سیاسی سرکس ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی
سیاسی سرکس کہیں یا شطرنج، کھیل جاری ہے ہر دو جانب بچہ جمہورا اور پیادہ کے طاقت ورہونے کا خوف پایا جاتا ہے۔ نانا جان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے اپنا قد بڑھا لیا لیکن وزیر اعظم کی باڈی لینگوئج اور انداز یکسر بدل گئے وہ ایک طرف بلاو ل کی اردو درست کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی بندوق کے نشانے پر پہلا شخص زرداری کو قرار دیتے ہیں۔ ان بیانات اور لفظی جنگ سے خان اعظم کیا چاہتے ہیں، شاید اس کا انہیں خودبھی معلوم نہیں، اسی لیے عدم اعتماد کی تحریک کو اپوزیشن کی موت سے تشبیہ دے رہے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اگر تحریک کامیاب ہو گئی تو ان کی اپنی پوزیشن کیا ہوگی ؟ حقیقت تو یہی ہے کہ میدان سیاست ہو کہ کھیل کا میدان، جیت تو ایک کی ہی ہوتی ہے ہاں اگر قومی سیاست کو بچوںکا کھیل سمجھا جائے تو پھر تمام تر کامیابیوں کے بعد بھی 99 پر سانپ کے ڈسنے پر کایا پلٹ سکتی ہے ۔ ایسے لوگوں کو سانپ پر بھی نظر رکھنی پڑے گی وہ کس نمبر پر ہے یا کہ آستین میں پل رہا ہے، حکومت اور اس کے حواری اس مشکل حالات میں بھی اپنی برتری کے دعوے دار ہیں انہیں اہم ترین شخصیت جہانگیر ترین سے بھی وفا کی امید ہے حالانکہ ان کا وفدچودھری پرویز الہی سے ملنے کے بعد جلد از جلد چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کے خواہش مند ہے۔ وزیر اعظم مطمئن ہونے کے باوجود پنجاب کی صورت حال سنبھالنے کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ لاہور یاترا کرکے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران سے ملاقاتیں میں اتحادو اتفاق سے تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کا درس دیتے رہے ہیں۔ یہی نہیں،ان کی یقین دہانی ہے کہ حکومت کہیں نہیں جارہی ، آخر کار پسپائی کا سامنا اپوزیشن کو ہی کرنا ہو گا ، تاہم اپوزیشن بھی پر اعتماد ہو کر اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں دم دمادم مست قلندر کا جونہی ورد شروع ہوگا حکومتی موکل اسلام آباد سے فرار اختیار کر جائیں گے۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی بظاہر الگ تھلگ ہیں۔ احتجاج ،لانگ مارچ اور دھرنوں کی تاریخ بھی مختلف، لیکن امید دونوں کی ایک ہی ہے۔ تجزیہ کاروں کو پرکھیں تو وہاں بھی گروہ بندی صاف دکھائی دیتی ہے ایک کا زور ہے کہ حکومت کہیں نہیں جارہی ،عمران خان اور ان کی ٹیم کے کارناموں کے نتائج آئندہ پانچ سال میں ظاہر ہونگے لہٰذا آئندہ اقتدار بھی ان کا ہی ہے۔ دوسرا گروپ ہر روز حکومت کو گھر بھیج کر خوشی خوشی سوتا ہے اور جب دوسرے روز صبح کو تبدیل سرکار کی تبدیلی نہیں ہوتی تو نئے عزم اور جذبے سے سرگرم عمل ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو نیا فساد دکھائی دیتا ہے گروپنگ موجود اور دعوے زمین و آسمان کے ۔ کون کس کے اشارے پر ہلچل پیدا کر رہا ہے کوئی نہیں جانتا پھر بھی ریفری ، ایمپائر اور قومی اداروں کی پسند نہ پسند کا چرچا بے دریغ موجود ہے حالانکہ اصل وقت تبدیلی سرکار کا گزر چکا اب تو تو قلیل وقت ہے جو ہضم نہیں ہو رہا۔
