Column
پنجاب میں ثقافتی تقریبات خوش آئند اقدام ….. ضمیرآفاقی

ضمیرآفاقی
پنجاب میں ان دنوں رنگ و نور کی بہار آئی ہوئی ہے، کہیں میلوں ٹھیلوں کی رونقیں ہیں تو کہیں جشن بہاراں کی تقریبات ہو رہی ہیں، تعلیمی اداروں میں بھی سپورٹس کاآغاز کیا جا چکا ہے، اس طرح کی تقریبات سے معاشرے کو صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔ ثقافت کسی معاشرے میں موجود ان رسم و رواج اور اقدار کے مجمع کو کہا جاتا ہے جن پر اس کے تمام افراد مشترکہ طور پر عمل کرتے ہوں اور یہی اس معاشرے کی پہچان بھی ہے۔ حکومت پنجاب نے ”پنجاب کلچر تقریبات“ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سیکر ٹری اطلاعات وثقافت راجہ جہانگیر انور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی ثقافتی تقریبات کو بڑھا کر دس کروڑ سے زائد پنجابیوں کی خواہش کا احترام کیا ہے ۔ کلچر ڈے کے حوالے سے سیکرٹری اطلاعات وثقافت راجہ جہانگیر انور نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کی ہدایت پر آج کی نوجوان نسل کو اپنی عظیم اعلیٰ اقدار سے روشناس کروانے کے لیے صوبہ بھر میں 14مارچ کو یہ دن منایا جا رہا ،لیکن اس سے پہلے شہر سج چکے ہیں، ہر طرف رنگ و نور کی برسات اور تیاریاں عروج پر ہیں۔کلچر انگریزی زبان کا لفظ لیکن قوموں کی پہچان ثقافت سے ہے۔ ہر قوم کی الگ ثقافت ہوتی ہے۔ کسی قوم کی ثقافت کبھی ہو بہو دوسری قوم کی ثقافت ہوتی ہے البتہ ثقافت پر دوسری قوموں کی اقدار کا اثر ضرور ہو سکتا ہے۔ ثقافت انسان کا اظہار ہے۔ جسے رواج دے کر ہی ہم اپنے کلچر سے جڑے رہ سکتے ہیں۔ ویسے بھی آج ہمارا نوجوان طبقہ جن حالات سے گزر رہا ہے ایک طرف انتہا پسندگروہ ہیں جو فارغ نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر رہے ہیں تو دوسری جانب معاشرے میں روادری اور تحمل مفقود ہو چکا ہے ۔آج کا نوجوان فرسٹریشن کا شکار بھی ہے جسے ان ساری علتوں یا برائیوں سے بچانے کے لیے کلچر ڈے جیسے تہواروں کے ساتھ میلے ٹھیلے اور کھیلوںکو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آج کا نوجوان مثبت سرگرمیوں میں شامل ہو کر آج کے عہد کی دیگر برائیوں سے بچ سکے۔
دوسری جانب سندھی، بلوچی اور پشتون عوام کی اپنی زبان اور ثقافت سے محبت کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے سال کے 365 ایام میں سے ایک کو اپنی ثقافت کا دن منانے کے لیے مختص کیا ہوا ہے، جسے ”سندھی ثقافت ڈے“، ”بلوچ ثقافت ڈے“ اور ”پختون کلچر ڈے“ سے منسوب کر رکھا ہے۔ تینوں ثقافتیں اپنے یہ ایام بڑی دھوم دھام سے مناتی ہیں، لیکن پنجاب میں اس طرح کے پروگراموں کی شدید کمی تھی حالانکہ کبھی پنجاب ادب ،ثقافت اور فنون لطیفہ کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ چار موسموں کے اپنے اطوار ہوا کرتے تھے بسنت بہار تو مشہور تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا لیکن برا ہو منافع کی ہوس میں مبتلا افراد کا جنہوں نے صدیوں سے جاری بسنت کے تہوار کو خونی تہوار بنا کر اس پر پاباندی لگوا دی ،ہم سمجھتے ہیں اس میں قصور، غلطی یا کوتاہی حکومت کی بھی ہے جس نے ایسے عناصر پر آہنی ہاتھوں سے قابو پانے کی بجائے انہیں گل کھلانے کا موقع دیا اور ان چند برے لوگوں کی وجہ سے ایک بہترین اور بڑے تہوار سے پنجاب کے دس کروڑ سے زائد لوگ محروم ہو گئے ۔
