اٹھتا ہوا خیموں سے دھواں ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
ماہِ ستمبر کو ستمگر کہا جاتا ہے لیکن وہ اب اتنا ستمگر نہیں رہا، اسی طرح مارچ کے مہینے میں کبھی مارچ کبھی کوئیک مارچ کی بات نکلتی ہے مگر مارچ بھی خزاں کے جانے کی خبر دے کر چپ چاپ رخصت ہوجاتا ہے، وجوہات لاتعداد ہوں گی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاﺅں بھاری ہوجائے تو پھر مارچ ہوسکتا ہے نہ کوئی کوئیک مارچ۔ اس کیفیت میں ڈاکٹر سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانے کا مشورہ دیتے ہیں، پس سنبھل سنبھل کر قدم اٹھایا جارہا ہے۔
سال پہلے کی بات ہے ہم نے ارطغرل کا بت تراش کر اُسے اپنا محبوب قرار دیا تھا، جانے کیا ہوا ترک ارطغرل ایک یہودی ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ پینگیں بڑھاتا نظر آیا، ہم طویل عرصہ تک اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑتے رہیں گے، آئندہ برس وہی جانا پہچانا شخص سلطنت عثمانیہ کا وارث بن کر دنیا بھر کے مسلمانوں سے حمایت طلب کرنے نکلے تو اس سے پوچھنا ضرور ہوگا کہ اس کی منزل کہیں تل ابیب تو نہیں، آج وہ باطل سے اظہار یکجہتی کررہا ہے، کل کیا کرے گا، ماہِ مارچ میں اور کچھ ہو نہ ہو عورت مارچ ضرور ہوا کرے گا۔ اس مرتبہ عورت مارچ کا اختتام عجیب انداز میں ہوا، ایک متمول اور ماڈرن ملک میں تقریب کے شرکا کے درمیان معمولی بات پر اختلاف ہوا، بات بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک جاپہنچی، کچھ خواتین نے ان مناظر کو محفوظ کرنے کے لیے ریکارڈ کرنا چاہا، بس پھر کیا تھا سب ایک دوسرے پر پل پڑیں، ایک دوسرے کے بال اور منہ نوچنے کے بعد ہاتھ ایک دوسرے کا لباس تار تارکرنے لگے۔ شرکا کا لباس پہلے ہی مختصر تھا، سب کا سب کچھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں تھا۔ انسان اور انسانیت برہنہ کھڑے تھے۔
دوسری طرف لوکل ارطغرل مشکل میں ہے، کہا نہیں جاسکتا وہ سیاسی غازی بنے گا یا اس کے مقدر میں سیاسی شہادت لکھی ہے، ارادہ تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان صلح کراکے جاری جنگ بند کرائیں گے لیکن اپنے ہی گھر میں نئی لڑائی چھڑ گئی ہے، سنبھلتی نظر نہیں آتی، آئین و قانون کی رو سے دیکھیں تو کچھ مشکل نہیں، سب ایوان میں آجائیں، جو ساتھ ہیں ایک طرف ہوجائیں جو مخالف ہیں دوسری طرف ہوجائیں، گنتی ہو اور سب کے سامنے فیصلہ آجائے، یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ارادہ فیئر پلے کا ہو، فی الحال تو کہاگیا ہے کہ جو ممبر قومی اسمبلی پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے کا سوچ رہا ہے اُس کا ووٹ ڈالنے سے قبل ہی علیحدہ کردیا جائے گا، وہ کسی شمار میں نہ ہوگا، گویا ابھی کسی نے کسی کو چھیڑا نہیں ہے لیکن کہا جارہا ہے، تم مجھے چھیڑو گے، لہٰذا چھیڑنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ارتکاب جرم سے قبل جرم کی سزا سنادی گئی ہے، یہ کلچر پرانا ہے، نیا ہرگز نہیں۔ ہمارے یہاں تو ایک عام تھانیدار کو علم ہوتا ہے کہ کون جرائم پیشہ اب کونسا جرم کرنے کو ہے، لہٰذا دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں، پولیس کو علم غیب سے معلوم وہتا ہے کہ یہ لوگ کسی جرم کی منصوبہ بندی کررہی ہیں پس انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات میں کبھی جہیز اور بری کے جوڑے و دیگر تحائف خاندان بھر کو اکٹھا کرکے دکھائے جاتے تھے، اب یہ رواج نہیںرہا، شاید جہیز پر پابندی کے قانون پر عمل کیا جاتا ہے، اب کوئی بھری محفل میں جوڑے اٹھااٹھاکر دکھائے تو سمجھا جائے