Column

پوتن تیرے جانثار بے شمار ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

ہے تو لطیفہ لیکن اِس آئینے میں مغرب کے مکروہ چہرے کے خدوخال خوب نمایاں ہوتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے گماشتوں نے یوکرین کو جنگ کی بھٹی میں دھکیلتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو روس کے مقابلے میں تنہا نہ سمجھے، آدھی سے زیادہ دنیا کے ملک اُس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ روس کی یلغار شروع ہوئی تو یوکرین بلبلا اٹھا۔ مدد کے لیے دہائی دی تو معلوم ہوا کہ سب اس کی پشت پر کھڑے تو ضرور ہیں مگر ہاتھ باندھ کر، اب فیصلہ ہوا ہے کہ پورے یورپ نے روس سے انتقام لینے کے لیے اپنے کھانوں سے ”رشین سلاد“ کو ہمیشہ کے لیے نکال دیا ہے۔

امریکہ اور یورپی ممالک اقوام متحدہ کی چھتری تلے اکٹھے ہوکر کمزور مسلمان ملکوں پر باﺅلے کتے کی طرح حملہ آور ہوجاتے تھے۔ آج روس جیسے مضبوط ملک اور پوتن جیسے مضبوط اعصاب کے مالک لیڈر سے واسطہ پڑا ہے تو سب اس کے پاﺅں چھونے کو تیار ہیں۔ استدعا صرف ایک ہے کہ وہ غیر مشروط طورپر یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کردے، وہ سب بھول رہے ہیں یا بھولے بن رہے ہیں کہ جنگ بندی فاتح کی شرائط پر ہوتی ہے مفتوح کی خواہشات کے مطابق نہیں ۔

پندرہ روزہ جنگ میں ایک نہیں کئی ملکوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ مارمارکر بھرکس نکال دینے کے بعد پوتن نے اپنی شرائط سامنے رکھ دی ہیں کہ امریکہ واضح طور پر اعلان کرے کہ یوکرین کو یو این او کو ممبر نہیں بنایاجائے گا۔ اس کے معاملات میں دخل اندازی مکمل طور پر بند کی جائے پھر اس کے بعد جنگ بندی کا سوچا جائے گا، اس وقت تک روسی فوجوں کی پیش قدمی جاری رہے گی، روسی صدر نے دوٹوک الفاظ میں بتایا ہے کہ یوکرینی فوجیں ہتھیار ڈال کر اپنی جانیں بچائیں، یوکرین روس کا حصہ ہے، اِسے روس کاصوبہ بنائیں گے، روس عائد کردہ کسی پابندی کو نہیں مانتا ، انہیں فی الفور ختم کیا جائے، روس نے برطانیہ کو خبردارکرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ملکوں کے مابین معاملے کو عالمی جنگ میں تبدیل کرنے کی کوششیں ختم نہ کی گئیں تو عین ممکن ہے پہلا ایٹم بم لندن پر داغا جائے ۔ روس کی طرف سے حملے کے دوسرے دن یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بیان جاری کیا کہ امریکہ نے اُسے اور اُس کے اہل خاندان کو جنگ زدہ علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی پیش کش کی ہے اور اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کی ہیں لیکن وہ دارالحکومت کیف میں ہی رہیں گے، لیکن اس کے برعکس مسخرہ یوکرینی صدر اُسی روز یوکرین چھوڑ کر فرار ہوگیا اور قریبی ملک میں بیٹھ کر جھوٹے بیان جاری کرتا رہا، اُس نے فوجی وردی پہن کر بندوق ہاتھ میں اٹھاکر یوکرین کی گلیوں میں مٹر گشت کرنے کی ویڈیو جاری کی لیکن یہ سب کچھ یوکرینی عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کے لیے فلٹرڈ بیک پروجیکشن تکنیک کی مدد سے دکھایا جارہا تھا۔ وہ تو اپنے عوام کو بے یارومدد گار چھوڑ کر کب کافرار ہوچکا تھا۔ چین کو صلح کرانے کے لیے بلایاگیا تھا جو اُن کی مزید منجی پیڑھی ٹھوکے گا۔ روسی فوجوں کو کہیں بھی گھمسان کے رن کا سامنا نہیںکرنا پڑا۔ یوکرینی فوج نے کہیں بھی بھرپور مزاحمت نہیں کی۔ دارالحکومت کیف کی گلیوں، بازاروں میں ہونے والی لڑائی میں یوکرینی فوج بھاگ گئی، کروز میزائلوں کی بارش میں شہر میریوپول پر روسی فوجوں نے بہ آسانی قبضہ کرلیا جس کے بعد روسی فوجیں ایک اور شہر خرسون کی طرف بڑھنے لگیں اور فقط چند گھنٹوں میں اُسے تسخیر کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ فتوحات سمیٹنے والے روسی فوجیوں کے حوصلے بلند تھے وہ برق رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے وردسنگ جیسے اہم علاقے میں جاگھسے اور اس پر اپنا قبضہ مستحکم کیا جس کے بعد اب امریکہ اور اس کے حلیف گوریلا جنگ کا منصوبہ بنارہے ہیں لیکن یوکرینی سپاہی اس کا ایندھن بننے کے لیے تیار نہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اب متعدد یورپی ملکوں سے کہاگیا ہے کہ وہ روسی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے رضا کار جمع کریں، اس کام کے لیے ابتدائی طور پر بیس ہزار رضا کاروں کو اس جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ تیار کیاگیا ہے جبکہ بتایا جارہا ہے کہ باون ملک مل کر یہ رضا کار مہیا کریں گے۔ ان ملکوں کی جیلوںمیں بند جرائم پیشہ افراد کو مختلف ترغیبات دے کر خدمات پیش کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے جن میں معقول نقد معاوضے کے علاوہ ان کے جرائم کی سزا مکمل طور پر معاف کرنے کی پیش کش بھی کی جارہی ہے۔ امریکہ اس سے قبل بھی یہ تجربہ کرچکا ہے۔ انہوں نے امریکی فوج کی افغانستان میں ناکامیوں کے بعد مختلف ملکوں کے جرائم پیشہ افراد کو لڑنے کے لیے میدان میں اتارا جو اس احمقانہ جنگ کا ایندھن بن گئے۔ ان ہزاروں افراد کی لاشیں ان کے گھروں تک نہ پہنچیں۔ انہیں کئی برس تک فریزر میں رکھنے کے بعد کرونا میں مرنے والے ظاہر کرکے دفنایا گیا۔ کرونا ڈرامہ رچانے کی ایک بڑی وجہ ہزاروں مردہ فوجیوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگانا بھی تھا۔

