Column

کیا پیش گوئی سچ ہونے جارہی ہے ؟ … جاوید فاروقی

 جاوید فاروقی

یہ تین ماہ پہلے کی بات ہے، آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کا تنازعہ اگرچہ ختم ہوچکا تھا، نئے چیف کی تقرری بھی ہوچکی تھی لیکن اس معاملے پر اُڑنے والی دھول نے ابھی تک سیاسی فضا کو مکدر کررکھا تھا۔ ایسے میں ایک اہم سیاسی رہنما نے کھانے پر مدعو کیا۔ اپنی ذات میں ان کی حیثیت ایک انتہائی معتبر سیاستدان کے طور پرجانی اور مانی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسٹبلشمنٹ کے حلقوں میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایک انتہائی باخبر سیاستدان ہیں، ملکی سیاست پر بات شروع ہوئی تو گویا ہوئے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کے معاملے پر وزیراعظم نے فوج کو جتنا زچ کیا ہے اس پر بڑے گھر میں بہت تلخ جذبات پائے جاتے ہیں۔ اب اگرچہ فوجی سربراہ نے اپنی بات منوا لی ہے تاہم اس کے باوجود معاملہ دبا نہیں بلکہ پنڈی والوں نے ایک اہم فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ فیصلہ کیا ہے ؟ میرے استفسار پر کہنے لگے فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ آئندہ کسی بڑے لیول کی ٹرانسفر، پوسٹنگ یا پھر ایکسٹینشن کا معاملہ موجودہ وزیراعظم کے پاس لے کر نہیں جائیں گے۔ میں نے بات کو مزید کھولنے کی خاطر کہا موجودہ وزیراعظم کی تو ابھی پونے دوسال کی مدت باقی ہے تو مستقبل میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے تو وزیراعظم کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ اس پر انہوں نے کہا آپ بین السطور میں کیوں نہیں سمجھتے۔ اس بات کا مطلب ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے وقت ہوسکتا ہے کوئی اور ہی وزیراعظم ہو۔ میں نے اس بات کو ایک بڑے محتاط انداز میں اپنے ویلاگ میں اسے ایک برگزیدہ سیاستدان کی پیش گوئی کے طور پر پیش کیا۔ اس پر دوستوں نے ملا جلا ردعمل دیا اور کہا کہ آپ بات کو زیادہ سنجیدہ لے گئے ہیں اور کچھ زیادہ ہی دور کی کوڑی لائے ہیں۔

محض تین ماہ کے عرصے کے بعد آج ملکی سیاست جس موڑ پر پہنچ چکی ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے ایک بار پھر برگزیدہ سیاستدان کی بات یاد آرہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان جس طرح چاروں اطراف سے گھر گئے ہیں، اس میں سے ان کی حکومت کا بچنا اب انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جس انداز سے پیش کی ہے اس کے پیچھے بڑی ٹھوس منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ پی ڈیم ایم کے ٹوٹنے سے اپوزیشن منتشر ہوگئی اور اس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان انتہائی مضبوط ہوگئے تھے۔ وہ بکھری ہوئی اپوزیشن جس تیزی سے متحد ہوئی وہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے جو حمایت اکٹھی کی جارہی ہے اس کا جائزہ لیں تو ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ اپوزیشن میں تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے دو سمت میں کام ہورہا تھا۔ مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف کا موقف رہا ہے کہ تحریک انصاف میں سے فارورڈ بلاک کی حمایت لے کر وزیراعظم کو فارغ کروا دیا جائے۔ اس انتظام کا مقصد پنجاب میں چودھری برادران کی سخت بارگیننگ، بالخصوص پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے مطالبے سے جان چھڑانا تھا۔ کیونکہ مسلم لیگ نون سمجھتی ہے کہ پنجاب چودھری برادران کے ہاتھ میں دینے سے وہ آئندہ الیکشن میں نون لیگ کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ جبکہ دوسری طرف سابق صدر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان فارورڈ بلاک کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ یہ کس کو معلوم نہیں حکومتی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ قاف، ایم کیو ایم، بلوچستان کی باپ پارٹی موجودہ سیٹ اپ میں اسٹبلشمنٹ کی پراکسی کے طور پر کپتان سرکار کے ساتھ جوڑے گئے ہیں۔ ان جماعتوں کی طرف سے حکومت کو چھوڑنے اور تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دینے کو دراصل اسٹبلشمنٹ کی طرف سے اپوزیشن کی بالواسطہ طور پر حمایت کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اسٹبلشمنٹ کی ان پارٹیز کی پالیسی میں اب ایک واضح تبدیلی نظر آنا شروع ہوگئی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئندہ دو روز میں مسلم لیگ قاف، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی اپنی نئی پالیسی کا اعلان کردیں گے۔ یہ جماعتیں اگر ایسا اعلان کردیتی ہیں تو یہ اسٹبلشمنٹ کی طرف سے اپوزیشن کے لیے اعتماد سازی کا ایک ایسا بڑا اقدام ہوگا جس کے بعد اپوزیشن یہ کہہ سکے گی اب واقعی اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔
آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان اور نون لیگ میں شہباز شریف مستقبل کے ایسے ماڈل کے حامی ہیں جن میں اسٹبلشمنٹ کی ایسی نمائندہ جماعتیں بھی شریک ہوں تاکہ اسٹبلشمنٹ بھی مکمل طور پر آئندہ سیٹ اپ میں آن بورڈ اور سٹیک ہولڈر ہے۔ اب جبکہ حکومتی اتحادیوں کے تیور بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اگر اتحادیوں نے اپنا فیصلہ متوقع طور پر اپوزیشن کے حق میں سنا دیا تو تین ماہ پہلے سینئر سیاستدان کی پیشین گوئی کے پورا ہونے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

جواب دیں

Back to top button