Column

ریاست بنی تختہ مشق ….. روشن لعل

روشن لعل
عمران حکومت کے خلاف اپوزیشن کی پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک کا سیاسی درجہ حرارت دن دُگنی رات چُگنی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اِس وقت یوں لگ رہا ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد کا کوئی فیصلہ نہیں ہو گا یہ درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا چلا جائے گا۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت نے متحارب سیاستدانوں کے ذہنوں پر اس حد تک اثر ڈالا ہوا ہے کہ حدت سے ان کے دماغ پگھلتے ہوئے محسوس ہونے لگے ہیں۔ اقتدار کی مسند پر براجمان حکمران اور ان سے یہ مسند چھیننے کے لیے کوشاں حزب اختلاف کے پگھلتے ہوئے دماغ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دے رہے ہیں۔ حدود سے تجاوز کا یہ عالم ہے کہ اگر ایک فریق نے بندوق کے نشانے پر رکھنے کی دھمکی دی ہے تو دوسرے فریق نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کردی ہے۔ ان کے رویوں اور باتوں سے ایسے ظاہر ہو رہا ہے جیسے ان کی عزت اور جان صرف دوسرے کے ہاتھوں سے ہی نہیں بلکہ ان کے اپنے ہاتھوں سے بھی محفوظ نہیں ۔ اگر کوئی بندہ گالیاں اور دھمکیاں واپس آنے کے ہزار گنا سے بھی زیادہ امکانات کے باوجود دوسرے کو گالی اور دھمکی دینے کا سلسلہ شروع کرتا ہے تو اس کے متعلق یہ سوچنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس کی اپنی عزت اور اپنی جان اس کے اپنے ہی ہاتھوں سے بھی محفوظ نہیں ۔ اپنی اور دوسروں کی عزتیں ہواﺅں میں اچھالنے کے لیے تیار بیٹھے یہ لوگ اقتدار سے چمٹے رہنے یا اسے پانے کے لیے کچھ بھی کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جس اقتدار کا کسی کو سپردگی کا آئینی و قانونی مقصد ریاست اور عوام کے مفادات کے تحفظ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ۔ہمارے آئین و قانون کے مقاصد، غرض وغایت اور رمزوں کا محور تو عوام اور ریاست کے مفادات کا تحفظ ہے، مگر یہاں آئین کی پہلے سے موجود تفہیم کو تیل لینے بھیج کر ایسی موشگافیاں کی جارہی ہیں، جن کی حجت اقتدار کا تحفظ تو ہو سکتی ہے مگر اس کا تعلق ریاست کے مفادات سے قطعاًنہیں جوڑا جاسکتا۔ جن لوگوں کا اولین فرض ریاست کے مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے تھا آج ان کے رویوں سے ایسے لگ رہا ہے ، جیسے ان کے لیے ریاست کی حیثیت تختہ مشق سے زیادہ کچھ نہیں ۔
اس وقت ریاست کو سب سے زیادہ تختہ مشق ان لوگوں نے بنایا ہوا ہے جو کبھی اسے تبدیل کرنے کے نعروں کے ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ جس قسم کے لوگوں کو ساتھ ملا کر تبدیلی کے نعرے لگائے گئے تھے، انہیں دیکھتے ہوئے تو بہت پہلے صاحب فہم لوگوں نے ان نعروں پر سوالیہ نشان اٹھا دیئے تھے۔ گوکہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے پورے گروہ پر سوالیہ نشان ہمیشہ موجود رہے مگر یہ لوگ اور ان کے نعرے جتنے کھوکھلے اس وقت ظاہر ہورہے ہیں اتنے کھوکھلے شایدکبھی نہیں لگے ۔ کبھی یہ دعوے سننے میں آتے تھے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کو سیاسی منظر پر نمودار کرنے والے ان کے ساتھ ایک صفحے پر موجود ہیںمگر آج کی سب بڑی اور تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے خود ایک صفحے پر موجود نہیں ، جس صفحے کو یہ لوگ کبھی عوام میں انتہائی متبرک بنا کر پیش کرتے تھے۔ آج کوئی بھی صفحہ اس سے زیادہ ٹکڑوں میں بٹا اور فیتی فیتی نظر نہیں آرہا۔ آج اگر کوئی بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرے تو اسے یہی نظر آئے گا کہ جن لوگوںکو تبدیلی کے نعروں کے ساتھ ایک صفحے پر دکھایا گیا تھا تبدیلی کبھی بھی ان کا منتہائے مقصود نہیں تھی۔ تبدیلی کے نعروں کے ساتھ عوام کو گمراہ کرنے سے پہلے ان لوگوں نے خود اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو دھوکہ دیا تھا ۔ دھوکے کی بنیاد پر بننے والا یہ زبردستی کا تعلق، بعدازاں، زبردستی دھوکے کی بنیاد پر ہی قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت یہ بات زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں کہ تبدیلی کے کھوکھلے نعرے لگانے والوں نے اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف قانون کا کس حد تک امتیازی استعمال کیا کیونکہ اس ضمن میں جو کچھ ہو چکا ہے، اس کا دنیا بھر میں اڑایا جانے والا مذاق سب پر عیاں ہو چکا ہے۔ عیاں باتوں کو دہرانے کی بجائے اس وقت غور طلب بات یہ ہے کہ انصاف اور احتساب کے نام پر اپنے اور پرائے لوگوں میں تفریق کے باوجود بھی کیوں اپنے لوگوں کو ساتھ نہیں رکھا جاسکا، کیوں وہ لوگ اس وقت فیتی فیتی نظر آرہے ہیں جو کبھی گھی اور شکرہواکرتے تھے۔ کبھی گھی شکر بننے والے لوگ اس وقت فیتی فیتی اس وجہ سے نظر آرہے ہیں کیونکہ اب انہیں اس بات کا پوری طرح سے ادراک ہو چکا ہے کہ سیاسی مخالفوں جیسے تمام تر اوصاف رکھنے کے باوجود انہیں ساتھ ملانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کی الیکٹیبل (Electable) حیثیت کا فائدہ اٹھا یا جاسکے ۔ ان لوگوں کا اس طرح سے فائدہ اٹھانے کے عوض انہیں جو کچھ دیئے جانے کا پروگرام بنا یا گیا تھا اس کا پیکیج صرف اور صرف سیاسی مخالفوں کے مقابلے میں ایک حد تک استثنیٰ تھا ۔ بعدازاں حالات ایسے بنے کہ انہیں ہر طرح کا استثنیٰ دینا بھی ممکن نہ رہا ۔ وہ لوگ جو شراکت اقتدار کے خواب دیکھتے ہوئے ساتھ ملے تھے وہ اپنی منتخب حیثیت کے باوجود غیر منتخب لوگوں کو حکمرانی کے مزے لیتے دیکھ کر کڑھتے رہے۔
ان لوگوں کو یہ بات بہت دیر بعد سمجھ میں آئی کہ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت بنانے کے لیے جو منصوبہ بندی یہاں عرصہ دراز سے کی جارہی تھی ان کی الیکٹیبل(Electable) حیثیت کا استعمال تو صرف اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد کے لیے کیا گیا ۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا منصوبہ کس قدر ناکام ہو چکا ہے۔ بے چارے منتخب الیکٹیبلز کو اقتدار اور اختیار سے دوررکھنے کے ساتھ ان پر یہ ستم بھی کیا گیا کہ ٹیکنو کریٹس کی ناکامیوں کے دفاع کی ذمہ داری ان پر ڈال دی گئی۔ یہ گناہ بے لذت کرتے رہنا جب ان کے بس سے باہر ہوگیا تو وقت کی تبدیلی اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اس طرز عمل کے عین مطابق علیحدہ راستہ کا انتخاب کر لیا جس طرز عمل کے تحت وہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ ملے تھے لیکن تبدیلی کے نعرے لگانے سے ، الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے اور پھر ان کا استعمال کرتے ہوئے ٹیکنو کریٹس کو اختیار دینے کے دوران یہاں جو کچھ ہوا وہ ناکامیوں کی بدترین کہانی ہے۔

جواب دیں

Back to top button