Column

یہ لوگ کیسی جمہوریت چاہتے ہیں؟ …… علی حسن

علی حسن

وزیر اعظم عمران خان ذہنی دباﺅ کا شکار ہوں گے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے جس پر گنتی ہوگی۔ گنتی میں کیا ہوگا یہ تو گنتی کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کیوں کہ حکومت کہتی ہے کہ صورت حال قابو میں ہے۔ تحریک جمع کرانے والے سیاستدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں مطلوبہ تعداد سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ گنتی میں مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کرنے پر وزیر اعظم کی وزارت عظمیٰ ختم ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے وہ ذہنی دباﺅ کا شکار ہوں گے۔ یہ پریشانی ایسی حکومت کے لیے ہوتی ہے جس کے پاس دو تہائی اکثریت نہ ہو اور سادہ اکثریت بھی دوسروں کے سہارے ہو۔ وزیر اعظم کا عہدہ اور حکومت قائم کرنے میں وہ کشش ہوتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ عمومی طور پر کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، خواہ کیسے ہی مزاج کے لوگوں کو ساتھ ملانا پڑے۔

وزیر اعظم کا ان تمام لوگوں سے ذاتی قسم کا اختلاف تو ہے نہیں۔ ان تمام لوگوں کی اپنی اپنی خواہش کے مطابق مطالبات پورے نہ ہونے پر اختلاف پیدا ہوا ہے اور آج عمران خان ان کی آنکھیں دیکھنے پر مجبور ہیں اور انہیں منانے کے لیے بار بار ان کے گھروں کے چکر لگانا پڑ رہا ہے۔ کوئی بتائے گا کہ کیا اس کے علاوہ بھی وزیر اعظم کا کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔ جہانگیر ترین ، علیم خان ، چودھری محمد سرور ،( ق) لیگ والے، ایم کیو ایم والے ، بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں ہوئیں ،ان میں سے کسی کو بنیادی مسائل اور معاملات پر اختلاف نہیں ۔ کسی کو یہ اختلاف بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں وہ جمہوریت نہیں ہے جس کا تقاضا اس کی روح کرتی ہے۔ آزادی اظہار پر مختلف قدغن ہیں۔ محنت کشوں کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی جاسکی ۔ غرض کہ تحریک انصاف سادہ اکثریت نہ رکھنے کے باوجود حکمران جماعت ہے۔ جن پارٹیوں یا اراکین کو عمران خان نے ساتھ ملایا وہ اب تک سارے عرصے میں انہیں آنکھیں ہی دکھاتے رہے ہیں۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے؟ کیا عوام کی خدمت اسے ہی کہا جاتا ہے؟ کیا قومی اسمبلی وجود رکھنے کے باوجود کام چلانے کے لیے آرڈیننس پر آرڈیننس جاری کرنے کو جمہوریت کا نام دیا جاسکتا ہے؟ افسوس ناک بات ہے کہ اس ملک میں ہر سیاست دان ایسی جمہوریت چاہتا ہے جس میں اسے صرف بچہ جمہورا کہنا پڑے اور اس کے تمام جائز اور ناجائز کام ہوجائیں۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ملاقاتوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ دونوں طرف سے جاری ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کی اس سر گرمی کی وجہ سے ملک میں تمام سر گرمیاں ایک طرح سے معطل ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد اپوزیشن نے بھی حکومتی اتحادی جماعت سے رابطہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اتحادی ساتھیوں کا وفد سابق صدر آصف زرداری سے اسلام آباد ملاقات کرنے جائے گا۔ کیا یہ وفد آصف زرداری سے یہ کہے گا کہ سندھ میں غیر سندھیوں کو کیوں دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ پورے صوبے میں کسی بھی ایک محکمہ کو سربراہ اردو بولنے والا نہیں ہے۔ وفد یہ پوچھے تو کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر (ق) لیگ ، ایم کیو ایم اور دیگر کے ساتھ عمران خان کا تعلق کچے دھاگے کی طرح نہیں ہوتا تو انہیں ایم کیو ایم والوں سے ملاقات کے لیے کراچی نہ آنا پڑتا۔ (ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت سے ملاقات کے لیے دو بار ان کی پیشی نہ بھرنی پڑتی۔ ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے عدم اعتماد پر نہ یقین دہانی مانگی، نہ ہم نے کرائی، اگر ایسا نہیں تھا تو وزیر اعظم کراچی کیوں آئے۔ (ق) لیگ کوئی کمی محسوس کر رہی ہے کہ چودھری شجاعت اپنی خرابی صحت کے باوجود مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے لاہور سے اسلام آباد پہنچے ۔ چودھری پرویزالٰہی وزیر اعظم کو یہ مشورہ دے ہی چکے ہیں کہ بڑے فیصلے کرنے کا وقت گزر رہا ہے۔ ” بڑا فیصلہ“ سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ عمران خان پنجاب کی وزارت اعلیٰ (ق) لیگ کے سپرد کردیں۔ (ن) لیگ تو اس کے لیے تیار ہی نہیں تھی اسی لیے معاملہ نہیں بن سکا۔ اس سے قبل بھی (ق) لیگ کو اپنی مرضی کی وزارتوں کی تمنا تھی۔
