Columnمحمد مبشر انوار

سعودی عرب واپسی میں مشکلات ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

کرونا کے ہنگام میں دنیا بھر میں معمولات بہت زیادہ متاثر ہوئے،ان میں سب سے زیادہ حرج بین الاقوامی سفر کرنے والوں کو درپیش ہواکہ دنیا بھر میں جہاز رن ویز پر کھڑے ہو گئے،سفر کرنیوالوں کے لیے سفر کرناقریباً نا ممکن ہو گیا کیوں کہ تحفظاتی و احتیاطی تدابیر نے معمولات زندگی کا رخ ہی بدل دیا اور عوام کی اکثریت گھروں میں دبک کر بیٹھ گئی۔ دیار غیر میں حصول رزق کے لیے سرگرداں تارکین وطن بالخصوص جو اس دورانئے میں چھٹی پر گھروں کو گئے تھے،اس کی زیادہ زد میں آئے ،تاہم معمولات نارمل ہوتے ہوتے یا مختلف ممالک کے ان احتیاطی تدابیر میں سہولتیں فراہم کرتے، ان میں سے بیشتر واپس اپنے روزگار تک پہنچ چکے ہیں ۔اس دوران جو چھوٹ یاسہولتیں ،ان مسافروں کو فراہم کی گئیں، ان میں سرفہرست کسی تیسرے ملک میں قرنطینہ کی شرط پوری کرنے کے بعد،سعودی عرب میں داخل ہونا اور بعد ازاں معاملات سنبھلنے پر(مراد کرونا کے مریضوں میں کمی پر،اس کا زور ٹوٹنے پر)جن غیرملکیوں نے سعودی عرب سے ویکسین لگوا رکھی تھی،انہیں براہ راست سعودی عرب میں داخلے کی اجازت دینا بھی شامل تھی۔علاوہ ازیں! اس عرصہ میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جس طرح مملکت میں مقیم تارکین وطن کے لیے سہولیات فراہم کیں،وہ نہ صرف قابل ستائش بلکہ قابل تقلید بھی رہیںکہ اولاً لاک ڈاو ¿ن میں اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ مملکت میں رہنے والے مستحقین میں،بالخصوص رمضان المبارک میں، بروقت راشن فراہم کیا جائے۔چھٹی پر گئے ہوئے تارکین وطن کے لیے مملکت نے بلا معاوضہ دخول و خروج ویزا میں وقتاً فوقتاً توسیع کی ،اقامتی ویزا کو بھی سرکاری طور پر بلامعاوضہ توسیع دی گئی تاآنکہ معمولات زندگی پہلی روش پر نہیں آ جاتے ۔اس عرصہ کے دوران پوری دنیا میں کاروباری حالات شدید زبوں حالی کا شکار ہو چکے تھے اور بہت سے افراد حالات کی گردش میں اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے کہ مالکان کے پاس ہی کاروباری حجم پہلے سا نہ رہا تھا۔تاحال بہت سے پاکستانی ہی نہیں بلکہ کئی دوسری شہریتوں کے حامل افراد بھی اپنے اپنے ممالک میں سعودی عرب داخلے کے منتظر ہیں لیکن ان کے لیے سفر کرنا قریباً ناممکن ہو چکا ہے کہ اس کی مختلف وجوہات ہیں ،جن کی بنیاد کلیتاً سعودی قوانین پر ہے۔

اس ضمن میں احباب سے احوال ملتا رہتا ہے کہ جو پاکستانی تاحال پاکستان میں ہیں اور سعودی عرب داخلے کے منتظر ہیںوہ بالعموم اس امر سے شاکی رہتے ہیں کہ مملکت کی طرف سے بلامعاوضہ اقامتی و دخول و خروج ویزا میں توسیع ہونے کے باوجود ،ان کے اقامتی و دخول و خروج ویزا میں توسیع نہیں ہو سکی ،اس لیے وہ ہنوز سفر کے اہل نہیں ۔ان کی پریشانی بجا ہے لیکن ان کی اکثریت سعودی عرب میں ہونیوالی تبدیلیوں اور طریقہ کار کے کمپیوٹرائز ہونے سے بھی بخوبی واقف ہے اور ان کی اکثریت یہاں کے نظام کو بھی اچھی طرح جانتی ہے۔ سعودی عرب آنے والا ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس کی حیثیت ایک عمال کی ہے اور غیر ملکیوں کے معاملات کا ایک کفیل ذمہ دار ہوتا ہے،جو عمال کی تمام تر قانونی امور کی دیکھ بھال کا نگران ہوتا ہے۔گو کہ سعودی حکومت نے بلاامتیاز ہر غیرملکی کارکن کے اقامتی و دخول و خروج ویزا میں بلامعاوضہ توسیع کی لیکن کفیل کے اختیارات بہرطور اتنے ضرور ہیں کہ وہ آج بھی اپنی ضرورت کے مطابق اپنے غیرملکی کارکنان میں کمی بیشی کر سکتا ہے،جس کی اسے قانونی طور پر اجازت ہے۔ وزارت داخلہ کا سارا نظام کمپیوٹرائز ہو چکا ہے اور بیشتر معاملات میں کفیل کو جوازات جانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ صرف اپنے موبائل فون پر ہی کئی امور سرانجام دے دیتا ہے،ان امور میں تجدید اقامہ،خروج و عودہ ویزا کے علاوہ وہ اپنے کسی بھی عمال کو ھروب،مطلوب یا اس کا اقامہ تک کینسل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
سعودی عرب میں رہنے والے ھروب کا مطلب بخوبی جانتے ہے کہ جوازات (وزارت داخلہ)میںمذکورہ عمال ”بھگوڑا“بن چکا ہے،جس کی قانونی حیثیت ایک مجرم کی سی ہے تاہم اگر کوئی کفیل کسی بھی وجہ یا طریقہ سے اپنے کسی بھی عمال کی حیثیت ”ھروب“کر دے تو صرف کفیل ہی اس ھروب کو ہٹانے کا مجاز ہے۔اسی طرح مطلوب کا مطلب ہے کہ عمال اپنے کفیل کے ساتھ کسی مالی لین دین پر تنازعہ کا شکار ہو کر بھگوڑا بن چکا ہے۔علاوہ ازیں!گھریلو ملازمین کی فہرست میں شامل افراد مکمل طور پر کفیل کی صوابدید پر ہوتے ہیں ۔
اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یاددہانی ہے تا کہ جو بات اب بیان کرنے والا ہوں،اس کا براہ راست تعلق اس تفصیل سے ہے ۔ گذشتہ دو دہائیوں سے سعودی عرب میں مقامی افراد کو ملازمتیں دینے کی مہم اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس کے لیے سعودی حکومت نے ایک لائحہ عمل طے کر رکھا ہے کہ کیسے مقامی آبادی کو ملازمتوں میں کھپانا ہے۔ سعودی شہریوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے سعودی حکومت نے ایک نظام وضع کررکھا ہے کہ ہرکاروباری ادارے میں کتنے فیصدی سعودی ملازمین موجود ہیں،اس کی بنیاد پر اس کاروباری ادارے کو ایک مخصوص حیثیت دی گئی ہے۔ کسی بھی کاروباری ادارے کی سعودائزیشن کے حوالے سے حیثیت کا پیمانہ ”مقیم“سے جانچاجا سکتاہے کہ اگروہاں ”سرخ“نشان ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ادارہ میں مطلوبہ مقامی افراد کو ملازمتیں فراہم نہیں کی گئیں اس لیے ادارے کی حیثیت ”سرخ“ہے۔یوں ایسے ادارے کے تمام سرکاری معاملات بندش کا شکار ہو جاتے ہیں اورجب تک مطلوبہ تعداد میں سعودی شہری بھرتی نہیں ہوتے،کاروباری ادارے کے کسی بھی ملازم کا نہ صرف اقامہ تجدید نہیں ہو سکتا بلکہ دیگر بے شمار امور بھی سرانجام نہیں دئیے جا سکتے۔ جس کا نقصان ایک طرف کاروباری ادارے کو تو ہوتا ہی ہے،اس میں کام کرنے والے ملازم کا اقامہ تجدید نہ ہونے پر اسے بھی بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتی کہ اس کا بینک اکاو ¿نٹ خود بخود منجمد ہو جاتا ہے اور وہ بینک میں موجود اپنی رقم تک استعمال نہیں کرپاتا۔سعودی شہریوں کو ملازمتیں فراہم کرنے پر سعودی حکومت نے کاروباری اداروں کو دیگر ”ہلکی سبز“،”اوسط سبز“،”اعلیٰ سبز“،”سبز“ اور پلاٹینم حیثیت دے رکھی ہے اور اس حیثیت کے تعین سے ہی کاروباری ادارہ اپنے غیر ملکی ملازمین کی تعداد کو کم یا زیادہ کر سکتا ہے۔
