غیر سیاسی مکالمہ ….. ناصر نقوی

نا صر نقوی
اللہ کے فضل و کرم سے سب اچھا ہے،نہیں! بندوں کی کرامات سے کچھ اچھا نہیں، دال میں کچھ کالا ہے، نہیں! پوری دال کالی ہے، مالک کائنات جسے چاہتا ہے ،عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت …. نہیں ایمان رکھنے کے باوجود اس کے بندے عزت اور ذلت کے فیصلوں میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔ آدم زادے دوسروں کی عزتوں سے کھیل کھلواڑ کرکے اپنے لیے عزت ڈھونڈ رہے ہیں مگرنصیب ذلت بن رہی ہے ،پھر کیا ہونا چاہئے ؟ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اب تک پاکستانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، سیاسی میدان میں لفظی جنگ تو ہر دور میں ہوئی لیکن اب بات بڑھ گئی ہے، زبانی کلامی کے بعد بندوق کے نشانے اور نسلوں تک بات پہنچ چکی ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں پہلے وفاق اور پھر پنجاب کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ توقعات کی جا رہی تھیں کہ پہلا دھکا بزدار حکومت کولگایا جائے گا اسی اطلاع پر بزدار نے فوری استعفے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وزیر اعظم اپنے وسیم اکرم پلس سے اس قدر خوش ہیں کہ انہوں نے استعفیٰ منظور نہ کرکے کام جاری رکھنے کی ہدایات کر دیں، یوں عبدالعلیم خان ایسے روٹھے کہ دو گورنر اور دو اہم وفاقی وزرا بھی انہیں وزیر اعظم سے ملوانے کے لیے نہیںلے جا سکے بلکہ وہ دوستوں اور تعلقات کی رسی توڑ کر لندن کی پرواز بھر گئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جہانگیر ترین سے ملاقات کرکے موجودہ صورت حال پر آگاہی دیں گے بلکہ وہ لندن میں موجود مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف سے بھی خفیہ ملاقات کریں گے، ان سیاسی ملاقاتوں کے حوالے سے مختلف چینلز نے بلند وبانگ دعووں کے ساتھ خبریں بھی چلائیں لیکن عبدالعلیم خان کے نمائندہ خاص خالد محمود نے ایک بیان میں تمام خبروں کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ علیم خان کا دورہ لندن نجی ہے سیاسی نہیں، وہ وطن واپس آکر اپنے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان دوستوں اور ساتھیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے ۔
ٹوٹومیاں آف موچی دروازہ بغیر سٹاپ اپنی تقریر جھاڑ رہے تھے اور سامع چنن خان صرف اشاروں کی زبان میں جواب دے رہے تھے ، بیان جاری تھا، دیکھو بھلا یہ کیا زبان ہوئی کہ اینٹ کا جواب اینٹ اور بندوق کا جواب توپ سے دیں گے ؟ بھلے زمانے میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان ہی کافی ہوا کرتا تھا، چننن خان بولا ”دنیا بدل گئی یارا ۔انداز بھی بدلنا چاہیے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک بندہ اینٹ مارے اور اسکا جواب پتھر سے دیا جائے ،ہم خان لوگ گولی کا جواب گولی سے دیتا ہے ، ہمارا وزیر اعظم شیر کا بچہ، شیر تو نواز شریف ہے ، نہیں بھئی نہیں۔ ہمارا خان چیتا ہے ، اس کی چال ڈھال اور رفتار ایسی ہے کہ شہباز شریف اور زرداری جیسے بیمار اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے،مولانا صاحب تو اتنے بھاری بھرکم ہیں ان کا تو چلنا پھرنا ہی کافی ہے، چیتے سے انہیں بچنا چاہیے ۔
ٹو ٹو میاں نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولے چیتے سے بچنا چاہیے یقیناًیہ تو سب کا خون چوس جائے گا یہی اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ تبدیلی سرکار نے مہنگائی ، بے روزگاری اور نا تجربہ کاری میں قوم سے جینے کا حق بھی چھین لیا ، وہ بھوکے مر رہے ہیں حکومت کامیابی کا جشن منا رہی ہے کسی کو نہیں چھوڑوں گا ، ایک ایک سے حساب لوں گا، میں نے کہا تھا کہ جب میں چوروں اور ڈاکوں کو پکڑوں گا تو یہ سب اکٹھے ہو جائیں گے، ایسا لگتا ہے کہ خان اعظم ابھی بھی کنٹینر پر ہی کھڑے ہیں، انہیں تو انداز بدلنا چاہیے تھا، وزیر اعظم بننے کے بعد وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں تحریک انصاف یا کسی خاص گروپ کے نہیں۔