روس یوکرین جنگ میں اب تک دس ہزار سے زائد فوجی و شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ پانچ ہزار کے قریب زخمی ہیں جبکہ متعدد شہروں سے تعلق رکھنے والے بیس لاکھ افراد نقل مکانی کرکے دوسروں ملکوں میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ یوکرین کے پانچ بڑے شہروں میں چند سو معمر افراد کے سوا اب کوئی نہیں ہے یہ لوگ چلے پھرنے سے قاصر ہیں لہٰذا محفوظ مقام پر منتقل ہونے سے قاصر رہے۔جنگ زدہ علاقوں سے نقل مکانی کے موقعے پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ یوکرینی ریلویز اور سرکاری ٹرانسپورٹ کے ذریعے آبادی کا انخلا شروع ہوا تو سرکاری حکام نے اعلان کردیا کہ وہ صرف سفید فام افراد کو مدد دینے کے لیے بھیجے گئے ہیں کوئی ”بلیک یا براﺅن“ رنگ رکھنے والا اس قطار میں کھڑا نہ ہو۔ یہ ہے وہ یوکرین جو اپنی مدد کے لیے دنیا کے ہر ملک سے مدد چاہتا ہے لیکن اس کی پالیسی کے مطابق صرف سفید فام ہی انسان ہیں ان کے علاوہ کسی دوسرے رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے انسان نہیں ہیں۔

روسی صدر پوتن نے جاپان کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ملاقات کے لیے آنے والے جاپانی وفد کے ساتھ جوبرتاﺅ کیا وہ انہیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ جاپانی سفارتکار طے شدہ وقت کے مطابق پوتن سے ملاقات کے لیے پہنچے تو انہیں ٹی وی کیمروں کے سامنے بٹھایاگیا جو ملاقات کی براہ راست کوریج ساری دنیا کے لیے کررہے تھے۔ پوتن کمرے میں داخل ہوئے تو انکا پالتو کتا بھی ساتھ تھا جس نے مہمانوں کو دیکھ کر بھونکنا شروع کردیا، چند لمحے بعد پوتن نے کتے کو اس کاپسندیدہ بسکٹ کھلایا تو وہ چپ ہوگیا پھر پوتن کا اشارہ ملتے ہی اس نے جاپانی مہمانوں کی طرف منہ کرکے زیادہ زور و شور سے بھونکنا شروع کردیا، پوتن اس منظر سے لطف اٹھاتے رہے، انہوں نے پھر کتے کے منہ میں بسکٹ دیا، کتا خاموش ہوگیا، پوتن نے یہ عمل کئی مرتبہ دہرایا پھر کتے کو نہایت پیار سے تھپکی دیتے ہوئے دوسرے کمرے میں بھیج کر مہمانوں سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ جاپان کا رویہ روس کے ساتھ ایسا ہی ہے، جیسا اس کتے کا رویہ تھا۔ جاپان خواہ مخواہ روس کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی پر گامزن ہے، وہ روس پر غراتا ہے اور صلے میں امریکہ سے مفادات حاصل کرتا ہے، اسے اپنی پالیسی بدلنی چاہئے۔ اس گفتگو کے بعد جاپانیوں کے کلوز اپ دکھائے گئے وہ اس بے عزتی پر بے حد نادم تھے۔ عرق ندامت ان کی پیشانیوں سے ظاہر تھا ، وہ سوچ رہے تھے کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائیں مگر نہیں امریکہ اپنے حواریوں کو ابھی مزید ذلیل کرائے گا۔ پوتن کے لیے ڈھیروں دعائیں، اللہ کرے بائیڈن اور بورس کی عمر بھی اسے لگ جائے، پوتن تیرے جانثار، بے شمار بے شمار ۔

جواب دیں

Back to top button