علیم خان ،جنہیں پنجاب میں وزارت بھی دی گئی ، کابھی کچھ اسی انداز کا معاملہ ہے۔ سب ہی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔ کسی ” آرڈیننس‘ ‘ کے ذریعہ ایک سے زیادہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی گنجائش پیدا کر لی جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ (ق) لیگ کے طارق بشیر چیمہ نے ملاقات میں وزیراعظم کو بتایا ہے کہ حکومت کے پندرہ بیس ارکان ٹوٹ گئے تو (ق) لیگ بھی اپوزیشن کے ساتھ جانے پر مجبورہوگی۔ انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ اتحاد کے معاملات میں آپ کے ساتھ ہیں، اگر آپ کے ارکان بکھر گئے تو ہم نئی پالیسی بناسکتے ہیں۔ یہ اتحاد ہے کہ کسی بھی وقت تعلق ٹوٹ سکتا ہے۔ فریقین قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے لیے اپنی اپنی تعداد پوری ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے 161 ممبران ہیں اور اپوزیشن نے تحریک انصاف کے 28 اور ایک اتحادی پارٹی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ (ن) لیگ کے ساتھ تحریک انصاف کے 16، پیپلزپارٹی کے ساتھ 4 اور جے یو آئی کے ساتھ 2 حکومتی اراکین ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے مزید 6 ارکان قومی اسمبلی (ن) لیگ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اپوزیشن نے 197 سے 202 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے 28 ممبران کے نام وزیراعظم کے علم میں ہیں۔
ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے ترین گروپ نے پرویز الٰہی سے تعاون مانگ لیا ہے ۔سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ترین گروپ کے رہنماو ¿ں نے ملاقات کی اور بزدار کو ہٹانے کے لیے تعاون مانگ لیاہے ۔ ترین گروپ کے ارکان کے حامیوں کے پیٹ میں یہ ”درد“ ہے کہ پنجاب تباہ ہوچکا ہے، عوام کے مفاد کے لیے سامنے آنا ہوگا، ہم عثمان بزدار کو ہٹانے نکلے ہیں، ہمارا ساتھ دیاجائے۔ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں جنہیں پورا کرنا بزدار کے بس میں نہیں ہوگا تو وہ لوگ ان سے ناراض ہو گئے۔ باقی بزدار کی ان لوگوں کے ساتھ خاندانی دشمنی تو ہے نہیں۔ یہ جمہوریت کی اپنی خاص قسم ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کی کراچی دورے کے دوران پیر پگارا سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ پیر پگارو جی ڈی اے کے سربراہ بھی ہیں ۔ جی ڈی اے حکومت کی اتحادی ہے لیکن پیر پگارو کے اپنے تحفظات ہیں۔ جی ڈی اے کی رکنِ قومی اسمبلی سائرہ بانو نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ پیر پگارا کی طبیعت خراب ہونے کے باعث ملاقات نہیں ہو سکی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پیر پگارو نے ملاقات نہ کر کے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے گورنر ہاﺅس کراچی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بڑی دیر سے آصف زرداری میری بندوق کی نشانے پر ہے۔ آصف زرداری بھی عمران خان سے کسی نہ کسی طرح چھٹکارہ چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے بیس بیس کروڑ روپے ہمارے ارکان کو خریدنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ہمارے ایک ایم این اے نے بتایا ہے کہ اسے 20کروڑ کی آفر کی ہے، زرداری تمہیں نیب بلاتا ہے تو تمہاری کمر میں درد ہو جاتا ہے۔ میں سیاست نہیں بلکہ جہاد کر رہا ہوں، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا کہ ان کی گردن میرے ہاتھ میں آ جائے۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست لکھنو کی معروف طوائف دلبر جان بنادی گئی ہے، ہر سیاست دان اس کے پہلو میں بیٹھ کر مستفید ہونا چاہتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button