کہاں گئے وہ دعوے ؟ ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی
صوبہ پختوانخوا کے دارالحکومت پشاور کے قصہ خوانی بازار کو ایک بار پھر لہو لہو کر دیا گیا ۔ انسانی خون بکھرا تھا ، پورا شہر سہما اور لوگوں کے چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے بجھے دل اور خاموش نگاہوں سے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟کس نے کیا؟ جبکہ دوسری جانب خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر شہادت پانے والوں کے پیارے چیخ چیخ کر پوچھ رہے تھے کہ ان نمازیوں کا کیا قصور تھا جنہیں بے دردی سے بارود سے اڑا دیا گیا ؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نماز کی ادائیگی بھی جرم ہے ؟ آئین و قانون تو ہر کسی کو اپنے ایمان کے مطابق مذہبی رسومات کی اجازت دیتا ہے پھر یہ امن کے دشمن کہاں سے آئے اور جامع مسجد کوچہ رسالدار تک کیسے پہنچے ؟یہی جامع مسجد کیوں نشانہ بنی ؟یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں اس سے پہلے بھی ایسے سانحات رونما ءہو چکے ہیں ہم لاشے اٹھاتے ہیں دھرتی کے امن اور اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے ہماری جانیں حاضر ہیں مملکت کے ہر شہری نے بلا امتیاز امن اور سلامتی کی فضاءقائم کرنے کے لیے اپنی فورسز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر دہشت گری کے خلاف بھر پور کردار ادا کیا اور آئندہ بھی کریں گے مکار اور چھپا دشمن ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں کرنے کی منصوبہ بندی میں مگن ہے یہ سوچے بغیر کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے جو مر مٹنے کے جذبے سے سرشار ہے کیونکہ اس سے جذبہ شہاد ت کبھی بھی نہیں چھینا جا سکتا،پھر بھی وہ ذمہ داروں سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں تو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہم دہشت گردی اور دہشت گر دوں پر فتح حاصل کر چکے ہیں نیا کیا ہوا کہ نہ ہماری زندگیاں محفوظ ہیں اور نہ ہی عبادت گاہیں کہاں گئے و ہ دعوے ؟
دہشت گردی کی اس واردات میں ستر سے زائد قیمتی جانیں راہ خدا میں نثار ہو گئیں سو سے زائد زخمی خانہ خدا میں تڑپتے پائے گئے لیکن میڈیا کی بے حسی عروج پر رہی کنٹرولڈ میڈیا نے انجانے خوف میں اس انسانی سانحے سے زیادہ آصفہ بھٹو سے ڈرون کیمرہ ٹکرانے اور عالمی شہرت کے مالک آسٹریلوی باولر ”شین وارن “ کی خبر کو اہمیت دی البتہ ”پرنٹ میڈیا“نے اپنے روایتی انداز میں اس سانحے کو کوریج دی ، مذمتی بیان ہی نہیں ، اداریئے بھی لکھے گئے ، حالات نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ابھی بھی ہماری صفوں میں کالی بھیڑیں اور سہولت کار موجود ہیں افتنان صورت حال کے باعث شہر میں سکیورٹی الرٹ موجود ہے پھر بھی دہشت گرد تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے ٹارگٹ پر پہنچ گیا اس کا پہلا وار پویس اہلکاروں پر تھا، فائرنگ کی اور مسجد کے اندر داخل ہو کر خو د کو اڑا کر جہنم واصل ہو گیا ۔ یقینا یہ دشمن کی گھناونی سازش ہے،پر امن فضا ءکو بدامنی کی آلودگی خراب کرنے کی اس منصوبہ بندی میں پرائے اور دشمن قوتیں شامل ہیں لیکن معاملات بتا رہے ہیں کہ چند ٹکوں کی لالچ میں کچھ اپنے سہولت کار بھی دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں اور ایسے لوگ سانحے کے بعد اسے مسلک و مذہب سے جوڑنے کے لیے بھی تاویلیں پیش کرتے ہیں حالانکہ دھرتی کا ہر سپوت پہلے پاکستانی ہونے کے ناطے جانا پہچانا جاتا ہے