اپوزیشن ایک تیر سے دو شکار کی پالیسی پر گامزن ہے کہ حکومت گرے نہ گرے 2023ءکی تیاری اور اتحاد تو بن چکا ہے، پیپلز پارٹی سندھ کے بعدپنجاب میں پاور شو کر کے اپنی سولو فلائٹ کی راہ ہموار کر نے کی کوشش میں ہے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ اتحادی بھی ٹھہرواور انتظار کرو کی پالیسی پر حکومتی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی اور پیر پگاڑا گروپ ” چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں “کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں ایک روز ایسا لگتا ہے کہ اتحاد ٹوٹنے کو ہے لیکن دوسرے ہی دن ایسا بیان آتا ہے کہ غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے ۔
لاہور میں چودھری برادران کا ڈیرہ اس سلسلے میں انتہائی پر رونق رہا اور تو اور وقت بڑا ظالم ہے 14 سال بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفد نے بھی صدر شہباز شریف کی قیادت میں حاضری دی ، خبر اتحاد و اتفاق کی نکلی، ایسا محسوس ہوا کہ چودھری اور شریف برادران وزیر اعظم عمران خان کی فراغت کے لیے کوئی مشترکہ کوشش میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے لیکن شہباز شریف کی دعوت چودھریوں نے ٹھکراکر نئے وسوسے پید اکر دئےے ۔ وزیر اعظم عمران خان بھی حالات کے باعث یا کسی سیانے کے مشورے پر چودھری برادران سے ملنے پہنچے ، دس منٹ کی ملاقات میں دس سے زیادہ وفاقی وزراءاور (ق) لیگ کے اہم لیڈر موجود تھے ، جن سے سلام دعا کے لیے بھی دس منٹ ناکافی تھے لہٰذا وزیر اعظم عمران خان نے عیادت اور دعائے صحت سے زیادہ کوئی بات چیت نہیں کی لیکن تمام اخبارات کی سرخیاں اورچینلز کی ہیڈ لائنز تھیں کہ وزیر اعظم اور چودھری برادران کی ملاقات ڈٹ کر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی یقین دہانی ، اتحادی ہیں مشکلات میں ساتھ دیں گے ، ملاقات نے اپوزیشن کے دعوو ¿ں کے غبارے سے ہوا نکال دی میرے ذمہ داروں نے بھی ایسی ہی خبر کی ڈیمانڈکی میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ ”عدم اعتماد “کے حوالے یاسیا سی پس منظر میں کسی قسم کی بات نہیں کی گئی تاہم انھوں نے میری ایک نہ مانی اور وہ بھی ان ہی خبروں کے اسیر ہو گئے جو میڈیا چلا رہا تھا لیکن سچ تو سر چڑھ کر بولتا ہے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا کہ وزیر اعظم سے ملاقات میں تحریک عدم اعتماد اور سیاسی صورت حال پر کوئی بات نہیں ہوئی ، بڑی ہانڈی چڑھ چکی ہے اب ابال آنے دیں اس میں سے کچھ نہ کچھ تو ضرور نکلے گا ۔ اس سے پہلے وزیر اعظم اپنے اتحادی چودھری برادران سے بہت کچھ امیدیں رکھتے ہیں اگر ایسی بات نہ ہوتی تو بھلا وہ مونس الٰہی سے گفتگو کرتے لہٰذا چودھری پرویز الٰہی کے بیانات اہمیت اختیار کر گئے یہی نہیں ، پرویز الٰہی ہمارے ساتھی سلمان غنی کی صاحبزادی کی شادی میں گئے تو صحافیوں نے سوالوں کی بو چھاڑ کر دی کہا کیا آپ کو مبارک باد دے دیں ، مسکراتے ہوئے جواب ملا ابھی نہیں ۔