اقتدار کی کشش اور عوام کی کسک ۔۔۔۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
پچھلے کئی ہفتوں سے اقتدار کی راہداریوں میں ایک ہلچل سی برپا ہے۔ اہل اقتدار کرسی بچانے میں مصروف ہیں اور حزب اختلاف انہیں ہٹانے کے حیلے کررہے ہیں۔ ایک طرف سندھی سرکار وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ لے کر سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے تو دوسری طرف پنجابی اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے ہراول دستے کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ حکومتی اتحادی بھی اپنی قدرومنزلت پر ناز کررہے ہیں اور گہرے روابط والے بھی گیم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عوام بھی مختلف الخیال سیاسی قیادتوں کے افکار ہائے سیاست کے مطابق علیحدہ علیحدہ خانوں میں منقسم ہیں۔ عوام کی غریب اور اپنے کام سے کام رکھنے والی حقیقی اکثریت اپنے معاشرتی، معاشی اور سماجی مسائل میں بری طرح الجھی ہوئی ہے۔ یہی وہ اکثریت ہے جس کی طاقت سے کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آتی ہے اور ادارے انہی کے ٹیکسوں سے حاصل کی گئی رقوم سے چلتے اور پلتے ہیں۔ ہمارے اصل اور بنیادی تماشا ہی یہ ہے کہ جن لوگوں کے ووٹوں اور دی ہوئی طاقت سے سیاستدان اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں بعدازاں انہیں نہ صرف یکسر فراموش بلکہ محروم کر دیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق سے چشم پوشی اختیار کر لی جاتی ہے اور محض محلاتی جوڑ توڑ کو ہی ذریعہ اقتدار بنا لیا جاتا ہے حالانکہ سیاست کا مقصد ایک ایسا آفاقی نظام اختیار اور وضع کرنا ہوتاہے جس سے معاشرے میں رائج غربت، جہالت اور غیر انسانی رواجوں کا خاتمہ ہو سکے اور انسانی معاشرہ تمدن کی معراج تک رسائی حاصل کرسکے۔ ہمارے یہاں سیاست صرف اور صرف اقتدار کے حصول اور اس کی بقا کے لیے حربے اور حیلے اختیار کرنے کا نام بن کے رہ گیا ہے۔ اہل سیاست گلی گلی خلق خدا کے آگے اپنی ایمانداری، غیر معمولی اہلیت اور بے گناہی کا ڈھول پیٹتے پھر رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ خلق خدا کے مسائل حل کرنے کی جانب بھی کبھی ان کے قدم اٹھے ہوں۔ یہ بظاہر عوام کے ہمدرد اور ترجمان ہوتے ہیں لیکن عملاً عوام کے دشمن اور ان کے حقوق کے غاصب ہوتے ہیں۔
حقائق بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہمارے یہاں سیاسی غلامی کی ابتدا ہوئی اور آج کے اہل ِسیاست کے طفیل ہمیں مختلف اقتصادی معاہدوں کے نام پر معاشی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست آج جس نہج پر ہے اس میں خارجی، جغرافیائی اور داخلی حالات کے حقیقی ادراک، عوامی مسائل کے صحیح حل، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اصولوں کی صحیح معنوں میں پاسداری اور نفاذ جیسے اقدامات ایسے غائب ہو گئے ہیں جیسے یہ ہوتے ہی نہیں ہیں۔ وقتی اور دھوکہ دہی پر مبنی سرکاری کارروائیوں سے ڈنگ ٹپایا جاتاہے اور اندرون خانہ اپنے گروہوں اور طبقوں کو نوازا جاتا ہے تاکہ اگلے انتخابات میں ایک نئے نعرے اور نئے بیانیے کے ساتھ پھر اپنے ہی آجائیں ایسے حربوں اور ہتھکنڈوں کا کامیاب اور منافع بخش اظہار اور نفاذ سابقہ ادوار میں اتنی بار ہوچکاہے کہ اب کوئی بھی اقتدار اور اختیار حاصل کرلے ان کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ عملاً عام پاکستانی اس سارے کھیل سے آ ¶ٹ ہو چکا ہے وہ ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کا امیدوار بننا تو کجا کسی بنے بنائے امیدوار کا واضح اور قابل ذکر سپورٹر بھی نہیں بن سکتا۔ عام پاکستانی کا حلقہ احباب اہل اقتدار کے حلقہ یاراں سے کوسوں دور اور میلوں نیچے کہیں پاتال میں زندگی کے دن رودھو کر پورے کررہا ہوتا ہے اور حاکم طبقے زندگی کی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں سے دل بہلا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے رابطے واسطے ہی ان کو وزیر مشیر اور ترجمان بنادیتے ہیں اور عام پاکستانی کے کچن اور گھر سے جڑے مسائل ہی انہیں حکومتی جھمیلوں میں پڑنا تو کجا سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے سے بھی اس طرح روکتے رہتے ہیں جس طرح کسی قیدی کے پا ¶ں میں پڑی زنجیریں اسے آزاد فضا ¶ں میں جانے سے روک رہی ہوتی ہیں۔