پشاور دھماکے کا تفصیلی جائزہ لیں تو قصہ خوانی بازار سے جامع مسجد تک سکیورٹی حصار نہیں ملے گا صرف مسجد کے مرکزی دروازے پر دو پولیس اہلکار تھے، ایک نے شہادت پائی اور دوسرازخمی ہو گیا اگر پولیس ناکہ تنگ گلی کے آغاز پر ہوتا تو کسی بھی طرح دہشت گردی کی تمنا میں خود کش بمبار اپنے ٹارگٹ تک نہ پہنچ سکتا ۔ اب سنیئے ۔ شہید پیش امام کا آخری خطبہ وہ اللہ کے گھر میں اللہ اور اسکے بندے کے رشتے کے راز و نیاز کی آگاہی دے رہے تھے انکا بیان تھا کہ انسانی جان کی حقیقی قیمت بہت زیادہ ہے اسکی جان مالک کی دی ہوئی ہے اس میں مسلم اورغیر مسلم کا تذکرہ کہیں نہیں، اس لیے دین حق اسلام میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ رنگ و نسل ، مذہب و مسلک کا کوئی تعلق نہیں، جس نے کسی ایک شخص کا قتل کیا اس نے گویا انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو محفوظ بنا دیا اب کوئی بتائے کہ شیعہ ، سنی ، وہابی ، مسلم اورغیر مسلم کی زندگی کی قیمت میں فرق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے، حضرت انسان کی قدر و منزلت ایک سی ہے مذہب و مسلک کا کوئی تعلق نہیں، کلمہ حق پڑھنے والوں میں بھی کوئی فرق نہیں، خواہ اسکا مسلک کچھ بھی ہو، روز محشر حساب کتاب اعمال صالح کا ہوگا ہر شخص کے ایمان کے ساتھ اسے پر کھا جائے گالہٰذا کسی کو مسلک و مذہب سے پرکھنا درست نہیں ، جان اسی کی دی ہوئی ہے اور دم آخر تک قبضہ قدرت میں ہی رہے گی جس نے کسی کی بھی جان چھینی اس نے قدرت سے لڑائی کی جس کی سزا بھی ضرور پائے گا لیکن معاشرتی افرا تفری پیدا کرنے والوں کی سرکوبی صرف حکومتی فرض نہیں، ہماری بھی ذمہ داری ہے ہمیں حوصلے سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے اور ایسے میں ملک دشمن اور انسان دشمن شیطانی فطرت لوگوں کو سز ا بھی دلوانی ہے تاکہ پاک وطن ہر صورت میں امن کا گہوارہ بنے ۔
میں ایسی بات کر رہاہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں سال گذشتہ میں پکڑے جانے والے 228مقدمات میں صرف 44ملزمان کو سزا دی جا سکی باقی سب شواہد نہ ہونے پر بری ہو گئے جبکہ سیشن کورٹس میں سزا کی شرح 34فیصد رہی جہاں 16ہزار 189کیسز نمٹائے گئے حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ملزم عدالت میں کیس پیش ہونے سے پہلے ہی عدالتی نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ”مک مکا“ کر لیتے ہیں بعد ازاں کیس کی کمزوری اور عدم شواہد کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی ملتا ہے یوں قرار واقعی سزا سے بچ نکلتے ہیں اس واردات میں تفتیش کے روایتی انداز میں موجودہ تقاضوں کے تحت کمزوریاں دور کیں جائیں ورنہ معاملات بگڑ تو جائیں گے سلجھائے نہیں جا سکیں گے کیوں کہ پاکستان اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے ازلی دشمنوں کے لیے بڑا امتحان ہے کہ ترقی اور خوشحالی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے اس لیے سب کی مشترکہ کوشش پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے ہمیں جہاں حکومتی اور قومی اداروں کی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مرتبہ نئے عزم و جذبہ سے حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی وہاں عوامی سطح پر بھی ان خطرات سے آگاہی دینا ہوگی تاکہ دنیا دیکھے کہ پاکستانی قوم سرحدی محاذ کے علاوہ اندرونی عوامی محاذ پر بھی غافل نہیں ۔







