Columnمحمد مبشر انوار

چونچ اور دُم ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
سیاسی صورتحال گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے کیا عالمی ،علاقائی اور ملکی سیاست ،ہر جگہ بے یقینی کی صورتحال نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سینئر سیاستدان،معروف قانون دان جناب اعتزاز احسن کی بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ پاکستانی سیاست کے ماضی پر پیشین گوئی تو کی جا سکتی ہے لیکن مستقبل پر کسی پیشین گوئی کا رسک نہیں لیا جا سکتا۔ اپوزیشن کو قریباً ساڑھے تین سال آئینی راستہ اختیار کرنے میں متفق ہونے پر لگے کہ عمران حکومت کو آئینی طریقے سے تبدیل کیا جانا چاہیے اور اس ضمن میں اپوزیشن قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بھی جمع کروا چکی ہے۔ سابق صدر زرداری،اپنے اس مو ¿قف پر پہلے دن سے سختی کے ساتھ کھڑے تھے کہ نظام کے اندررہتے ہوئے ہی تبدیلی کو ممکن بنایا جائے،وہ بظاہر کسی بھی غیر آئینی اقدام کی مخالفت کرتے رہے لیکن درپردہ اپنی اہلیت کی یقین دہانی عملًا بھی کرواتے رہے ۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا موقع رہا ہو یا سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کی نشست کاانتخاب ہو،زرداری نے اپنے پتے کمال ہوشیاری سے کھیلتے ہوئے،یہ واضح پیغام دیا کہ اگر انہیں کھیلنے کا موقع دیا جائے تو وہ کچھ بھی کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ساری مشق میں یہ حقیقت بھی کھل کر عیاں ہو ئی کہ ہمارے نمائندگان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ کس طرح سوچتے ہیں کہ جیسے ہی انہیں موقع ملتا ہے وہ بہتی گنگا سے ہاتھ دھولیتے ہیں،جس پر انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی یا تاسف قطعی نہیں ہوتا بلکہ وہ اس گندے کھیل کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بہرکیف موجودہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بھی ایسی ہی کارروائی واضح نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن آج کھل کر دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کے پاس مطلوبہ تعداد سے زیادہ اراکین اسمبلی موجود ہیں ،اب یہ اراکین اسمبلی کس طرح اپوزیشن کے ہاتھ آئے ہیں،اس میں کسی قسم کا کوئی شائبہ نہیں رہنا چاہیے اور تحریک عدم اعتماد میں تاخیر کا سبب بھی ان اراکین اسمبلی کو رام کرنے میں ہی رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو قائد ایوان کون ہو گا؟اس کا اعلان ابھی تک اپوزیشن نے باضابطہ طور پر نہیں کیا لیکن زرداری صاحب کے مطابق ان کے امیدوار شہباز شریف ہوںگے اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف بضد ہیں کہ قائد ایوان کسی چھوٹے صوبے سے ہو نا چاہئے۔ بالفرض کسی بھی چھوٹے صوبے سے وزیراعظم بن بھی جائے تو کیا اس سے میاںنواز شریف مطمئن ہو جائیں گے ؟ میاں نوازشریف اس وقت فوری انتخابات چاہتے ہیں کہ ان نزدیک یہ بہترین موقع ہے کہ عوام سے رجوع کیا جائے،جس میں (ن) لیگ بہترین نتائج حاصل کر سکتی ہے جبکہ زرداری صاحب اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کے حق میں ہیں ،دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں بہت زیادہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن باہم دست و گریباں نظر آئے گی اور ان کا اتحاد ٹوٹ جائے گا یا ایسے حالات پیدا کر دئیے جائیں گے کہ فوری نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔
حکومت کی طرف نظر دوڑائیں تو اضطرابی کیفیت عیاں ہے ،وزیراعظم جو پچھلے ساڑھے تین برس اپنے حلیفوں سے ملنا گوارا نہیں کرتے تھے،اس وقت بنفس نفیس اپنے اتحادیوں کے در دولت پر حاضری دیتے نظر آتے ہیں۔ جو مراعات سابقہ حکومتیں اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے دیا کرتی تھیں،ان کے اعلانات مسلسل ہو رہے ہیں اور اتحادیوں کو رام کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو جو سب سے بڑی تشویش لاحق ہے کہ وہ اپنے جس وزیر کو بھی معاملات سلجھانے کے لیے بھیجتے ہیں،وہ اپنی لائن سیدھی کرنے کے چکر میں نظر آتا ہے۔ حکومتی وزراءکا یہ رویہ ،اندرونی اختلافات سے زیادہ ہوس اقتدار کو آشکار کرتا ہے اور ان وزراءکا وزیراعظم پر عدم اعتماد سمجھیں یا وزیراعظم کی سیاسی بلوغت سے انکار ،بہرکیف جو بھی ہے،وزیراعظم کو زیادہ خطرہ اپنی جماعت کے اکابرین سے ہے۔ وزیراعظم کی فطرت یا ان کی مجبوری کہہ لیں کہ وہ اپنے ساتھیوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کر کے کسی ایک ساتھی پر بھروسہ کرلیتے ہیں اور بعد ازاںوہی ساتھی”بروٹس“ بن کر سامنے آتا ہے کہ سیاست کے کھیل میں اقتدار ہی سب سے اہم ہوتا ہے اور سب کی نظریں اقتدار پر ہی ہوتی ہیں۔
