عورت مارچ حق ہے مگر …. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
انسانی تمدن و معاشرت میں عورت اور مرد کی حکمرانی کی تاریخ قدیم تو ہے ہی مگر متغیر بھی ہے۔ کئی سو سال پہلے دنیا میں ایک دور ایسا بھی گزرا کہ جب دنیا بھر میں معاشرت اور نظام زندگی میں عورت کی حکمرانی تھی۔ گھر کی ملکیت سے لے کر گھر کی سربراہی تک عورت کی تقدیم تھی۔ کھیتوں میں بیج عورت ڈالتی تھی۔ تمام مالی اور معاشی لین دین عورت کے اختیارات اور فرائض میں شامل تھا۔ بچوں اور آل اولاد کی سرپرستی کے خانوں میں عورت کا نام درج ہوتا تھا۔ عورت کی مرضی کے بغیر گھر کے مرد کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ سارا روپیہ پیسہ اور اناج وغیرہ عورت کے قبضے میں ہوتا اور گھروں میں عورتوں کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ۔ اس مادر سری نظام کا دور دورہ کئی صدیوں تک رہا۔ پھر اس نظام میں لاتعداد خرابیاں اور حشرسامانیاں در آئیں۔ ایک ایک عورت کئی کئی مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے لگی ۔ اولاد اور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے حوالے سے ظلم وستم کرنا اس نے اپنا حق سمجھ لیا۔ مردوں کو غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا اور زنجیروں میں جکڑ کر انہیں تشدد کا نشانہ بنانا عام ہوگیا۔ اس ظلم وستم کی کہیں شنوائی نہ ہوتی کیونکہ دنیا پر مادر سری نظام کے تحت عورت کی حکمرانی تسلیم شدہ تھی طاقت اور حکومت عورت کے قبضے میں تھے۔ آج یہ سب حقائق ایک مذاق یا جھوٹ لگتے ہیں مگر تاریخ دان جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ حرف بہ حرف سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ پھر مردوں نے بھی اپنے اوپر روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا آغاز کیا اور کئی صدیوں کی سماجی اور سیاسی جد وجہد کے بعد بالآخر مرد کی حکمرانی کا دور آیا۔ تب تک انسان کی تہذیب کا سفر بھی کافی حد تک طے ہو چکا تھا عقل و خرد نے بھی تسلیم کرلیا کہ اپنی جسمانی ساخت اور جنسی نوعیت کے اعتبار سے مرد ہی تقدیم کا حق دار اور سزاوار ہے۔ بعدازاں آنے والے مذاہب حتیٰ کہ اسلام نے بھی عورت کی نزاکت (چاہے وہ صدیوں کی معاشرت اور طرز بودو باش کے بعد ہی شاید وقوع پذیر ہوئی تھی) اور مرد کی جفاکشی اور جسمانی ساخت ومضبوطی شاید یہ بھی صدیوں کی حکمرانی کا ثمر تھا کو تسلیم کرتے ہوئے مرد کو گھر کا نگہبان اور حکمران مقرر کرکے عورت کو گھر کی چار دیواری میں تقدس اور احترام کے ساتھ تمام حقوق فراہم کر دئیے۔
صدیوں پر محیط اس تمدنی سفر کے بعد کچھ ضابطے یوں وضع ہوئے کہ عورت عزت، تقدس اور دیگر خاص حقوق کی حقدار رہے گی اور مرد اپنے فرائض کی ادائیگی کے بعد اس کا نگہبان اور اس کے حقوق پورے کرنے کا پابندہوگا۔ مگر جیسا کہ صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال اپنا حق سمجھ کر اکثر ضابطے توڑ دینے کا عادی ہے۔ خود کو حاصل شدہ رعایتوں اور سہولیات کا ناجائز استعمال بھی اس کی سرشت میں شامل ہے۔ لہٰذا آج کے مرد اور عورت تاریخ کے اس موڑ پر آکر بھی ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کے حوالے سے چشم پوشی اور جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی کے مصداق شکوے، گلے، شکایتیں اور جرم، ظلم اور کوتاہیاں دونوں طرف ہی موجود ہیں۔ کچھ مرد حضرات مذاہب کے ضوابط کا بہانہ بنا کر اپنا حقِ حکمرانی جتاتے ہوئے عورت کو فقط اپنے حکم کے غلام طور پر ایک پابند انسان کی صورت میں دیکھنے پر بضد ہیں اور کچھ خواتین ایسی کسی بھی پابندی کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ تفاوت و تضاد فطری اور زندگی کا حصہ ہے۔ چاہیے تو یہ کہ دونوں اطراف سے ہی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے اور باہمی حقوق وفرائض کی مجموعی پاسداری کی جائے مگر برا ہو اس متشددانہ رویے اور ہر معاملے میں مرنے مارنے کی حد تک چلے جانے والے جذبات کا کہ ہرسال آٹھ مارچ کے قریب جبکہ عورت مارچ ہوتا ہے اور دنیا بھر کے ساتھ ساتھ ہماری پاکستانی خواتین بھی صدیوں کی غلامی اور محرومیوں کےخلاف علامتی احتجاج یا احتجاجی آواز بلند کرتی ہیں تو دونوں اطراف سے وہ وہ کلمات اور جملے ادا کر دئیے جاتے ہیں کہ اگلے سال تک ان کی نفرت انگیز اور کرایت آمیز گونج سنائی دیتی رہتی ہے۔
اسی طرح ہر سال کی طرح آج کل بھی عورت مارچ پورے ملک میں زیر بحث ہے، تنقید بھی ہو رہی ہے اور تائید کرنے والے بھی میدان میں ہیں، اس بحث میں شدت چند سال قبل اس وقت آئی تھی جب ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان اور ماروی سرمد کے درمیان اس موضوع پر تلخ اور نامناسب جملوں کا تبادلہ ہواتھا۔