صبر کریں ، پھر فرمانے لگے ہم سیاسی لوگ ہیں ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ فیصلے سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کے ساتھ کرنے چاہیے ۔اسی تقریب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وقت آگیا کہ اپوزیشن سر پرائز دے لیکن ابھی سب کچھ بتا دیا تو ہم کیا کریں گے ؟ پھر بھی آپ لوگ سرپرائز کے لیے تیار ہیں انھوں نے ڈائریکٹ یہ بھی کہا کہ بہت سے حکومتی تگڑے بندے ہمارے ساتھ ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں بس کر دیو ساڈی جان چھڈ ادیو جبکہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ عدم اعتماد بچوں کا کھیل نہیں ، ابھی دو چار دن مزید لگیں گے سب سیا سی کھلاڑی ہیں لہٰذا میدان پوری منصوبہ بندی سے مارنا ہو گا کیونکہ عین وقت پر بھی ماضی کی طرح کوئی آگے پیچھے ہو تو بھی کامیابی ضرور ملے ۔ خواجہ سعد رفیق کا دعویٰ ہے کہ اس مرتبہ سرپرائز جلد ملے گا اسی صورت میں عوام کو سکون مل سکے گا جبکہ گورنر پنجاب چودھری سرور نے مسکراتے ہوئے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ لگتا ہے اتحادی بھی اپوزیشن ہیں لیکن وقت بتائے گا کون کس کے ساتھ ہے؟ چودھری برادران تحریک اعتماد پیش ہونے کے بعد اپوزیشن سے رابطے میں آئے تو حضرت مولانا نے یہ کہہ کر جھنڈی کرا دی کہ بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے ۔ ہم نے کوئی آپشن اختیار کر لیا ہے ۔
اس سیاسی صورت حال میں افواہوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے حکومت اور اس کے حواری مطمئن ہیں کہ ان کے ضمانتی آج بھی ان کے ساتھ ہیں اس لیے وہ اپنے اقتدار کی آئینی مدت نہ صرف پوری کریں گے بلکہ 2023 ءمیں بھی انتخابات آسانی سے جیت جائیں گے جبکہ مہنگائی ، بد امنی اور بیڈ گورننس کا نعرہ لگانے والی اپوزیشن جماعتیں بھی پر امید ہیں کہ وہ اتحادیوں کی ناراضگیوں سے بھر پو ر فائدہ اٹھا کر حکومت کو رخصت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ تبدیلی سرکار نے وعدے ایفاءنہیں کیے ۔انہوں نے اتحادیوں کا خیال بھی نہیں رکھا اس لیے کہ انہیں اپنے مضبوط اور طاقتور ضمانتی کا غرور تھا جو ان کی کارکردگی سے خاک میں مل گیا تمام سیاستدان اپنے بیانات اور منصوبہ بندی سے رائے عامہ کو مثبت انداز میں آگے بڑھانے کی بجائے منفی انداز میں پیچیدہ کرنے میں کامیاب ہیں اس لیئے یہ کہنا درست ہو گا کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں ؟ زور آزمائی جاری ہے اور نیوٹن کے کلیے کے مطابق عمل اور ردعمل برابر ہیں لیکن سمت میں مخالف ،لہٰذا انتظار کرنا ہو گا کہ غلطی کون کرتا ہے اور اس سے فائدہ کون اٹھاتا ہے؟ تاہم اتحادیوں کے تیور بھی بدلے ہیں ”باپ“نے آنکھیں دکھائیں تو پیر پگاڑا بیماری کے بہانے سے وزیر اعظم کو ماموں بناگئے۔ ایم کیو ایم یہ کہہ کر اسلام آباد زرداری کے پاس پہنچ گئی کہ وزیر اعظم نے ملاقات کی لیکن حمایت مانگی اور نہ ہی ایم کیو ایم نے یقین دہانی کرائی ۔ملکی تاریخ کی بڑی سیاسی سرکس لگ چکی ہے جیت اسکی ہو گی جس کا ساتھ ”بچہ جمہورا“ دے گا وقت بڑا ظالم ہے بونوں کے قد بڑے ہوگئے اور بڑی نامی گرامی منت مناجت کے سہارے سے ہی نئی زندگی حاصل کر پائیں گے ؟







