Column

چھانگا مانگا کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

اپوزیشن کی طرف وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے سلسلے میں جوڑ توڑ میں تیزی آگئی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کو ایسی شکست دیں گے 2028 تک نہیں اٹھ سکیں گے۔ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ فوج چوروں کا ساتھ نہیں دے گی۔وزیراعظم کایہ بیان کہ اپوزیشن ارکان کی حمایت کے حصول کی خاطر اٹھارہ اٹھارہ کروڑ آفر کر رہی ہے جس کے بعد یہ معاملہ تحقیق طلب ہو گیا ہے تاکہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے اپوزیشن کو اتنی کثیر رقم کہاں سے فراہم کی گئی ہے؟جہاں تک آصف علی زرداری اور شریف برادران کا تعلق ہے مالی لحاظ سے اتنے مستحکم ہونے کے باوجود یہ ممکن نہیں وہ اتنی بڑی رقم اپنے پلے سے خرچ کر رہے ہوںگے۔

وزیر اعظم کے خلاف عد م اعتماد جمع کرانے کے بعد اپوزیشن کی بھر پور کوشش ہو گی کہ وہ ایوان میں اپنے نمبر پورے کرکے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔حکومت کی حلیف جماعتوں سے حمایت میں ناامید ی کے بعد اپوزیشن کی تحریک کی کامیابی کا انحصار پی ٹی آئی کے ناراض ارکان پر ہے ۔ جہانگیر ترین کو لندن کے ہسپتال میں گلدستے بھیجنے کے مقاصدبڑے واضح ہیںلیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں جہانگیر ترین اور عبدالحلیم خان، وزیراعظم عمران خان کے دو ایسے ساتھی ہیں جن کی کاوشوں سے آج عمران خان وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں۔ قارئین کرام ہمارے ہاں انتخابات انہی سیاست دانوں کے ہوتے ہیں جو مالی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں۔ اپوزیشن نے جہانگیر ترین اورعلیم خان پر اب امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت سے ان کی اپنی جماعت کے ارکان ناراض نہیں ہیں۔ہماری سیاست کا المیہ ہے جو بھی انتخابات میں کامیاب ہوتا ہے اس کی پہلی ترجیح وزارت ہوتی ہے ۔وزارت نہ ملے تو قائمہ کمیٹی کی چیئرمین شپ اور اگر وہ بھی نہ مل سکے تو پرمٹ اور فنڈز کی فراہمی کے بغیر اس رکن کا حکومت کے ساتھ چلنا دشوار ہو جاتا ہے۔جہانگیر ترین اورعلیم خان، عمران خان اور تحریک انصاف کو چھوڑ نہیں سکتے جس کی وجوہات میں بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی آبیاری میں دونوں رہنماﺅں کا اہم کردار ہے جسے عمران خان فراموش نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑیں گے۔جہانگیر ترین اور علیم خان اپنی جماعت کے حصے بخرے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے۔ شاید اسی لیے ابھی تک ان دونوں نے عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کی حامی نہیں بھری، البتہ اپوزیشن کی عدم اعتماد لانے کی تحریک کی ہلچل نے تحریک انصاف کے ناراض ارکان کو متحد ہونے کا موقع ضرور فراہم کیا ہے تاہم اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ وہ عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے بارے میں جو ان کے تحفظات ہیں اس بات کی قومی امید ہے کہ وزیراعظم یہ معاملہ بھی افہام و تفہیم سے حل کر لیں گے۔اپوزیشن سرتوڑ کوشش کے باوجود عدم اعتماد میں جماعت اسلامی کے ایک رکن کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اسے توبڑی محنت کی ضرورت ہوگی۔سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کسی جمہوری حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی ۔ہم بلاول بھٹو کی اس بات سے پوری طرح متفق ہیں کہ عدم اعتماد کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا وہ سو فیصد کامیاب ہوگی۔بعض اخبارات کی خبروں سے پتہ چلتا ہے 1989 کی طرح اس بار بھی چھانگا مانگا کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے جن ارکان پر انہیں شبہ ہے، انہیں پنجاب اور خیبر پختونخوامیں رکھنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔اپوزیشن نے اپنے مشکوک ارکان کو حفاظتی احصار فراہم کرنے کے لیے جے یو آئی کے خصوصی گارڈ انصارالسلام کو ان کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ہمیں 1989 کی چھانگا مانگا کی سیاست کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے ارکان اسمبلی کو باحفاظت رکھنے کے لیے چھانگا مانگا کے سرکاری ریسٹ ہاوس کا انتخاب کیا تھا۔ یہ بات بھی اس دور میں مشہور ہوئی تھی کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کے لیے شیخ اسامہ بن لادن نے خاصی رقم فراہم کی تھی۔اس کے ساتھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی اس تحریک کے پس پردہ محرکات سے وہ جلد قوم کو آگاہ کریں گے جس کے بعد یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کچھ تو ہے جس کی راز داری ہے۔
اپوزیشن کے رہنماﺅں کا کہناہے وزیراعظم عمران خان سے ان کی اپنی جماعت کے ارکان ناراض ہیں۔ ہمارا سوال ہے تو کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں ان کی جماعت کے تمام ارکان نواز شریف اور آصف علی زرداری سے راضی تھے؟نواز شریف تو اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اراکین اسمبلی تو دور کی بات ہے اپنے وزراءکو ملاقات کا وقت نہیں دیا کرتے تھے۔اپوزیشن کا یہ دعویٰ اسے حکومتی ارکان کی حمایت حاصل ہے ،کے برعکس حکومت کا بھی یہ دعویٰ ہے اس اپوزیشن کے آٹھ ارکان کی حمایت حاصل ہے۔بہرکیف آنے والے دن ملکی سیاست میں تبدیلی کے اہم دن ہیں۔اگر اپوزیشن کے رہنما عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے بھاگ دوڑ کررہے ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت بچانے کے لیے وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھی عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا تو قبل از وقت ہوگا البتہ اس بات کا قومی امکان ہے وزیراعظم اپنے تمام ناراض ارکان اور قریبی ساتھیوں کو بہت جلد راضی کرلیں گے جس کے بعد اپوزیشن کو نئے انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا۔افسوناک پہلو یہ ہے اپوزیشن کو موجودہ حکومت کی ناکامیوں اور عوام کی مہنگائی کا خیال بہت دیر سے آیا وگرنہ حکومت کے خلاف جلسوں اور ریلیوں کے دوران حکومت مخالف جماعتوں کو غریب عوام کی مہنگائی کا خیال نہیں آیا۔ہمیں امید ہے حکومت اپوزیشن کی طرف سے اراکین اسمبلی میں کروڑوں روپے کی بندر بانٹ کی تحقیق ضرور کرائے گی۔

جواب دیں

Back to top button