Column

ریاست پاکستان کہاں کھڑی ہے؟ ….. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے جب ممتاز دولتانہ کو چوہا کہا تھا تو بہت لے دے ہوئی جبکہ اس سے قبل مقبول ترین اپوزیشن لیڈر تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل اصغر خان، بھٹو صاحب کے بارے میں ہر دوسرے دن کہا کرتے تھے کہ”میں بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دوں گا“یہ اصغر خان ہی تھے جنہوں نے1977میں حکومت مخالف تحریک کے دوران اس وقت کے آرمی چیف کو اقتدار سنبھالنے کے لیے خط لکھا تھا۔خیر یہ تو ماضی کی بات تھی اور سیاست میں روایات پر عمل کیا جاتا تھا۔اس سے قبل بھی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف غلیظ ترین پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا حتیٰ کہ بھٹو کی والدہ کے بارے بھی نازیبا جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں۔ایک بات تو ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان میں مشترک ہے کہ دونوں ہی مالی طور پر کرپٹ ہرگز نہیں۔

ملکی سیاسی حالات اس وقت نہایت بدترین ہو چکے ہیں۔ 2018 میں جن مافیاز کو عوام نے بری طرح مسترد کیا اور وہ ماضی میں عوام کے سامنے ایک دوسرے کو ننگا کرتے نہیں تھکتے تھے وہ آج پھر پینترا بدل کر عوام کے سامنے یک جان ہو چکے ہیں۔کرپشن میں لتھڑے ہوے شریف برادران، زرداری اور دوسرے”معززین“ کو جب قریباً 4 سال کے بعد بھی کوئی سزائیں نہیں مل سکیں تو وزیر اعظم عمران خان کی زبان میں تلخی تو آگے گی ہی۔ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا لیکن جس قسم کی بے ضمیری اور مالی مفادات کا حصول پاکستانی سیاسی رہنماو ¿ں میں پایا جاتا ہے اس کی مثال تو دنیا بھر میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو کو لاہور کے بدنام زمانہ علاقے کے۔۔۔ بات کرنے والے اور قومی اسمبلی میں محترمہ بینظیر بھٹو جیسی بڑی سیاسی شخصیت کو ۔۔۔ سے تشبیہ دینے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے محترمہ بےنظیر بھٹو کی جعلی تصاویر بنوا کر ملک بھر میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے تقسیم کروائی تھیں۔ نصرت بھٹو جیسی نفیس خاتون کی سابق صدر فورڈ کے ساتھ رقص کرتے ہوئے جعلی تصاویر عوام میں پھینکنے والے بھی یہ ہی”کرم فرما“تھے۔ سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں ماضی کی اس غلاظت کے پیچھے میمو گیٹ والا حسین حقانی تھا۔ حسین حقانی لاہور کی برج کالونی میں واقع اپنے چھوٹے سے ولا میں بیٹھ کر نواز شریف وغیرہ کے ایماءپر یہ کام کیا کرتا تھا اور پھر وہ نواز شریف کو چھوڑ کر محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مل گیا ، اسے کولمبو میں ویسے ہی ہائی کمشنر لگا دیا گیا جیسے کبھی ملیحہ لودھی کو سیاسی رشوت کے طور پر امریکہ میں پاکستانی سفیر بنایا گیا تھا، لیکن پھر کیا ہوا۔زرداری کی حکومت بننے کے بعد امریکہ میں حسین حقانی کو سفیر پاکستان لگا دیا گیا اور اس نے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کے ساتھ مل کر پاکستان میں بلیک واٹر اور دوسری امریکی ایجنسیوں کے ایجنٹس کو ویزوں کی بھرمار کر دی۔ جب مقتدر حلقوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تو امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے امریکہ کے طاقتور حلقوں کو آصف علی زرداری کی جانب سے منصور اعجاز نامی پاکستانی غدار کو فرنٹ مین بنایااور ایک خط لکھا گیا کہ آصف علی زرداری کو پاک فوج سے اپنی جان کا خطرہ ہے۔

ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ملک و قوم سے غداری کرنے والوں کے مکروہ کارناموں کو بھی ہم بہت جلد بھلا دیتے ہیں۔ قوم سے مذاق کی انتہا دیکھیں کہ ماضی میں نواز شریف اینڈ کمپنی کے ایماءپر محترمہ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے خلاف غلیظ مہم چلانے والا حسین حقانی پہلے محترمہ بینظیر بھٹو اور پھر زرداری کے انتہائی قریب ہو چکا تھا۔ مجھے حیرت اس پر بھی ہوتی ہے کہ کارگل میں ملک و قوم سے غداری کرنے والے اور پاک فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا نواز شریف اور میمو گیٹ سکینڈل میں امریکہ کے اہل اقتدار کو پاک فوج کے خلاف خط لکھنے والا آصف علی زرداری آج بھی پاکستان میں اور لندن میں کیسے دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے شدید خواہش مند بھی ہیں۔ میں جے آئی ٹی کی جلد 10کی بات بھی نہیں کرتا جس میں موجود شواہد کے بعد شریف فیملی کو عبرتناک سزائیں نہ دینا ریاست سے غداری کے مرتکب ہو گا چونکہ جلد 10کو پبلک کرنے پر سپریم کورٹ نے پابندی لگادی تھی اس لیے اس بارے بات نہیں کرتے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ریاست کے خلاف اتنے بڑے سنگین جرائم کے بعد کیا کسی بھی ملک کا کوئی بھی سیاستدان آزاد پھر سکتا ہے؟؟جی ہاں یہ سب ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں کہ کارگل غداری،میمو گیٹ سکینڈل،ڈان لیکس اور اپنی فیکٹریوں میں بھارتی ایجنٹوں کو خصوصی پروٹوکول کے ساتھ بطور ٹیکنیشن رکھنے والے نواز شریف، آصف علی زرداری، مریم نواز شریف اور پرویز رشید وغیرہ نہ صرف آزاد پھر رہے ہیں بلکہ امریکہ کے سفیر کو متعدد مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر قسم کی”تابعداری“کا یقین دلانے والے مولانا فضل الرحمان جو بظاہر عالم دین ہیں اور مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں، بھی ارب پتی بن کر آزاد پھر رہئے ہیں۔ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجز میں فضل الرحمان کی ”ملیشیا“ گھسا کر دراصل سنگین غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اورمفادات کے حصول کے لیے اکٹھے شہباز شریف، زرداری و دوسرے مطلوب نام نہاد سیاسی رہنماو ¿ں نے اس عمل کی حمایت میں بیانات دینے شروع کر رکھے ہیں۔

پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی ایٹمی ریاست اور اس کی افواج دنیا کی اول ترین بہادر ہیں لیکن پاکستان میں موجود وہ تمام عناصر جو آج یورپی یونین اور امریکہ کی عالمی بدلی ہوئی صورتحال میں عمران خان کی حکومت کی جانب سے ڈکٹیشن لینے سے انکار پر تلملا رہے ہیں ان کے ماضی گواہ ہیں کہ اپنے مالی مفادات کے لیے انہوں نے متعدد مرتبہ سامراج اور استعمار کے ایجنٹوں کے لیے کام کیا۔ ذرا سوچیے کہ ڈان لیکس، میمو گیٹ سکینڈل، کارگل پر ملک و قوم اور افواج پاکستان سے سنگین غداری اور پھر جلسوں میں پاک فوج کے سپہ سالار اور مختلف جرنیلوں کے نام لے کر انہیں للکارنا اور دنیا پھر میں اپنی کرپشن کیس ختم کروانے کے لیے اپنی ہی فوج کے جرنیلوں کو گالیاں نکالنے والے کس طرح دندناتے پھر رہے ہیں؟کیا ریاست کمزور ہو چکی ہے؟بطور صحافی میں نے دنیا بھر کے ممالک کے میڈیا پر آج تک اپنی ہی فوج کے خلاف کسی بھی رہنما یا صحافی کو بولتے نہ سنا اور نہ ہی دیکھا لیکن پاکستان میں جو کچھ پچھلے چند سالوں سے افواج پاکستان کے خلاف ہو گیا وہ تو کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا لیکن میرے لیے حیرانگی اور شرم کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب سنگین جرائم کرنے والے آج بھی کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ پھر سے ”ٹائیاں“لگا کر اقتدار میں آنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ ریاست کاوجود مضبوط فوج کے بغیر ہمیشہ خطرے میں ہوتا ہے۔یورپی یونین اور امریکہ کے کہنے پر اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے اور آزاد خارجہ پالیسی نہ اپنانے والے یوکرین کا حشر سب کے سامنے ہے۔پاکستان میں گالی اور بدمعاشی کی سیاست کے خالق بھی شریف برادران ہی تھے۔ مجھے حیرت اور پریشانی بھی ہوتی ہے کہ آصف علی زرداری کی بیوی اور بلاول زرداری کی والدہ(بینظیر بھٹو) اور نانی(نصرت بھٹو) کے خلاف جتنا غیر اخلاقی اور غیر مہذب پراپیگنڈا شریف برادران نے کیا تھا اس کے بعد آج بھی ہوس اقتدار میں ان کو ساتھ کھڑے دیکھ کر کیا لوگوں کا جمہوریت، اخلاقیات اور سیاست دانوں پر کسی بھی قسم کااعتماد باقی رہ سکتا ہے؟آج موجودہ نظام انصاف میں یہ تو قریباً طے ہو چکا کہ ملکی کھربوں ڈالر لوٹنے والوں کو سزائیں ملنا ناممکن نہیں تو نہایت ہی مشکل ضرور ہے لیکن افسوسناک حقیقت تو یہ ہے کہ سالوں سے جاری جنریشن وار کی ناکامی کے بعد آج پاکستان کی تاریخ کے فیصلہ کن وقت میں اس ملک کو لوٹنے والے، عوام کی خواہشات اور خوابوں کو روندنے والے اور افواج پاکستان کو دنیا بھر میں رسوا کرنے والے آصف علی زرداری(میمو گیٹ)نواز شریف(کارگل اور جرنیلوں کو سرعام بدنام کرنا)مریم نواز اور پرویز رشید وغیرہ(ڈان لیکس)اور فضل الرحمان(آرمی کو برا بھلا کہنا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا) وغیرہ کو ریاست پاکستان کے مفادات کے خلاف اتنے اتنے”بڑے کام“کرنے کے بعد بھی اگر سزائیں نہیں ملیں اور آج وہ پھر”سج سجا“کر اقتدار پاکستان پر قبضے کے خواب دیکھتے ہوئے یورپی یونین اور امریکہ کی پھر سے غلامی اختیار کرنے کی وکالت کر رہے ہیں تو پھر مقتدر اداروں کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ ریاست پاکستان کہاں کھڑی ہے؟

جواب دیں

Back to top button