چنن خان نے غصے میں بات بدلتے ہوئے کہا کہ مڑا وہ سب کا وزیر اعظم ہے، پاکستان کا وزیر اعظم ہے، وہ ماضی کے چوروں اورڈاکوﺅں سے خزانہ لوٹنے والوں سے مال نکلوانا چاہتا ہے، اس لیے اپوزیشن اس سے ناراض ہے تم بولو….اگر تین چار سال میں خان اعظم نے کچھ نہیں کیا تو اپوزیشن کے بکروں نے کون سی قربانی دی ہے ؟ بابا۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کرکے غلطی کی ہے، خان اعظم ان کا ”بینڈ “ بجا دے گا ۔صرف مخالفت نہ کرو ۔ دونوں کا وزن دیکھو ۔ خان نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ دلیری سے لڑا ہے، یورپ میں ”اسلامو فوبیا “ کی ایسی وکالت کی کہ اب جرمنی ہی نہیں کئی دوسرے ممالک بھی اسلام اور اسکے اصولوں کی حمایت ہی نہیں”اسلاموفوبیا “ کی کھلے لفظوں میں مخالفت بھی کر رہے ہیں ۔ ہمارا خان ملک اور عوام کے لیے دن رات ایک کر رہاہے اور حلوہ کھانے والے مولوی کی قیادت میں کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، عمران خان آئینی طور پر پانچ سال پورے کرے گا۔
ٹوٹو میاں جھنجلا کر بولے بھائی جان ۔ ہم بھی اس بات کے حامی ہیں کہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے لیکن اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لے ہی آئی ہے تو بوکھلا کر اوٹ پٹانگ باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ عوام کا مسئلہ یہ نہیں ہے، نہ ہی انہیں اوٹ پٹانگ باتیں متاثرکریں گی، انہیں مہنگائی نے متاثر کیا ہے تو اس سے نجات کا کوئی فارمولا حکومت نے ڈھونڈ نا ہے، اپوزیشن نے نہیں۔ اس لیے عوامی ریلیف کے ساتھ حکومت کو بند گلی کی بجائے صبر و تحمل سے کھلے راستوں کی تلاش کرنی چاہیے ، مسکرا کر بولے ۔ لو سنو مجھے فوج نے مولانا کو ڈیزل کہنے سے منع کیا تو میں نے کہہ دیا یہ نام میں نے نہیں عوام نے رکھا ہے، اس کا عوامی اجتماع میں تذکرہ کیوں ضروری تھا یا یہ کہنا کہ غیر جانبدار جانور ہوتا ہے ،کیوں کہاگیا اور اس کامطلب کیا تھا۔بھائی جان! کوئی سمجھے یا نہ سمجھے !!!وہ سمجھ گئے جنہیں یہ سمجھانے کے لیے کہا گیا تھا۔
چنن خان آگ بگولہ ہو کر ٹوٹو میاں کے لیے قہر بن گیااور بولا بہت ہوگئی ٹوٹو۔ بس اس سے آگے اب کچھ نہ بولنا ورنہ لڑائی میں جھگڑا ہو جائے گا تم تو سیدھا سیدھا سیاست کرنے لگا ہے، ہم تو بھائی بندی کی باتیں کر رہا تھا تم نے تو سیاست شروع کر دی ۔ ٹوٹو میاں نے کہا واہ بھئی خان! سیاست دانوں کی باتیں تو سیاسی ہی ہوں گی اسے کیسے غیر سیاسی کہہ سکتے ہو؟چنن خان! او بھائی ، میری جان ، امارہ ”خان “ہے شیر کا بچہ ۔معافی چاہتا ہوں چیتا ۔تم نے جو کرنا ہے کرلو ۔ اپوزیشن کو خود نقصان ہوگا پھر پچھتائے گی ۔جس کا فارمولا ہے کہ ایسے موقعے پر ہاتھ سے ہاتھ ملواﺅ۔ من حیث القوم ۔ ہم سیاست کو الیکشن میلہ سے زیادہ نہیں جانتے ،لہٰذا یہ بات پلے باند ھ لو ۔ حکومت گرے یا تگڑی ہو جائے ۔ فائدہ عمران خان اور ان کے حواریوں کا ہے، حکومتی سطح کی بات توڑ جوڑ کی ہے، لیکن ایک بار پھر اپوزیشن نے تھوڑے عرصے میں حکومت کو دن میں تارے دکھا دئےے ہیں، تحریک عدم اعتماد منظور ہو یا ناکام ۔ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ان کی خواہش ہے کہ حکومت عوامی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ یوں خان اعظم بڑے پھنسے ہیں ۔تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نمبر گیم کے لیے سر گرم ہو چکے ہیں تاہم اپوزیشن بھی کچھ زیادہ ہی مطمئن ہے ۔ ٹو ٹو میاں آف موچی دروازہ نے تمام باتوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ تم خان صاحب کی پارٹی بن گئے ہو، اور میں ہوں غیر سیاسی ،لہٰذا میرا تمہارامکالمہ نہیں ہو سکتا۔