ہمارے یہاں سرکاری ملازمتیں بھی اب مدتی معاہدوں (Contracts) پر ہو رہی ہیں۔ نجی اداروں میں تو حال یہ ہے کہ نچلے مزدور طبقے کو کمپنیوں نے ٹھیکیداری نظام کے تحت کام پر رکھا ہوا ہے۔ ملک میں بے روزگاری دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک نوکری کے لیے ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ بیشتر سرکاری اداروں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ نوکری کی درخواست کے ساتھ ان کے بنک اکاﺅنٹ میں ناقابل واپسی رقم بھی درخواست فیس کے نام پر جمع کرانی پڑتی ہے جو سینکڑوں میں ہوتی ہے، جسے ہزاروں امیدوار جمع کراتے ہیں اور متعلقہ ادارے نہ جانے کس مد میں اسے شامل کرلیتے ہیں۔ بے روزگار افراد کس طرح یہ رقم اپنے خوابوں کے حصول کے لیے ادا کرتے ہیں، اسے محسوس کرنے والا دل اہل سیاست کے پاس نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ متعلقہ نوکری کی سال بھر کی تنخواہ اسی فیس سے ہی پوری کر لی جاتی ہو۔ اس حوالے سے یہ خبر بھی گرم ہے کہ درخواست فیس کے نام پر لاکھوں روپیہ لوٹنے کے لیے ان میں سے کچھ نوکریاں این ٹی ایس اور مختلف اداروں کی ملی بھگت سے جعلی طور پر شائع کی جاتی ہیں جب کہ حقیقت میں ان ملازمتوں کا وجود ہی نہیں ہوتا ہے۔ ہماری کسی سیاسی جماعت کی جانب سے اس مسئلے پر کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی گئی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کی بجائے مفاداتی گروہوں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ اپوزیشن میں ہوں تو بھی عوام کی غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے نام پر سیاست کرتی ہیں اور اگر اقتدار میں ہوں تو بھی عام پاکستانی کے انہی مسائل کے حل کے لیے مختلف شعبوں اور منصوبوں پر اخراجات مختص کر کے اپنوں کی جیبیں بھرنے کا کام کرتی ہیں۔ اصول و ضوابط اور اخلاق و کردار ان کا نصب العین سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا۔ یہ ٹی وی پروگراموں اور عوامی جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف بڑے بڑے دعوے اور انکشافات کررہے ہوتے ہیں جبکہ اپنوں کی شادی بیاہوں پر سب اکٹھے اور شیروشکر ہوتے ہیں۔ ان کی تقاریر اور تصاویر محض ان کا دکھاوا ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ سب کام پر نکلے ہوئے ہوتے ہیں اور شام کو یہ اتنا کما کر جاتے ہیں کہ عام آدمی اتنی کمائی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا مٹی کی محبت کا قرض آشفتہ سر مظلوم عوام پر ہی ہے یا ملک پر مسلط سیاسی گروہوں پر بھی اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو اپنی تقریروں میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور ایسے ایسے تاثرات اور دلائل دیتے ہیں کہ اگر یہ منظر سے ہٹ گئے تو ملک کا بڑا نقصان ہو جائے گا اور اگر ان کو کسی نے ان کے پروگرام سے ہٹا دیا تو وہ راندہ درگاہ ہو جائے گا۔ یہ آتے سٹیٹس کو کے خاتمے کے لیے ہیں اور کام سارا عرصہ سٹیٹس کو کے فروغ اور استحکام کے لیے کرتے ہیں۔ یہ آتے عوام کے لیے ہیں اور کام اپنے لیے کرتے ہیں اسمبلیوں اور پارلیمان میں بیٹھ کر یہ عوام کا اربوں روپیہ کھا جاتے ہیں اور عوام کے حصے میں صرف ان کا دھوکہ اور چرب زبانی آتی ہے۔
آج کل پھر ایک نئے بندوبست کے آغاز کا بغل بج گیا ہے۔ عہدوں پر اس طرح سے لڑائی ہورہی ہے جیسے یہ عہدے ان کی ملکیت ہوں ایک دوسرے کو نوازنے اور محروم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ گویا یہ انتظام کیا جارہا ہے کہ جس طرح پچھلے ادوار میں آپس میں ہی مل ملا کر عوام کا بیڑہ غرق کیا تھا ایسے ہی آئندہ کرنے کا نیا اور اچھوتا طریقہ کار وضع کر لیا جائے اور عوام کو ایک نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اگلا عرصہ اقتدار بھی چند طاقتوروں کے درمیان تقسیم کر لیا جائے اور وہ بھی اس طرح کہ کم از کم عوام کے پلے کچھ نہ پڑے نہ وسائل کے حوالے سے اور نہ ہی ان کے ظاہری سیاسی وجمہوری دلائل کے حوالے سے۔ کیونکہ اگر عوام ان کے اصل چہرے پہچان گئے تو جمہوریت کا چورن مزید نہیں بک سکے گا۔







