Column

درگزر ……  امتیاز احمد شاد

   امتیاز احمد شاد

حضرت ابوالکلام کہتے ہیں کہ ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کریں گے لیکن انہوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی میرے والد نے کہا کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟ انہوں نے پیار سے مجھے جواب دیا ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہیں۔میرے بچے یہ دُنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے، میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرناہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔اللہ تعا لیٰ کی تمام مخلو ق میں انسان کو اشرف المخلو قات ہو نے کا شرف ملا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ”بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنا یا۔“ اللہ رب ا لعزت نے جہاں انسا نوں کی خوبیاں بیان فرمائیں وہیں انسانوں میں جو متقین مومنین ہیں ان کی پہچان بتائی، انکی خو بیاں بھی بیان فر مائیں اور ان پر جو انعا مات کی با رشیں فرمائے گا اس کا بھی اعلان فر مایا۔
اللہ تعالیٰ نے انسا نوں اور جنوں کو اپنی عبا دت کے لیے پیدا فر ما یا اور زندگی کے ہر قدم پر ہر حال میں خدائی قانون کی پا بندی کا حکم بھی دیا تاکہ انسان کا ہر فعل اس طریقہ کے مطا بق ہو جو اللہ تعا لیٰ نے بتا یا ہے، اس کے بتا ئے ہو ئے طریقے پر عمل کریں گے تو پوری کی پوری زند گی عبادت ہو گی۔ کھا نا،پینا، سونا، جاگنا، معا ملات میں اللہ تعا لیٰ کے حکم کی پا بندی کر نا سب کا سب عبا دت میں شما ر ہو گا۔ خاص کر معاشرتی زند گی میں جو بھی معاملہ در پیش آئے اللہ اور اسکے رسولﷺ کے بتا ئے ہو ئے طریقے پر چلنے پر اللہ تعا لیٰ کی فر ما ںبر داری کا انعام بھی ملے گا۔

کبھی کبھی ایسے نا پسندیدہ کام یابات ہو جا تی ہے جس سے انسان بہت زیادہ غصہ ہو جاتا ہے۔ ایسے حال میں اپنے غصہ کو پی جانا بے شک بڑی ہمت کا کام ہے۔ حدیث نبوی ﷺ :”جوشخص اپنا غصہ روک لے، اللہ تعالیٰ اس پر سے اپنا عذاب ہٹا لیتا ہے اور جو شخص اپنی زبان روک لے ، اللہ تعالیٰ اس کی پر دہ پوشی کرے گا اور جو شخص اللہ تعا لیٰ کی طرف معذ رت لے جائے گا اللہ تعالیٰ اس کا عذ ر قبول کر ے گا۔“
آج ہما رے معاشرے میں در گزر کر نے،معاف کر نے کی عادت قر یباًختم ہو تی جا رہی ہے۔ذراذرا سی بات پر غصہ ہو نا اور کہنا کہ ہم اسے زندگی بھر معاف نہیں کریں گے، بات نہیں کریں گے عام سی بات ہو گئی ہے۔ افسوس اور تشویش اس پر ہے کہ اس میں خواص بھی شا مل ہیں۔اعلیٰ عہدوں اور ایوانوں میں بیٹھے بظاہر بڑے قد کاٹھ کے حامل افراداتنی سطحی اور لغو گفتگوکرتے ہیں کہ عام آدمی کو بھی سن کر شرمندگی ہوتی ہے۔ان کے چہروں پر تیو ریاں چڑھی رہتی ہیں اور اپنے مخا لفین پر بر سر عام اسٹیجوں پربھی لعن طعن کر تے رہتے ہیں، عوام پر اس کا اس قدر غلط اثر پڑتاہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے کارکنان عدم بردشت کی انتہا کرتے ہوئے ان رویوں کا اظہار گلی محلوں میں کرتے نظر آتے ہیں۔ بد اخلاقی اس عروج پر آن پہنچی کہ صنف کی تمیز کیے بغیرہاتھا پائی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔خودمعا فی اور در گز سے کام نہیں لیتے جبکہ اپنے معاملے میں چا ہتے ہیں کہ اللہ اور بندے انہیں معاف کر دیں ۔جس کو دیکھو وہ کہتا ہے کہ میری بات اور رائے حرف آخر ہے، سب مجھ سے احترام سے بات کریں لیکن اپنے اندرغصہ کو پی جا نے والی خوبی پیدا کر نے کو کوئی تیا ر نہیں۔ ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر سو چیں کہ ہم کہاں ہیں؟یاد رکھیںاپنے مجرم کو معاف کر نا،ظالم کو معاف کر نا،کسی نے گالی دی اُسے معاف کر دینا،کسی نے ما را اسے بخش دینایہ بہت دل وجگر کا کام ہے۔ کسی کو مار نا ، بدلہ لینا،اپنا رعب قائم کرنابہادری ہے لیکن درگزر کرنااورمعاف کردیناسب سے بڑی بہادری ہے۔

مخالفین کو ہیچ ثابت کرنا،غرور اور تکبر میں آکرکمزور کو دبانا بڑا آسان ہے، نفسِ اما رہ کو ما رنا بہت مشکل ہے۔ نفس گنا ہوں پر آما دہ کر نے والا،بہت حکم کر نے والاہے لیکن اس کے بر عکس دشمن کے ساتھ نیکی کا عمل کرنا، اچھا سلوک کرنا، مہر بانی کا بر تاﺅ کرنا،یہ بہت ہمت کے کام ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کو اپنے اندردرگزر اور معاف کرنے کی صفت کو پیدا کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ خوبصورتی سے آگے بڑھ سکے۔ تمام سیاسی جماعتوں بشمول حکومتی جماعت کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ میڈیا ٹاک شوز میں اپنی نمائندگی کے لیے ان افراد کا انتخاب کیا کریں جن میں سماجی اور سیاسی روایات کا پاس ہو، جن کی بات میں گالی، چرب زبانی کے بجائے دلیل ہو۔موجودہ ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال نے ایک مرتبہ پھرملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن سیاسی معرکہ شروع ہو گیا ہے۔اس دفعہ اپوزیشن ان دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہے جن سے گزرنے پر کچھ رہنماءموت کو ترجیح دیتے تھے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ بہت سے مدو جزر کا مجموعہ ہے مگر پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما جو بھی چال چلتے ہیں ،عام آدمی اس کو وقت سے پہلے ہی بھانپ لیتا ہے۔اس کی وجہ یا تو شعور کی بیداری ہے یا پھر سوشل میڈیا کا کردار ہے۔بہرحال وجہ جو بھی ہے قوم پہلے کی طرح سیاسی رہنماﺅں کی ہر بات پر لبیک کہنے کو تیار نظر نہیں آتی۔ یہ کوئی پہلی دفعہ ایسا نہیں ہونے جا رہا کہ حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن سڑکوں پر ہے بلکہ ہر دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ہمارے ہاںحکومت گرانا یا اپوزیشن کو دبانا یہ سب جمہوریت کا حسن تصور کیا جاتا ہے لیکن اس عمل میں الفاظ کا چناﺅ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔بہت سی چیزوں سے در گزر کرنا ہو گا ورنہ ہماری سوسائٹی میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گاجو ہماری رہی سہی قدر کی بھی دھجیاں بکھیر دے گا۔

جواب دیں

Back to top button