عورتوں کا عالمی دن منانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ دن اس لیے بھی منانا انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض خواتین آج بھی ان حقوق سے محروم ہیں جو 14 سو سال پہلے اسلام نے انہیں عطا کیے تھے۔ خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق، ان پر ہونےوالے ظلم و ستم، وراثت میں حصہ،کم عمری میں شادیوں،ان کی مرضی کے خلاف کی شادی،ان کی دینی و دنیاوی تعلیم کو فروغ دینے پر بات ہونی چاہیے، اوربھی ایسے بے شمار بنیادی مسائل ہیں جن سے آج کل کی خواتین دوچار ہیں، اِن کو موضوع بحث بنانا چاہیے، حقائق کو معاشرے کے باشعور عوام اور حکمرانوں کے آگے رکھنا چاہیے، ان کو دلائل اور حقائق کی بنیاد پر مجبور کرنا ضروری ہے کہ وہ معاشرے میں عورت کا وہ مقام اور عظمت تسلیم کر لیں جو ان کو اسلام نے بطور تحفہ دیا ہے۔
لیکن خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے آج خواتین کے حقوق کو جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے یہ طریقہ بھی کسی حد تک مناسب نہیں۔ دوسری طرف جس انداز میں خواتین کے اس رویے کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات حدود کو یکسر فراموش کر دیا جاتاہے یہ بھی کسی طور مناسب نہیں، صنف نازک کو ہر حال میں تقدس اور احترام دیا جانا ضروری ہے اور اگر کہیں خواتین میں لغو رویہ اور حدود سے تجاوز نظر آئے تو اسے بھی ہمارے مردوں کے مجموعی رویوں کا شاخسانہ سمجھ کر احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔
خواتین مارچ میں ہر سال”میرا جسم میری مرضی“ سمیت بے شمار ایسے نعرے لگائے جا رہے ہیں جن کی نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی وہ اخلاقی طور پر ٹھیک ہیں۔ ان متنازع نعروں کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کے لیے چلنے والی تحریک کو نہ صرف نقصان پہنچایاگیا بلکہ ان خواتین کی کوششوں پر بھی پانی پھیرنے کی کوشش کی گئی جو عرصہ دراز سے تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر خواتین کے جاری استحصال کے خلاف مصروف عمل تھیں۔ متنازع بنا دئیے عورت مارچ کی منتظمین خواتین اصل مسائل اور ان کے حقوق پر بات کرنے کی بجائے غیر ضروری نعروں اور مغربی کلچر کے فروغ پر بات کرتی ہیں جس سے عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے مرد، خواتین کا عالمی دن منانے سے متنفر ہو رہے ہیں اور خواتین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا احترام کیا جاتا ہے اس کو عزت دی جاتی ہے، وہ محروم ہیں تو اپنے حقوق سے محروم ہیں، ان کے حقوق پر بات ہونی چاہیے۔ لیکن خواتین کے حقوق کے نام نہاد علم بردار جو نعرے لگا رہے ہیں وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ اس رویے سے خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی اصل آوازوں پر منفی اثر پڑے گا۔ اس سے انتشار پھیلے گا اور مستقبل قریب میں اس کے بہت خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اس سے خواتین کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ مغربی معاشروں میں بے شک عورتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں لیکن ان کو آج وہ مقام اور عزت نصیب نہیں جو ہمارے ہاں خواتین کو حاصل ہے۔
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ یہاں بھی کچھ لوگ خواتین کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جن کی اصلاح پر کام کرنا اور ان کو سمجھنا چاہیے کہ عورت صرف جنس مخالف ہی نہیں یا صرف محکوم وغلام ہی نہیں بلکہ انسان بھی ہے۔ وہ صرف ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہے۔ دوسری طرف خواتین کے عالمی دن کو نامناسب اور غیر ضروری نعروں کے ذریعے متنازع بنانے سے بہتر ہے کہ ان کے اصل مسائل کو سامنے لایا جائے، ان کے جائز حقوق پر اسلام اور قانون کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بات کی جائے۔ ان لاچار اور بے بس خواتین کے لیے بات ہونی چاہیے جو مظالم کی شکار ہیں۔ ہمیں مزید لگن، خلوص اور جذبے سے کام کرنا ہو گا اور عورت کو انسان سمجھنا ہو گا۔ ہر حال اور ہر سطح پر عورت کو وہ تقدس دینا ضروری ہے جس کا آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہے اور خواتین کو بھی اس امر پر غور کر کے انہی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی نگرانی اور مطالبہ کرنا چاہیے جو حدود وضوابط قرآن وسنت کی روشنی میں قائم کر دیئے گئے ہیں۔