یہاں یہ امر خصوصی توجہ کا مرکز ہے کہ سعودی عرب میں تارکین وطن کی حیثیت ایک اجیر کی ہے ،جس کا تعلق براہ راست اس کے آجر سے ہے(مالک و ملازم کا رشتہ)لہٰذا یہ آجر کی صوابدید ہے کہ اپنی ترجیحات کے مطابق اپنے اجیروں کی تعداد کم یا زیادہ کر سکتا ہے۔بعینہ یہی صورتحال پاکستان میں منتظر پاکستانی بھائیوں کی ہے کہ جو واپس سعودی عرب تو آنا چاہتے ہیں لیکن ان کا آجرانہیں اپنی کفالت میں بلانے کا متحمل نہیں کہ یا اس کا ادارہ ”سرخ“حیثیت کا شکار ہو چکا ہے اور وہ اپنے یہاں موجود ملازمین کے اقامے تجدید کروانے سے قاصر ہے،جس کی وجہ خالصتاً اس کی ذاتی ہو سکتی ہے یا بصورت دیگر موجودہ حالات میں کرونا نے اس کے کاروبار کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ وہ ابھی تک اس کا مداوا نہیں کر پایا۔جبکہ دیگر حیثیت کے کاروباری اداروں میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے کہ وہ ان کا کاروبار ،ان کی توقع کے مطابق نہیں رہا اور وہ اپنے عمال کو بلوانے میں دلچسپی نہیں رکھتے یا جوازات میں غلطی سے اقامہ نمبر درست نہیں ہے۔
مزید برآں! پاکستانی سعودی عرب میں اپنے گھر،اپنے سفارتخانے سے بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں کہ ممکن ہے سفارتخانے کی کوششیں بارآور ہوں اور ان کی واپسی کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔سفارتخانہ پاکستان اور اس کا عملہ ان پاکستانیوں کی آواز بننے کے لیے ہمہ وقت تیار و مستعد نظر آتا ہے لیکن سفارتخانہ بہرطور اپنی حدودوقیود کا پابند ہونے کے باوجود پاکستانیوں کی آواز متعلقہ اداروں(بشمول وزارت داخلہ و خارجہ و بشریہ)تک صرف پہنچاتا نہیں بلکہ اعلیٰ سطحی حکام سے ملاقاتیں کرکے انہیں ان مسائل کے حل کے لیے قائل بھی کرتا ہے۔سعودی متعلقہ ادارے بھی مقامی قوانین کے پابند ہیںاور سفارتخانے کی درخواستوں پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں مگر اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے،جو بن پڑتا ہے،وہ کرتے ہیں۔اس صورتحال میں جوازات،جو کمپیوٹرائز ہو چکا ہے،پس پردہ جو معیار طے کئے جاتے ہیں،ان کے مطابق اپنے توسیع کر دیتا ہے،البتہ اگر کوئی بھی عمال ھروب یا مطلوب ہو تو اس کے اقامہ و دخول وخروج میں توسیع ہو ہی نہیں سکتی تاوقتیکہ اس کا کفیل اس کی حیثیت درست نہ کرے۔لہٰذا جو پاکستانی سعودی عرب واپسی کے منتظر ہیں،وہ مقیم پر ان امور کو بخوبی چیک کر سکتے ہیںاور اگروہ مذکورہ بالا حیثیت کے حامل ہیں توانہیں اپنے کفیل سے رابطہ کرنا ہو گا کہ اگر کفیل چاہے تو اس صورت میں وہ سعودی عرب واپس آسکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button