پنجاب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس نے ہمیشہ انسانی ترقی میں بنیادی کر دار ادا کیا۔ہڑپہ سے لے کر ٹیکسلا تک ہر شعبے میںہزاروں سال کی خدمت پنجاب کی عظمت اور بڑا ئی کی دلیل ہے۔ پنجاب کی تہذیب نے دنیا کو انسانی قدروں کی اہمیت کا احساس دِلایا۔یہاں ہزاروں سال پہلے بھی انسان کو غلام بنانے کا وہ غیرانسانی رواج نہیں تھا جو یورپ یا عرب میں تھا،جس پر انسانیت آج بھی شرمندہ ہے۔پنجاب نے ہڑپہ کی شکل میں جدید طرزِ زندگی کا تصور دِیااور آج کی شہری زندگی کے وہ پیمانے طے کئے جو مسائل کے ہڑبونگ کے بجائے پرسکون شب و روز کا سامان کرتے ہیں۔پنجاب کے شہر ٹیکسلا میں وہ علمی چشمے پھ ±وٹے جِنہوں نے انسا نی تہذیب کو جِلا بخشی اور بتا یا کہ زمین پر خون بہا کر حکومت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ،جدید علوم اور آ گہی کے چراغ روشن کر کے بھی ہمیشہ کی زندگی حا صل کی جا سکتی ہے۔پنجاب نے اعلیٰ علمی ہستیوں کو ہی جنم نہیں دِیا بلکہ اِسی زمین پر پورس اور دُلا بھٹی جیسے بیٹوں نے بھی آ نکھ کھولی جنہیں آج بھی تا ریخ دنیا کے بہا در جنگجووں کا سالا ر مانتی ہے۔ اِس خطے کی تہذیب ، زبان اور رسم و رواج کا ہر رنگ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم انسانی قدروں کو سنوارنے والے خطے میں پیدا ہوئے او ر زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم نے سکیورٹی کے نام پر اپنے بچوں ،جوانوں، خواتین اور افراد معاشرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تک چھین لیں اور کئی ناروا پابندیاں لگا کر انہیں گھروں، محلوں کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ آج کوئی محلہ اور گلی ایسی نہیں جہاں نوجوانوں کی ٹولیاں کھڑی نظر نہیں آئیں گی، اگر ان کے پاس مثبت سرگرمیوں کے مواقع ہوں تو یہ نوجوان بہتر کارکردگی اور صلاحیتوں کے حامل ہو کر دنیا بھر میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں منشیات کی علت کا شکار بھی زیادہ تر نوجوان طبقہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی ان کے لیے مثبت سرگرمیوں کا نہ ہونا ہے ۔ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کل کو محفوظ بنانے کے لیے ان کے لیے کھیلوں کے میدان آباد کرنے کے ساتھ فارغ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے، سیکھنے اور سکھانے کے کاموں پر توجہ دے ورنہ یقین کیجیے پولیس کی تعداد بڑھانے ،یا انہیں بہت زیاد وسائل مہیا کرنے سے بھی جرائم میں کمی واقع نہیں ہو گی جرائم میں کمی کا فارمولہ ایک ہی ہے کہ اپنے نوجوانوں کی تربیت پر سب سے سے زیادہ توجہ دی جائے انہیںزیادہ سے زیادہ مصروف رکھا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں محکمہ اطلاعات وثقافت پنجاب نے گذشتہ کچھ عرصہ سے زبان و ادب ،تہذیب وثقافت کے فروغ کے لیے جو گراں قدر کام شروع کئے ہیں ان کا مقصد ملکی یکجہتی وہم آہنگی کی فضاءکو مزید سازگار بنانا ہے،جب تمام پاکستانی یک زبان ویک رنگ ہو کر ایسے پروگراموں کا انعقاد کریںگے تو یہ امر خوشی کا باعث ہوگا۔ محکمہ اطلاعات و ثقافت اپنے اس عظیم مقصد میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کر رہاہے،کلچرڈے کی مناسبت سے ”پاکستان کے رنگ“،”ثقافت کے سنگ“ کی کامیابی کا سہرا بھی پنجاب آرٹس کو نسل ،الحمراءآرٹس کونسل و دیگر متعلقہ اداروں کے حصہ میں آتاہے جو بھرپور محنت کرکے پنجاب کو ایک پر امن اور ہنستا کھیلتا پنجاب بنانے کے لیے اپنی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ محکمہ اطلاعات وثقافت اور اس کے تمام ذیلی محکمے پنجابی ،سندھی، بلوچی، گلگت بلتستان ،کیلاش،چولستان اور کے پی کی ثقافتی رنگوں سے بھرپور پروگرام ماضی میں بھی پیش کرتے آرہے ہیں اور آئند ہ ایسے بھی ثقافتی پروگرام منعقد کرانے کے لیے عزم رکھتاہے اس ضمن میں پلاک کی ڈی جی صغریٰ صدف نے پنجابی زبان میوزک، ادب اور پنجابی کلچر کے فروغ کے لیے بہت محنت کی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پنجاب کی ان کاوشوں کو کامیاب بنانے کے لیے میڈیا اور فنون لطیفہ کی تمام اشکال کو بحال کرنے پر کام کر نے والوں کو آگے آنا چاہیے تاکہ ہم ایک اچھا پر امن اور ہنستا کھیلتا پنجاب بن سکیں جو اس کی پہچان تھی۔





