سیاسی بداخلاقی اور عدم برداشت ….. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
جب بھی کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس میں عدم برداشت اور اس کے رویے تہذیب و شائستگی اخلاق و کردار اور صبر و عمل سے عاری ہو جاتے ہیں۔ لہجوں اور چہروں سے کرختگی کے تاثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ تعمیری سوچ کی بجائے تخریبی سرگرمیاں ان کا محور بن جاتی ہیں۔ وطن عزیز میں عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کسی کی ذرا سی بات پر باہمی احترام، رواداری، صلح جوئی اور امن و آشتی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جس کے باعث تعصب، نفرتوں، قتل و غارت گری اور بربریت کے ایسے ایسے سانحات جنم لے رہے ہیں جو ایک مہذب معاشرے کی نفی کرتے ہوئے زہر قاتل بنتے جا رہے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت عدم برداشت اور سیاسی و معاشرتی اخلاقی اقدار سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی لوگوں اور سیاسی قائدین کے رویوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت عنقا ہو گئی ہے۔ سیاست کے کارپردازوں کے رویوں میں شدت پسندی اور عدم برداشت اس حد تک غالب آچکی ہے کہ ان کے باہمی رویوں اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ کے باعث احترام آدمیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے درمیان مناظرے اور مباحثے ہوا کرتے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کی بات حتیٰ کہ تنقید کو تحمل مزاجی کے ساتھ سنتے، حسنِ ادب کے ساتھ اختلاف رائے بھی کرتے لیکن احترام آدمیت کا وقار کبھی بھی اپنے رویوں اور مشکوک اخلاقی اقدار کی روایات سے پراگندہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ مگر اب صورتحال ماضی کے بالکل بر عکس ہے، آج لوگ اظہار رائے کا سلیقہ بھول چکے ہیں۔ آج کے مباحثوں میں شدت پسندی،جارحانہ پن، غصہ، عدم برداشت، دھمکیوں اور گالی گلوچ کا کلچر نمایاں ہے۔ اب سیاستدان نظریات کا جواب ذاتیات پر تنقید اور الزامات سے دیتے ہیں۔ عدم برداشت کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ہمہ جہت ہیں۔ بہت سے نفسیاتی، اخلاقی، معاشی اور سماجی مسائل موجودہ سیاسی بداخلاقی کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک معاشرے میں مختلف مزاج کے حامل افراد بستے ہیں کچھ لوگ جذباتی اور کچھ قدرے معتدل مزاج رکھتے ہیں۔ اکثر جذباتی لوگ ذرا سی بات پر سیخ پا ہو کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں جس کے باعث ردعمل کے طور پر فریق مخالف کے رویوں سے اٹھنے والی چنگاری بھی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ماہرین کی رائے میں یہ منفی رویہ دراصل ہمارے اندر پوشیدہ مایوسی سے جنم لیتا ہے۔ ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہمارے نوے فیصد مسائل کی وجہ عدم برداشت ہے کیونکہ اس سے بہت سی ذہنی، نفسیاتی،اخلاقی اور سماجی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح میں بتدریج اضافے کا رجحان معاشرتی استحصال، انصاف کی عدم دستیابی اور لاقانونیت کی وجہ سے ہے۔ ملک میں عدم برداشت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں ایک مثبت رویہ بہت سے مثبت رویوں کو جنم دیتا ہے۔ اپنی رائے کو حتمی سمجھنا بے جا تنقید، بے مقصد اور لاحاصل بحث اور طعن و تشنیع کو ترک کر کے ہم معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جس مخلوق کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ حاصل ہے۔ وہ محض اس لیے ہے کہ ابن آدم چرند، پرند اور درند سے زیادہ عقلمند ہے۔ اس میں باہمی ہمدردی، دکھ درد اور وعدوں کی پاسداری کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے لیکن آج کے جدید ترین ترقی یافتہ دور میں اس اشرف مخلوق کی عدم برداشت اور اخلاقی پستی کے باعث یہ تمام اشرف صلاحیتیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ جھوٹ، دھوکہ، مکاری، فتنہ پن، حرام کی کمائی اور عیاشی اس کی فطرت کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔
ایک وقت تھا کہ ملکی معاشرہ کبھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا لیکن افسوس کہ آج یہی معاشرہ بد ترین تہذیبی و اخلاقی قدروں کی پامالی سے گزر رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پستی اور ہمارے رویوں کی شدت پسندی نے اسے جنگل راج میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف ہمارے معاشرے میں ہولناک دہشتی و حیوانی جنسی ہوس کے خوفناک واقعات پاک سر زمین کے تقدس کو داغدار کر رہے ہیں جس سے انسانیت زندہ درگو ہوتی جا رہی ہے تو دوسری طرف اس پاک دھرتی پر ایسے ایسے بدترین حیوانی واقعات جنم لے رہے ہیں جن کو تحریر کرتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیاں کانپ اٹھتی ہیں۔ الجھن سے ذہنی تناﺅ بڑھ جاتا ہے۔ جس معاشرے میں حیوانیت کے ہاتھوں سر بازار بنت حوا کی لٹتی عصمتوں پر کربناک آہیں اور انصاف کی دہائیاں قانون کو بیدار نہ کر سکیں وہاں کے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں۔ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی شے اخلاق ہے۔ اچھے اور عمدہ اوصاف وہ کردار ہیں جس کی قوت اور درستی پر قوموں کے وجود، استحکام اور بقاءکا انحصار ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور باصلاحیت قوم وجود میں آتی ہے۔ جس معاشرے میں اخلاقی قدریں زوال پذیر اور عدم برداشت کے رجحان میں اضافہ ہو اس معاشرے کو یہ وبا گھن کی طرح کھا جاتی ہے اور اس معاشرے میں کبھی اجتماعی رواداری، مساوات، اخوت و باہمی بھائی چارے کو فروغ میسر نہیں آتا۔ وطن عزیز کا معاشرہ اخلاقی گراوٹ اور عدم برداشت کے باعث تنزلی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔ اخلاقی پستی اور عدم برداشت معاشرے میں خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ فکر مند اسباب معاشرے کے وجود، استحکام اور بقاءکے لیے زہر قاتل ہیں۔
ملک کی سیاست اور سیاستدانوں کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیں تو ان کے اخلاق اور عدم برداشت کا پیمانہ یہ ہے کہ جو پارلیمان ملک و ملت کے مفادات، ملکی سلامتی اور اس کی ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں وہاں ہمارے سیاستدان اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔ کبھی یہ ایک دوسرے پر حملہ اور ہوجاتے ہیں تو کبھی پولیس کے ذریعے ان کو زدوکوب کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ پارلیمانی روایات کا جنازہ نکال دیتے ہیں تو کبھی یہ مالیاتی بدعنوانیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ آئے روز عوام کے منتخب نمائندوں کے اخلاقیات سے عاری سکینڈلز اخبارات کی زینت بنتے اور ٹی وی نیوز چینلز پر نشر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ سیاستدان معاشرے میں اپنا سیاسی چورن بیچتے نظر آتے ہیں۔جس معاشرے کی اخلاقی پستی کا یہ حال ہو وہ معاشرے کیسے ترقی اوراستحکام کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ ایسے معاشرے کی قیادت کبھی بھی اخلاقی قدروں کی پامالی اور رویوں میں عدم برداشت کے ساتھ ملکی ترقی و خوشحالی کی معاشرے میں بسنے والے افراد کو ضمانت فراہم نہیں کر سکتی۔ اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے جب تک ہم اپنی اخلاقیات کو درست نہیں کر لیتے اور اپنے رویوں مثبت تبدیلی نہیں لاتے تب تک ہم کبھی بھی دنیا کے مہذب معاشروں کی صف میں جگہ بنانے کے اہل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثال بنتے ہوئے اس کی شروعات کرنے کی سعی کرنی چاہیے جس میں میڈیا اور ملکی سیاستدان اپنے عمل سے معاشرے میں اس خطرناک رجحان کے خاتمہ کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے عدم برداشت کے رویوں کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ میدان سیاست میں اخلاقی اقدار کو بھی فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے اپنے اندر جمہوری روایات قائم کرنا ہوں گی۔ عوام کی صحیح معنوں میں حقیقی خدمت کی شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت کے لیے سب سے پہلے سیاسی قیادتوں کو خود اپنے آپ کو اخلاقی عظمت کے اصولوں پر کاربند کرنا ہوگا۔ اگر قائد سیاستدان خود مالی بدعنوانیوں میں اور اخلاقی جرائم میں ملوّث ہوں گے توان کے کارکن کبھی نہ خود کو سدھاریں گے اور نہ ہی معاشرے میں سدھار لائیں گے اور نہ ہی ملک میں سدھار آئے گا۔