جہانگیر خان ترین ،علیم خان اور اب چھینا گروپ تحریک انصاف کے اندر سے نکل کر سامنے آئے ہیں اور ان کا پس پردہ اولین مطالبہ ان پر قائم مقدمات کو ختم کرنے کا ہے تو بظاہر وہ پنجاب میں بزدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا خواہشمند کون سا سیاستدان نہیں رہا ہے؟تحریک انصاف کی طرف سے جہانگیر ترین شروع سے ہی اپنے کسی معتمد کو وزارت اعلیٰ کی نشست پر دیکھنا چاہتے تھے،شاہ محمود قریشی مرکز کی بجائے پنجاب پر نظریںگاڑے ہوئے تھے(اور آج بھی دلی خواہش یہی ہے)،علیم خان بھی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدواران میں سے تھے لیکن قرعہ فال عثمان بزدار کے نام نکلا۔ عثمان بزدار کی کیا ادا عمران کو بھائی، واللہ اعلم مگر عثمان بزدار جیسے عمران کی چھیڑ بن چکی ہو،کوئی بھی انہیں وزیراعلیٰ تبدیل کرنے کا کہتا ہے تو عمران خان ڈٹ جاتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں جب شعلے مرکز تک پہنچ چکے ہیں،کیا عثمان بزدار کی قربانی کا وقت ہو گیا؟چوہدری پرویز الٰہی اس ساری صوتحال میں انتہائی مہارت سے اپنے پتے کھیل رہے ہیں اور عثمان بزدار کے بیان کہ ان کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے یا پھر انہیں ہی وزیراعلیٰ رہنے دیا جائے،درحقیقت گیند کو عمران خان کی کورٹ میں پھینک دیا ہے ۔ ترین گروپ مذاکرات سے پہلے بزدار کی قربانی مانگ رہا ہے جبکہ اس بیان کے بعد (ق) لیگ نے اپنا دامن انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بچا لیا ہے کہ کل اگر انہیں اپوزیشن کا ساتھ دینا پڑے تو (ق) لیگ کے دامن پر کوئی داغ نہ ہواور اگر عمران خان حتمی فیصلہ کر لیں کہ وہ بزدار کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیںتب بھی ترین گروپ کے کسی رکن کو وزیراعلیٰ نہ بنانے پر انہیںاندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑے اور اگر ترین گروپ میں سے کسی کو وزیراعلیٰ نامزد کیا جاتا ہے تو (ق) لیگ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ سب اندازے ہیں اور ان اندازوں کی نفی میں (ق) لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا کا ایک بیان ہی کافی ہے کہ (ق) لیگ ریاست کے ساتھ کھڑ ی ہے ،کون نہیں جانتا کہ ریاست سے ان کی مراد کیا ہے؟
خطے اور عالمی صورتحال کو مد نظر رکھیں تو بات اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کو بہت اہم اور جلدفیصلے کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عالمی و علاقائی صورتحال سے نبردآزما ہوا جا سکے لیکن پاکستانی سیاست ایسے بھنور میں داخل ہو چکی ہے کہ جس سے فوری نکلناممکن ہی نہیں کہ ہر دو صورتوں میں (تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی)ملک مزیدافراتفری کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کی اندرونی حالت ہمیشہ ایسے مواقع پر ایسی ہی منظر کشی کرتی دکھائی دیتی ہے اور درون خانہ بہت سے دانشور اورتجزیہ کار بین السطور بہت کچھ کہہ رہے ہیں،سیاستدانوں کو بہت کچھ سمجھا رہے ہیں لیکن سیاستدان اپنی اسی پرانی روش پر گامزن،کچھ بھی سمجھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا دکھائی دیتے ہیں۔ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ ایسے ہی اندرونی و بیرونی(عالمی و علاقائی)حالات میں پاکستان میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے،کیا ایسے حالات میں کہ جب ملکی سیاستدان باہم دست و گریباں رہے اور عالمی تبدیلیوں سے بے خبر رہے،سیاست اور جمہوریت نے اپنی چونچ اوردم نہیں گنوائی؟لمحہ موجود میں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آ رہی ہے اور جب ایک ہی بات کی تکرار ہو،تو نتائج کیسے مختلف ہو سکتے ہیں؟سیاستدانوں کی اس تکرار میں اگر پھر ایک کی چونچ اور دوسری کی دم گم ہو جاتی ہے تو ذمہ دار کون ہوگا؟

جواب دیں

Back to top button