گا کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔ اسی انداز میں آج کل حکومت اور اپوزیشن، ممبران قومی اسمبلی کو جگہ جگہ جمع کرکے دکھارہی ہے کہ فلاں فلاں ہمارے ساتھ ہیں، ساتھ ساتھ گنتی بھی سنائی جاتی ہے یہ الگ بات ہے کہ فلاں فلاں میں کچھ لوگ ایک دن حکومت کے ساتھ نظر آتے ہیں تو دوسرے دن وہ اپوزیشن کے ساتھ چہکتے مہکتے دکھائی دیتے ہیں، غالباً وہ قوم کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ تین میں ہونے کے ساتھ ساتھ تیرہ میں بھی ہیں، عجب تیرگی کا عالم ہے۔
عید قربان سے پہلے قربانی کا سنتے سنتے کان پک گئے، کچھ بھی ہوسکتا ہے، اِس مرتبہ یہ جھوٹ سچ بھی ہوسکتا ہے، منڈی سج گئی ، بھاﺅ بڑھ رہے ہیں، حکومت الزام لگاتی ہے کہ اپوزیشن ان کے ممبران خرید رہی ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو سوچیے جو بک رہے ہیں وہ کتنے نیک لوگ ہیں۔ چند برس قبل کچھ لوگ اسی طرح ادھر بھی آئے تھے، اِدھر آنے کے رستے کھلے تھے تو جانے کے کب بند ہوئے، یہ راستے بند کیے جاسکتے تھے، جب بتایاگیا کہ درجن سے زائد ممبران حکومت نے اپوزیشن کے امیدوار کوووٹ دے کر جتوایا، ان کے خلاف ثبوت بھی مل گئے، خیال تھا کہ انہیں حکومتی صفوں سے نکال کر مثال قائم کردی جائے گی لیکن پھر اچانک سب کی خطائیں معاف کردی گئیں، بالکل اسی طرح جیسے کچھ لوگوں پر سنگین مقدمات بنائے جاتے ہیں، اسلحہ و منشیات برآمد کرنے کے دعوے ہوتے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ ویڈیو فلم بھی موجود ہے جس میں مال ممنوعہ برآمد کیا جارہا ہے، کچھ افراد پر تو غداری کے مقدمات بنائے گئے، پھر اچانک خبر آئی کہ تمام مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں۔
گھمسان کا رن شروع ہونے کو ہے، خبریں آرہی ہیں کہ گھمسان کا رن شروع ہونے سے قبل ایک پریس کانفرنس ایک استعفیٰ آسکتا ہے جو بھڑکتی آگ کو مزید بھڑکا سکتا ہے، اسے بھسم کرسکتا ہے، عین وقت پر یہ ارادہ ملتوی ہوگیا تو پھر جتھے مقابل ہوںگے، اپوزیشن کی طرف سے کارکنوںسے کہاگیا ہے کہ وہ اپوزیشن ممبران قومی اسمبلی کی حفاظت و سکیورٹی کے لیے جوق در جوق اسلام آباد میں جمع ہوں۔ حکومت کی طرف سے اپنے حمایتوں کو اپنی جیت کا جشن منانے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ دونوں جانب سے کم ازکم ایک ایک لاکھ افراد جمع کرنے کی کوشش ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں ہارنے والوںنے اپنی شکست تسلیم کی؟ کیا جیتنے والوںنے ہمیشہ مثبت کھیل کھیلا؟ جواب نفی میں ہے۔ جواب نفی میں ہو تو انجام مثبت کیسے ہوسکتا ہے؟
فریقین میں سے کوئی بھی اپنی پوزیشن سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ روسی فوج کے ہاتھوں درگت بننے سے قبل یوکرینی صدر نے کہا تھا کہ روس اور روسی صدر پوتن کو مزا چکھادیں گے، لیکن خود مزا چکھنے کے بعد انہوں نے فرمایا کہ وہ تمام مطالبات سے دستبردار ہوتے ہوئے صلح کے لیے تیار ہیں۔ یہ بیان ایک غیر ملک سے جاری کیاگیا ہے، وہ عرصہ ہوا ملک چھوڑ گئے۔ یہاں بھی پہلے کہاگیا کہ کچل کے رکھ دوںگا، پھر فرمایا وہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں، اپوزیشن عجلت میں فیصلہ نہ کرے، ایک برس اور رک جائے، قوم تو ذہنی طور پر ان کا جوڈو کراٹے کا میچ دیکھنے کے لیے تیار ہے کیوں کہ اس کے بعد ان کے کہنے کے مطابق بنکاک کے شعلے بھی نظر آئیں گے۔ میں ملک کو شعلوں میں نہیں گھرنے دوں گا۔ میں خیموں سے اٹھتا ہوا دھواں دیکھ رہا ہوں۔ پس میں نے احتیاطاً تصادم روکنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے، آپ بھی تیار رہیں۔







