Column

نیب زدگان بمقابلہ عمران خان …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

زمانہ طالب علمی میں امیتابھ بچن کی ایک فلم دیکھی جس کانام”میں آزاد ہوں“تھا۔ بھارت میں بنی یہ اچھوتی فلم تھی جس میں ایک اخبار (کم اشاعت کے باعث بند ہوتے ہوئے)کی رپورٹر شبانہ اعظمی اخبار کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے ایک فرضی شخص کی کہانی اخبار میں چھاپتی اور لکھتی ہے کہ بھارت میں ناانصافی اور عوامی مسائل کے خلاف ایک شخص26جنوری کو ایک اونچی زیر تعمیر ہسپتال کی بلڈنگ سے بطور احتجاج چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرے گا۔ کچھ ہی دنوں میں”آزاد“ پسے ہوئے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے اور عوام اس کو دیکھے بغیر ہی اپنا مسیحا ماننا شروع کر دیتے ہیں۔ اس فلم کی خوبصورتی یہ تھی کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ سمیت تمام اہم شخصیات آزاد کو ملنے کے طلبگار ہوتے ہیں جبکہ شبانہ اعظمی (اخباری رپورٹر)کے ساتھ اپوزیشن لیڈر(اخبار کا نیا مالک گوکل داس) ملا ہوتا ہے اور وہ آزاد کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی ٹھانتے ہوئے اس کے پس پردہ مقبول ہونے میں مدد کرتا ہے۔”آزاد“صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ملنے سے انکار کرتے ہوئے کسانوں اور طالب علموں کی مدد کرتا اور ان کے مسائل حل کرواتا ہے تو عوام اس کو دیکھے بغیر اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کہانی کی خوبصورتی یہ ہے کہ”آزاد“ خود بے روزگار اور شہر میں کسی نوکری کی تلاش میں آتا ہے لیکن شبانہ اعظمی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اسے تھوڑے سے معاوضے کے لیے اپنی فرضی کہانی کا جیتا جاگتا کردار بنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔جوں جوں خودکشی کی تاریخ قریب آتی ہے عوام کا جوش و خروش آزاد کے لیے بڑھتا جاتا ہے۔ آزاد کو جب پتا چلتا ہے کہ اسے اخبار کے مالک اور رپورٹر نے اسے نہ صرف اپنی اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے بلکہ اخبار کا مالک اگلا وزیر اعلیٰ بننے کے لیے بھی اس کا استعمال کر چکا ہے، تو وہ وہاں سے واپس اپنے گاو ¿ں جانے کا سوچتا ہے غالباً اپنے گاو ¿ں کے لیے نکل بھی جاتا ہے،لیکن پھر اسے خیال آتا ہے کہ ہزاروں عوام تو اسے مسیحا بنائے بیٹھے اس کی ذات میں اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں تو وہ اس زیر تعمیر ہسپتال کی اوپری منزل پر پہنچ جاتا ہے جس کا ذکر رپورٹر شبانہ اعظمی نے اپنی فرضی کہانی میں کیا ہوتا ہے اورپھر عوام کے لیے بطور احتجاج چھلانگ لگا کر خود کشی کر لیتا ہے۔ میں جب بھی”میں آزاد ہوں“کو یاد کرتا ہوں تو جانے کیوں مجھے اس کردار میں عمران خان نظر آتے ہیں۔گو کہ یہ فلم عمران خان کے سیاست میں وارد ہونے سے سالوں پہلے بنی تھی۔لیکن 1996میں تحریک انصاف کے معرض وجود میں آنے کے بعد2011 تک کا سیاسی سفر کچھ ایسی ہی داستان پیش کرتا رہا۔ عمران خان کے اس سیاسی سفر میں ایک ایسے شخص کی بے مثال سیاسی جدوجہد دنیا نے دیکھی کہ جسے دنیا بھر میں ہیرو مانا جاتا تھا لیکن پاکستان کی بے رحم و کرپٹ سیاست میں برسوں سے برسر پیکار مافیاو رہنماو ¿ں نے اس کی چلنے نہ دی۔ دراصل یہی وہ دور تھا جس میں مجھے عمران خان اور”میں آزاد ہوں“کے کریکٹر میں کوئی بھی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ 2018 میں انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان کا وزیر اعظم پاکستان بننا ایک طویل محنت و جدوجہد کا نتیجہ تھی لیکن عمران خان”آزاد“نہیں تھا۔ چار دہائیوں سے اقتدار پر قابض مافیاز اور کرپٹ عناصر نے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر عمران خان کو روز اول سے ہی ناکام بنانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں اور عمران خان کا مقبول عام سیاسی نعرہ کہ عوام کا لوٹا ہوا پیسہ نہ صرف واپس لینا ہے بلکہ کھربوں کی کرپشن کرنے والے زرداریوں اور شریفوں کو مثالی سزائیں دینی ہیں، کو بھی بری طرح ناکام بنانے پر کام شروع کر دیا گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ 2018 میں جب تحریک انصاف نے انتخابات جیتے تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ملک غلام مصطفی کھر نے میری وساطت سے نعیم الحق تک یہ بات پہنچائی تھی کہ اگر مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا جاے تو میں شریف فیملی سمیت تمام کرپٹ عناصر کو نشان عبرت بنا ڈالوں گا۔ نعیم الحق نے مجھ سے دودن کا وقت لیا کہ وہ عمران خان سے بات کر کے بتاتے ہیں لیکن دو دن کے بعد ان کا جواب تھا کہ”خان نہیں مانتا“ آج جبکہ عمران خان کو عوام سے ملے مینڈیٹ میں 18ماہ باقی ہیں اور عالمی بدلتی صورتحال میں پاکستان کا رول کلیدی ہے تو اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی ہے۔حیران کن طور پر نیب کے کیسوں میں مطلوب خواجہ سعد رفیق، رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب اور نوید قمر وغیرہ اس تحریک عدم اعتماد کو جمع کروانے میں پیش پیش تھے۔ پچھلے قریباً تین ماہ سے میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے خلاف ٹی ٹی منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد نہ کئے جانے کی کہانی بھی اب کھلتی نظر آ رہی ہے۔16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید الزامات اور ثبوت ہونے کے باوجود میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف پر فرد جرم عائد نہ ہونا پاکستان میں احتساب کے عمل کا زنگ آلودہ اور طاقتور کے تابع ہونے کی زندہ مثال ہے۔10مارچ تک حمزہ اور شہباز شریف ضمانت پر ہیں۔ دیکھیں تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد 10 مارچ کو باپ بیٹے پر فرد جرم عائد ہوتا ہے کہ نہیں۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیر اعظم اب اسمبلی نہیں توڑ سکتے اور سپیکر قومی اسمبلی 14 دن میں اسمبلی اجلاس بنانے کے پابند ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ عمران خان کو گھر بھیجنے کے لیے اپوزیشن کو172اراکین کی ضرورت ہو گی اور اگر کوئی حکومتی ایم این اے ذاتی حیثیت میں حکومت کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو اس پر ڈیفیکشن لاز کا اطلاق ہو جائے گا جبکہ حکومت کے تمام اتحادی آج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ترین گروپ عمران خان کے علاوہ کسی اور جانب جا ہی نہیں سکتا کہ یہ ان کی سیاسی موت ہو گی جبکہ میرے اپنے ذرائع بتا رہے ہیں کہ اپوزیشن کے درجن بھر اراکین قومی اسمبلی حکومتی وزراءکو ملے ہیں اور تحریک عدم اعتماد میں حکومت کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے۔ بہر حال ایک بات غور طلب ہے کہ اپوزیشن جو”عمران نکالو“ ایجنڈے پر متحد ہے ، کہ پاس اس ملک کی بہتری کے لیے کیا ایجنڈا ہے اور کیا یہ سب ماضی میں سالہا سال حکومتوں میں رہنے کے باوجود عوام کے مسائل کو کم یا حل کر سکے؟جواب یقیناً نہیں میں ہے، اور آج بھی”بھان متی کا کنبہ“ صرف اور صرف اپنی کرپشن کا پیسہ بچانے کے لیے متحد ہے اور اگر کسی طرح تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو عوام چند دنوں کے بعد ہی جوتوں میں دال بٹتے دیکھی گی اور پھر جو پاکستان نے 74 سال کے بعد خارجہ پالیسی میں نیا موڑ نے لیا ہے وہ بھی رول بیک ہو جائے گا جس کے بعد پاکستان کی سلامتی اور ایٹمی پروگرام کا رول بیک ہونا کوئی بھی نہیں روک پاے گا۔
تشویشناک بات تو میڈیا میں گردش کرتی یہ خبر ہے کہ امریکہ کے سفارت کار شہباز شریف، مریم صفدر، بلاول زرداری وغیرہ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اورمبینہ طور پر زرداری اور شریف برادران کی جانب سے اراکین اسمبلی کو 70سے80 کروڑ تک کی سیاسی رشوتیں آفر کی جا رہی ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپنی جگہ چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے جھوٹے بیان کو منسوب کرنا شدید ترین مجرمانہ عمل ہے جسے ایک مقامی چینل نے نشر کیا۔اس جھوٹے بیان کو نشر کرنے پر پیمرا کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔اگلے 15دن سیاسی گہما گہمی کے دن ہیں اور عمران خان کے بارے میں بھی جان لینا چاہیے کہ وہ ”آزاد“ نہیں جو خود کشی کر لے۔ عمران خان لڑنا جانتا ہے اور اس تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد عمران خان جتنی بڑی کامیابی سے ہمکنار ہو گا اس کا تصور بھی اپوزیشن کو نہیں ہو گا۔عمران خان اور ان کی ٹیم کے پاس چند ہفتے ہیں اور مختلف الخیال کرپٹ اپوزیشن کو اگر اب انہوں نے شکست دے دی تو پھر اگلے کئی سالوں تک یہ بھان متی کا کنبہ اکٹھا نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

Back to top button