
جنوبی افریقہ میں رواں سال نومبر اور دسمبر کے دوران ختنہ کے عمل کے دوران کم از کم 41 نوجوان جاں بحق ہو گئے۔
یہ ختنہ روایتی تقریب کا حصہ ہے جو مختلف افریقی کمیونٹیز، جیسے کہ کھوسا، ندیبیلے، سوٹھو اور وینڑا میں نوجوانوں کی بلوغت کی رسومات کے طور پر ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ تاہم، اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان قبائل میں روایتی طور پر نوجوانوں کو مخصوص ثقافتی تعلیم گاہوں (انیشیئشن اسکولز) میں الگ رکھا جاتا ہے جہاں انہیں ثقافتی اقدار اور بالغ ہونے کی ذمہ داریوں کے بارے میں تربیت دی جاتی ہے۔ جس کے بعد انہیں ختنہ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
ختنہ کے عمل کے دوران ان قبائل کے ہر سال کچھ نوجوان ہلاک ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت نے رجسٹریشن کے قوانین نافذ کیے ہیں تاکہ غیر قانونی تعلیمی اداروں کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے، لیکن غیر رجسٹرڈ اسکولز میں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومت والدین پر زور دے رہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو رجسٹرڈ اسکولوں میں داخل کرائیں، جس کے لیے مقررہ مدت کے دوران فیس ادا کرنا ضروری ہوتی ہے۔ تاہم، بعض والدین مالی وجوہات کی بنا پر غیر رجسٹرڈ اسکول کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے نوجوانوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
یہ روایتی رسومات عموماً گرمیوں (جون تا جولائی) اور سردیوں (نومبر تا دسمبر) کی اسکول تعطیلات میں منعقد کی جاتی ہیں ۔
جنوبی افریقہ کے وزیر برائے روایتی امور ویلنکوسینی ہلابیسہ نے بتایا کہ اس سال گرمیوں کی رسومات کے دوران 41 نوجوان ہلاک ہوئے۔
انہوں نے اس کا ذمہ دار نہ صرف اسکولز کی غفلت قرار دیا بلکہ والدین کو بھی اس میں قصوروار ٹھہرایا کہ وہ حفاظتی اصولوں اور طبی مشورے پر عمل نہیں کرتے۔
ہلابیسہ کے مطابق نوجوانوں کو اکثر ایسے مشورے دیے جاتے ہیں جن کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں، جیسے کہ تیزی سے صحتیاب ہونے کے لیے پانی نہ پینا۔
انہوں نے کہا کہ بعض اسکولوں میں صحت کے معیارات پر عمل نہیں کیا جاتا اور والدین اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ اگر والدین بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں اور وہاں کسی قسم کی نگرانی یا فالو اپ نہیں کرتے تو وہ اپنے بچوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ کا ایسٹرن کیپ صوبہ اب تک سب سے زیادہ خطرناک قرار پایا ہے جہاں 21 نوجوان ہلاک ہوئے ہیں۔ غیر قانونی اسکولوں سے متعلق 41 گرفتاریاں کی گئی ہیں، جن میں وہ والدین بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی عمر غلط بتائی تاکہ وہ داخلہ لے سکیں۔







