عدم اعتماداور سکیورٹی خدشات ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
حکومت او ر اپوزیشن کے درمیان ووٹنگ کے روز ممکنہ تصادم کے خطرہ کے پیش نظر وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ ہاوس کی سکیورٹی رینجرز اور فرینٹر کانسٹیبلری کے حوالے کرنے کا درست فیصلہ کیا ہے۔ دونوںکے درمیان تناﺅ اس حد تک بڑھ گیا ہے جس کے بعد کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد جیسے معاملات میں سیاسی جماعتوں کا جوڑ توڑ جمہوریت کا حصہ ہے ۔ عدم اعتماد سے پہلے پارلیمنٹ لاجز میںجوکھیل کھیلا گیا ، اسے عوام میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ جے یو آئی کے رضا کاروں کی ریہرسیل کے کیا مقاصد تھے؟آئینی طور پر کسی شہری کو سکیورٹی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ ہاﺅس جیسی جگہوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاردن رات سکیورٹی پرمامور ہوتے ہیں۔ کوئی وزیر ہو یا رکن اسمبلی سب کی حفاظت حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکالمہ بازی نے سیاست کی بجائے ذاتیات کی سیاست کو فروغ دیا جسے عوام میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا جا رہا۔ مولانا فضل الرحمان نے عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں گلی کوچوں میں جانے کااعلان کیاہے اِس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اپوزیشن کو عدم اعتماد کی کامیابی کا پوری طرح یقین نہیں ۔ درحقیقت حکومت کی حلیف جماعتیں بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں وہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا عدم اعتماد میں ساتھ دینے میں ابھی تک بظاہر کوئی فیصلہ نہیں کرپائیں اور تادم تحریر حکومت کی حلیف جماعتوں میں سے کسی نے نہ تو اپوزیشن اور نہ ہی حکومت کا ساتھ دینے کا کھل کر اعلان کیا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے عدم اعتماد میں ناکامی کی صورت میں گلی کوچوں میں جانے سے ان کی مراد کیا ہے وہ ملکی میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں؟جمہوری روایات کے امین ہونے کے دعویٰ داروں کو جمہوری عمل میں ناکامی کے بعدکیا یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے؟دوسری طرف اقتدار میں ہونے کے باوجود پی ٹی آئی اندرونی طور پر بحران کا شکا ر ہے جس کی وجہ تحریک انصاف کو مالی لحاظ سے سپورٹ کرنے والوں کو اقتدار میں آنے کے بعد وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں وزیراعظم عمران خان نے انہیں نہ صرف سائیڈلائن کر دیا بلکہ ان سے میل جول رکھنا بھی مناسب نہیں جانا۔ پی ٹی آئی میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی مختلف دھڑوں میں بٹنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔اب تک کی خبروں کے مطابق تحریک انصاف کے ناراض لوگوں کاایک بڑا مطالبہ پنجاب کی وزارات اعلیٰ سے سردار عثمان بزدار کو ہٹانا ہے۔تاسف تو اس پر ہے کہ حکومت کی بعض اتحادی جماعتوں نے اس آڑے وقت کو غنیمت جانا ہے ۔کوئی وزارت اعلیٰ کا طلب گار ہے تو کوئی اپنی سپیکر شپ برقرار رکھنے کی جستجو میں ہے۔ ہم مسلم لیگ قاف کے رہنماﺅں کومشکل حالات میں ثابت قدم تصور کرتے تھے ، حالیہ سیاسی ہلچل کے دوران وزیراعظم کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کرنے کے بعد مولانا کی قدم بوسی کا جو راستہ انہوں نے اختیار کیا اس نے قاف لیگ کے رہنماﺅں کی سیاست پرایک بدنما داغ چھوڑا ہے۔دراصل عوام نے دو جماعتوں کی اجارہ داری ختم کرنے کی خاطر عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ کر ووٹ دیئے تھے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے تین سالہ اقتدار میں کرونا وائرس کی آفت کے باوجود لوگوں کے مسائل حل کرنے کی سر توڑ کوشش کی مگر بدقسمتی سے وہ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔ شاید اس کی وجہ ان کے ساتھ قابل ترین ٹیم کا فقدان تھا ۔جہاں تک اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کا معاملہ ہے وزیراعظم اور ان کے رفقاءاپنے اتحادیوں اور ناراض ارکان کو منانے کے لیے بدستور کوشاں ہیں۔حکومت اپنے ناراض ارکان کو منانے میں ناکامی کی صورت میں اس آئینی آپشن کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میںوزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد میں فلور کراسنگ کے آرٹیکل کا طریقہ کار خاصا مشکل ہے جس کا فیصلہ الیکشن کمشن نے کرنا ہوتا ہے۔ آنے والے چند روز ملکی سیاسی تاریخ کے اہم دن ہوں گے جس میں برسراقتدار حکومت کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔بقول وزیراعظم بولیاں لگی ہوئی ہیں ۔اٹھارہ اٹھارہ کروڑ روپے کی آفر دی جا رہی ہے ۔کتنے دکھ کی بات ہے اتنی بڑی آفر دینے والوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں وہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائے ہیں۔
جس روز سیاست دانوں میں مال ومطع کی ہوس ختم ہو جائے گی ہمارے ملک کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگے گا۔موجودہ حکومت نے ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دینے کے لیے ٹیکس وصولی کا جو کلچر متعارف کرایا ہے اس پر پوری طرح عمل ہو گیا تو انشااللہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔ کاش ہمارے سیاست دانوں کو ملک و قوم کی کوئی فکر ہوجائے ۔حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اسلام آباد میں پاور شو کا مظاہرہ کرنے کی ٹھان لی ہے، کہیں ایسا نہ ہو حالات حکومت اور اپوزیشن کے ہاتھوں سے نکل جائیں جس کے بعد جس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہیں وہی صورت حال پیدا نہ ہو جائے ۔عدم اعتماد کی اس تحریک کے دوران بہت سے سیاست دانوں کے ظاہر اور باطن کا عوام کو علم ہو گیا ہے۔ سیاست دانوں کی اکثریت کا مطمح نظر اقتدارکا حصول ہے نہ کہ عوام کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے امید تھی کہ ملک میں اجارہ داری کی سیاست کا خاتمہ ہو سکے گا مگر حالات اور واقعات سے پتا چلتا ہے کہ عوام کے مقدر میں وہی لوٹ مار کرنے والے سیاست دان ہوں گے ۔موجودہ سیاسی کشمکش میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں سیاست دانوں کو ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات عزیز ہیں۔جس روز سیاست دانوں میں اقتدار کی ہوس ختم ہو جائے گی ملکی سیاست میں نکھار آجائے گا۔ دشمن قوتیں تو ہمارے ملک کو پہلے ہی کمزور کرنے کے درپے ہیں اور سیاست دانوں کو اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہے۔ حق تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کوعقل صمیم دے ۔اللہ کرے عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کا مرحلہ بخیروعافیت گذر جائے اور ملک سے غیریقینی صورت حال کا کسی طرح خاتمہ ہو سکے۔







