تحریک عدم اعتماد، نتیجہ کیا ہوگا؟ …. علی حسن

علی حسن
محفل میں ایک دوست نے دوسرے دوست سے سوال کیا کہ آپ عمران خان کے بارے میں کتنے پرُ امید ہیں؟ ان کا اشارہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے کی طرف تھا۔ جن صاحب سے سوال کیا گیا ان کا جواب تھا کہ وہ تحریک کی ناکامی کے لیے بہت پُر امید ہیں کیوں کہ ان کے پاس دوسری کوئی چوائس نہیں ہے۔ دوسری چوائس میں نواز شریف اور آصف زرداری کی پارٹیاں ہیں۔ کیا یہ دونوں رہنما جو پہلے بھی حکومت کر چکے ، دوبارہ حکومت کرنے کے اہل ہیں؟ کیا یہ بات بتا سکتے ہیں کہ نواز شریف کے پاس لندن میں جائیداد بنانے کے پیسے کہاں سے آئے۔ اِس بات پر یقین کرنے کو کوئی تیار نہیں کہ اُن کے بیٹوں نے اتنی کم عمری میں اتنی بڑی رقم بنا لی کہ یہ جائیداد خرید سکیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جج نے نواز شریف کے وکیل سے سوالات کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ رقم کہاں سے آئی۔ اگر رقم جائز ذرائع سے ہوتی تو وکیل صاحب منٹوں میں بتادیتے، اسی طرح آصف زرداری یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے پاس اندرون اور بیرون ملک جو بھی جائیدادیں ہیں وہ انہوں نے کن ذرائع سے بنائیں۔ بی بی مرحومہ کے ساتھ شادی سے قبل تو اُن کے پاس دولت کی فراوانی نہیں تھی۔ حزب اختلاف کے رہنماﺅں کو تو سمجھ اس لیے نہیں آنی کہ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا کر وہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔ ہر ایک اسی انداز میں سوچ رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو اور عمران خان رخصت ہوں۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے کس کو گاڈ فادر کہا اور کس کو سسلین مافیا قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں جو خائن رہنما ہیں، اگر انہیں ہی واپس بر سر اقتدار لانا ہے تو پھر اب تک یہ سب کچھ کیا ہو رہا تھا؟ آصف زرداری کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر ایک بار پھر زیر گردش ہے۔ وہ کہتے ہیں ” اب ہم نے میاں (نواز شریف) کو چھوڑ دیا تو شاید اللہ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا، یہ قومی چور ہے، یہ ہاریوں کا چور ہے، ہم ایسے درندے کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں“۔ اسی طرح شہباز شریف کا ایک کلپ آصف زرداری کے بارے میں زیر گردش رہا کہ سڑکوں پر گھسیٹ کر اس کے پیٹ سے پیسے نکالیں گے۔ یہ ہمارے قومی سیاسی رہنما ہیں جو اپنی کہی ہوئی باتوں پر ٹھہر ہی نہیں سکتے۔ کیا صرف عوام ہی ان کے ہاتھوں بے وقوف بننے کے لیے رہ گئے ہیں؟ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ناخواندگی نے عوام کو اس تباہی سے دوچار کیا ہے۔ یہ نام نہاد سیاسی رہنما عوام کی خواندگی پر توجہ ہی نہیں دینا چاہتے ہیں۔ اگر وہ خواندہ ہو گئے تو اپنے سیاسی رہنماﺅں اور نمائندوں سے سوال کر سکیں گے ۔
پھر وزیراعظم عمران خان کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ ” یہ چار ڈاکو ہمارے خلاف عدم اعتماد لارہے ہیں، جو بھی یہ کریں گے، اس کے لیے میں تیار ہوں، لیکن سوال پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو پھر آپ اس کے لیے تیار ہیں جو میں آپ کے ساتھ کروں گا“ ۔ چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم انہیں گھبرائے ہوئے نظر نہیں آئے۔
کیا یہ ملک اور اس کے عوام اسی لیے رہ گئے ہیں کہ جب جو چاہے انہیں بے وقوف بنا دے؟ وہ روٹی کے بغیر ہی رہیں، وہ سر چھپانے کے لیے کسی مناسب جگہ سے محروم رہیں، انہیں روزگار کی کوئی ضمانت حاصل نہ ہو۔ بچوں کی تعلیم، علاج اور تحفظ کا کوئی انتظام نہ ہو اور محروم ہی رہیں۔ اس کے برعکس سیاسی رہنماﺅں کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ سیاست نے ان کے دن پھیر دیے ہیں۔ بعض کا تو پورا خاندان ہی سیاست میں ملوث ہے۔ ان کے اپنے دن پھر چکے لیکن غریبوں کے نام پر رونا ان کے ”کاروبار“ کا حصہ بن دیا ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ وہ کیوں رو رہے ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ اپنی جائیدادوں میں سے حصہ دے دیں ۔ لیکن یہ تو اس ملک کے عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ پوچھ سکیں کہ حضور آپ کے پاس یہ دولت کی ریل پیل کیوں کر ہوئی ہے۔ بائیس دولت مند خاندانوں کے دور سے آج تک غریب غریب اور ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہی رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ارکان پُر اعتماد رہیں، سب کچھ ٹھیک ہے، تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ہمارا ہوم ورک مکمل اور نمبر گیم پورے ہیں، اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کا شوق پورا کرکے دیکھ لے، اندازہ ہوجائے گا،تمام اتحادی ہمارے ساتھ ہیں۔ مجھے اپنے ساتھیوں کی وفاداری پر یقین ہے، تحریک انصاف کے سب ارکان متحد ہیں، تمام اتحادی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ دونوں طرف کی کوشش ہے کہ چودھری برادران ان کی حمایت کر دیں۔ پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ دیگ چڑھی ہے تو کچھ نہ کچھ تو بر آمد ہوگا۔ قیاس ہے کہ وزیر اعظم پرویز الٰہی جوسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں ،پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیش کش کر سکتے ہیں۔ نتیجہ تو اسی وقت سامنے آئے گا جب تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں رہنماﺅں کے درمیان وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مشاورت اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی اور انہوں نے اپنے اراکین کو بھی ہدایت کی کہ وہ اسلام آباد پہنچیں اور ملک سے باہر نہ جائیں۔ پی پی پی کے سینئر رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے پارٹی قیادت کو نواز شریف سے احتیاط کا مشورہ دیا ہے لیکن اس موقعہ پر آصف زرداری یا بلاول ان کی بات کیوں سنیں گے۔ ان دونوں کو یقین ہے کہ عمران خان جا رہے ہیں۔ اعتزاز خود بھی کہتے ہیں کہ لوگوں کا جذبہ دیکھیں گے تو آپ (ذرائع ابلاغ کے نمائندے) کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ اگلی حکومت عوام کی ہو گی۔ اعتزاز سے یہ پو چھنا چاہئے کہ کو ن سے عوام؟ عوام تو اس وقت وزیر اعظم کے ساتھ بھی ہیں، پی پی پی کے ساتھ بھی ہیں اور (ن) لیگ کی مریم نواز کا تو دعویٰ ہے کہ پنجاب کے عوام نواز شریف کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام ہو، مقروض اور چاروں طرف سے نشانہ پر لگا ہوا ملک بہر حال ایک خلفشار سے ضرو ر دوچار ہو جائے گا جس کا فوری مداوا نہیں کیا جا سکے گا۔
ایسا نہ ہو کہ بقول شاعر
پھول پھل تو ہمیشہ ہی بکتے تھے باغ میں
اب کے برس تو باغ کے اشجار بک گئے۔







