آئے تھے کہ وہ ایسی حکومت کریں گے کہ ہمارے نوجوان اپنے ملک واپس آجائیں گے۔ پاکستان دوسرے ملکوں کو قرضہ دے گا۔مہنگائی کا خاتمہ ہو گا،ہم کسی صورت بھیک نہیں مانگیں گے، ساڑھے تین سالوں میں ان سب نعروں اور وعدوں کا کیا حال ہوا ہے؟ موجودہ حالات کو دیکھ کرکہا جا سکتا ہے کہ عمران خان بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ مہنگائی اور افراتفری میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا چکی۔کون سرخرو ہو گا اور کون رسوا ،فیصلہ ابھی باقی ہے۔مگر قوم دو واضح حصّوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک حصّہ دعائیں کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمران خان کو شکست سے بچالے۔ ایک حصّہ پوری طرح مطمئن ہے کہ اب عمران خان سے نجات مل رہی ہے۔ پھر پرانی پارٹیاں حکومتیں بنائیں گی۔بہت سے دوست کہتے ہیں کہ واضح بتائیں کیا ہونے جا رہا ہے؟اس ملک میں کوئی مسئلہ میرٹ پر حل نہیںہوتا۔ الیکشن کبھی منصفانہ نہیں ہوتے۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں کبھی ووٹنگ اصولوں اور حقائق کے مطابق نہیں ہوتی۔ اس لیے یہاں آپ کوئی تجزیہ اصولوں کی بنا پر نہیں کرسکتے۔ ہماری تاریخ ہے یہاں غیب سے مداخلت ضرور ہوتی ہے۔غیبی مدد اور تعاون کے بغیر یہاں کوئی بیل منڈے نہیں چڑھ سکتی۔ سنجیدگی سے تحقیق کی ضرورت ہے کہ ہمیشہ ابتدا سے مال و زر کو بصیرت اور بصارت پر ہم فوقیت کیوں دیتے آرہے ہیں؟ ہمارے ہاں ہی سیاست کے میدان میں اترے کرداروں کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں،اربوں روپے مالیت کے محلات کیوں ہیں؟ عوام سے تعلق استوار کرنے کی بجائے خواص سے ہی ہم پینگیں کیوں بڑھاتے ہیں؟ ایسے ماحول میں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگلا منظر کیا ہو گا۔
تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن کا آئینی حق ہے لیکن عوام کے بھی کچھ آئینی حقوق ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں ان کے لیے کیا کیا راحتیں لے کر آئے گی۔ کون وزیر اعظم ہوگا۔ اس کی اقتصادی،تعلیمی اورخارجہ پالیسی کیا ہوگی؟سچ پوچھیں،مجھے تو اس کے بعد انتقام اپنی انتہا پر دکھائی دے رہا ہے۔ تحریک کی ناکامی کی صورت میں کپتان کا انتقام جب کہ کامیابی کی صورت میں اپوزیشن کاانتقام۔ دعا ہے اس سب میں ریاست بڑے نقصان سے محفوظ رہے۔وطن عزیز میں جب بھی سیاسی تحریکوں نے جنم لیا نتائج کوئی اچھے نہیں نکلے۔اس دفعہ حکومت اور اپوزیشن کا موڈ بتا رہا ہے کہ معاملات اس نہج پر پہنچ جائیں گے جہاں جمہوریت کو بیوہ بھی ہونا پڑ سکتا ہے۔ سیاست میں بلوغت کا مظاہرہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ایک دوسرے کو زیر کرنے اور انتقام کی پیاس بجھانے کے چکر میں کہیں ایسا نہ ہو کہ پورا کھیل ہی لپیٹ دیا جائے۔جمہوریت پسند قوتوں کو کردار ادا کرنا چاہیے ۔







