Column

فیصلہ کن معرکہ ….. امتیاز احمد شاد

 امتیاز احمد شاد

ایک سیاستدان یا سیاسی جماعت کو سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھنے کے لیے شعبدہ بازی،رنگ بازی اور بیان بازی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یقیناً سیاست کے بازار میں اس کا دھندہ نہیں چل سکتا۔اس وقت پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بام عروج کو پہنچ چکا،میدان سج چکا،اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے نہ صرف اتحاد قائم کر لیا بلکہ حکومت کے اتحادیوں سے بھی ایک مدت کے بعد میل ملاپ،راہ و رسم بڑھا لیے۔توقع کی جارہی ہے کہ اب کے بار عمران خان کی حکومت کا جانا ٹھہر گیا۔اس بار اپوزیشن بڑے اعتماد میں لگ رہی ہے اور بظاہر پنجاب اور مرکز میں عمران خان کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی یا ناکام اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔مگر اپوزیشن اور حکومتی رہنما سب کے سب جارحانہ انداز سے میدان میں اتر چکے ہیں۔

جس انداز سے ماحول کو پروان چڑھایا جا رہا ہے،اس گھمسان کے رن میں کوئی ایسا واقعہ بھی پیش آسکتا ہے جس کا وطن عزیز متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال اپوزیشن کا کام ہی حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہوتا ہے اور حکومتیں ہمیشہ حکمت عملی سے مشکلات سے نکل جایا کرتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کو کیوں گرانا چاہتی ہے؟قریباً چار سال مکمل ہونے کو ہیں،اگلا سال تو ویسے بھی الیکشن کا ہے تو اپوزیشن کو ایسی کون سی جلدی ہے کہ وہ عمران خان کو اب ایک لمحہ بھی اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی۔اگر بات مہنگائی کی ہے تو اپوزیشن کو جلسے جلوس اور مظاہروں کی طرف جاتے ہوئے عوام کا شعور بیدار کرنا چاہئے تھا تاکہ عوامی سیلاب اُمنڈ آتا اور عمران خان پر پریشر جاتا اور مہنگائی کا خاتمہ ہوتا مگر اپوزیشن نے اس کی بجائے مواخذے کا فیصلہ کیا گو کہ وہ بھی ان کاجمہوری اور آئینی حق ہے۔ اپوزیشن کے پاس نمبرز پورے نہیں ہیں،اس سے واضح ہے کہ اپوزیشن کی یہ خواہش بیرونی تعاون کے بغیر پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ بین الاقوامی سطح پر عمران خان جس انداز سے اسلام اور پاکستان کا موقف پیش کررہا ہے اقوام عالم اس طرز عمل سے نالاں ہے۔جن بیرونی طاقتوں نے پاکستان کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سمجھ رکھا رہا تھاانہیں عمران خان کے بیانیے پر سخت تشویش ہے۔یقیناً وہ چاہتی ہیں کہ کسی بھی صورت عمران خان کو 2023

میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔

انہیں معلوم ہے کہ اگر عمران خان مدت پوری کر گیا تو دنیا کا جو نقشہ 2023کے بعد وجود میں آنے والا ہے اس میں پاکستان کو نمایاں مقام حاصل

ہو گا۔عمران خان اپنی ہر گفتگو میں لاالہ الااللہ کا جو ورد کرتا اور سیرت نبوی ﷺ کو عام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے ،عقل اور شعور رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ وہ اقوام عالم کو کیا پیغام دے رہا ہے؟اپوزیشن نے ہمیشہ عمران خان پر جو الزمات لگائے ان میں سے یہودی لابی، قادیانی عناصراور کردار کی خرابی سر فہرست ہیں۔ اسلامو فوبیا پر عمران خان نے جو موقف اختیار کیا اور پھر اس پر ڈٹا رہا ۔کیا اپوزیشن کی یہ تحریک کامیاب ہوگی؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کے پاس اپنے نمبرز پورے نہیں یقینی بات ہے وہ حکومتی اتحادیوں کو قائل کریں گے،جو سیاست کے نہ صرف ماہر ہیں بلکہ اپوزیشن رہنماﺅں کی اصلیت سے بھی بخوبی واقف ہیں تاہم انہیں ان تمام لیڈران کی نسبت عمران خان آسان اتحادی نظر آتا ہے اور وہ کسی صورت ایسا نہیں کریں گے۔ اپوزیشن تحریک انصاف میں موجود دھڑوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گی جس میں جہانگیر ترین اور علیم خان شامل ہیں۔جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے یہ دھڑے اپوزیشن کے ساتھ مل کر عمران خان کو گھر بھیجنے کا سبب بنیں گے تو وہ پھر نہ تو عمران خان کو جانتے ہیں اور نہ ہی جہانگیر ترین اور علیم خان کو۔ بہت سارے دوستوں کو یہ بیماری ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی یادوں میں گم رہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں لوگ ہمارے قصے اور کہانیوں سے مرغوب ہو کر ہماری جی حضوری کرتے رہیں گے لیکن وقت کسی کے لیے نہیں تھمتا، اسے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔وقت بدل چکا،اقوام عالم نئے فیصلے کرچکیں،بہت سے طاقتور کھلاڑی عالمی سیاست میں آﺅٹ اور ان ہونے کے قریب ہیں۔اس سب میں عمران خان کی شخصیت پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ان حالات میں پاکستان کی خیر خواہی چاہنے والے کسی صورت عمران خان کو اقتدار سے دور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر پیسہ اور عہدے حکومتی ارکان کو قائل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں تو پھر یہ کام تو حکومت اچھے انداز سے کرنے کی پوزیشن میں ہے۔کسی بھی اینگل سے تجزیہ کر لیں عمران خان اقتدار سے ہٹتے نظر نہیں آرہے۔ سیاست کے اندر سیاست کے گرو آصف علی زرداری ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پتلی گلی سے نکل جائیں گے ،مسلم لیگ (ن) اور مولانا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔جب انہیں ناکامی واضح نظر آئے گی تو مولانا فضل الرحمان جارحانہ طرز سیاست کو اپنائیں گے اور ان کی خواہش ہو گی کہ ملک میں ایسا انتشار پھیلے کہ ہم نہیں تو کوئی نہیں ۔یقیناً ہمارے مقتدر حلقے اس سارے عمل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔ انہیں کسی صورت سیاسی ماحول کو اس حد تک خراب نہیں ہونے دینا چاہیے کہ لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں۔گذشتہ دنوں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری طاقت کا معلوم کرنا ہے تو اشرف غنی سے کر لو، ان کے اس جملے میں ایک مکمل اور واضح پیغام ہے۔یقیناً ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت اس حد تک نہیں جائے گی کہ وطن عزیز میں انارکی پھیلے۔سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے اس میں نفرت کو جگہ نہ دی جائے ،تمام رہنماﺅں کو الفاظ کے چناﺅ میں احتیاط برتنی چاہیے۔بہر حال اپوزیشن اور حکومت فیصلہ کن معرکے میں داخل ہو چکے،نتیجہ جو بھی وطن عزیز کے لیے خیر برآمد ہونی چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button