وہ گائوں چلا گیا

وہ گائوں چلا گیا
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
وہ گائوں چلا گیا۔ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ وہ کسی گاڑی میں اپنے گائوں چلا گیا۔ یا وہ پڑھنے شہر گیا۔ پھر نوکری کے سلسلہ شہر کا ہی ہو کر رہ گیا۔ اور اس سے گائوں چلا گیا۔ یا گائوں بدل گیا۔ اور اب وہ پرانا گائوں چلا گیا۔ گائوں جسے دیہات بھی بولتے ہیں۔ اور دیہات کے بڑے بوڑھے جب ماضی کی بات بولتے ہیں۔ تو لفظوں سے پہلے خوشبو بولتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں۔ کہ ان کے گھر کچے تھے، گارے کی دیواروں سے بنے ہوئے، مگر ان دیواروں میں زندگی سانس لیتی تھی۔ بارش ہوتی تو چھتوں سے پانی ٹپکتا، مٹی بھیگتی تو بارش کے بعد مٹی سے بھینی بھینی خوشبو آتی۔ جو پھر پورے فضا میں پھیل جاتی جو آج ماربل کے فرش اور شیشے کے دروازوں والے بنگلوں میں پیدا نہیں ہوتی۔ اس خوشبو بارے سائنس بتاتی ہے کہ بارش کے بعد مٹی سے آنے والی یہ خوشبو کو پیٹریکور (Petrichor)کہتے ہیں، اور یہ خوشبو دراصل خشک زمین میں موجود ایک بیکٹیریا (Actinomycetes)سے پیدا ہونے والے کیمیائی مادے جیوسمین (Geosmin) کی وجہ سے ہوتی ہے، جب بارش کے قطرے زمین پر گرتے ہیں تو یہ کیمیکل ہوا میں پھیل کر ہمیں وہ بھینی خوشبو محسوس کراتا ہے جو انسانی موڈ کو خوشگوار بناتی ہے۔
ان گھروں کی چھتیں لکڑی کی ہوتی تھیں، کمرے چھوٹے تھے مگر دل کشادہ ہوتے تھے۔ سردیوں کی شام سے رات دیر تک لکڑی کی آگ جلتی، اس کے گرد سب اکٹھے بیٹھتے، باتیں ہوتیں، ریڈیو ہوتا اور بی بی سی کی خبریں سنی جاتیں۔ پھر وقت بدلا، بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی آیا، اور اس زمانے میں لوگ خوش کیوں رہتے تھے ؟ کیونکہ اُس وقت رنگ نہیں ہوتے تھے۔ نہ تصویروں میں ، چیزوں میں ، نہ لوگوں میں ، نہ چاہت میں ، نہ مسکراہٹ میں ، نہ الفاظوں میں ، نہ محبت میں ، نہ خوشی میں۔ سب آسان ، سادہ اور سیدھے تھے۔
البتہ اس ٹی وی کے لیے چھت پر چڑھ کر اینٹینا سیدھا کرنا بھی ایک مستقل مشقت بن گیا تھا، مگر اس مشقت میں بھی ایک خوشی چھپی ہوتی تھی۔ گرمیوں میں مٹی کے مٹکوں اور بکری کے کھال سے بنے مشکیزے کا ٹھنڈا پانی پیتے تھے۔ صحن میں چارپائیوں پر سو جاتے تھے۔
گھروں کے آنگن زندہ ہوتے تھے۔ بکریاں بندھی ہوتیں، مرغیاں فخر سی چلتی پھرتی دکھائی دیتیں تھی۔ دودھ خالص تھا، لسی گھر میں بنتی تھی، مکھن خود گوندھا جاتا تھا اور پیڑے گُڑ کی مٹھاس میں ڈوبے ہوتے تھے۔ آٹا، گھی، سب ایسے خالص تھے۔ جیسے خود قدرت باورچی خانے میں کھڑی ہو۔ اور ملاوٹ منع ہو۔
کھیتوں میں بیلوں کی جوڑی جب ہل چلاتی تو زمین شق ہوتی، اور کسان کے چہرے پر پسینے کے قطرے مستقبل کی امید بن کر چمکتے۔ پھر اپنی زمینوں کے گندم کے مزے دار آٹے کی روٹیاں بنتی۔ جو گھر میں ماں کے ہاتھوں لکڑی کی آگ پر توے پر چپاتیاں سینکی جاتیں، چولہے پر دھیمی آنچ میں چائے ابلتی۔ پھر کوئلے کی راکھ میں آلو پکا کر کھاتے تھے۔ وہ خوشبو، وہ سب ذائقہ یاد آتا ہے تو دل آج بھی ٹھہر سا جاتا ہے۔
بچوں کی دنیا بالکل الگ تھی۔ بھائی بہنوں کا پیار ، پھر کانچ کی گولیاں دھوپ میں چمکتیں، گلی ڈنڈا، مارکٹائی اور بھاگم دوڑ میں شام ڈھل جاتی۔ گلیوں میں شور ہوتا، مگر وہ شور سکون دیتا تھا۔ وہ شور زندگی کی علامت تھی۔
لوگ سادہ تھے، دل کے صاف۔ ایک دوسرے کا احترام تھا، حرص اور لالچ کم تھا۔ بزرگوں کی محفلیں علم اور تجربے کی درس گاہیں ہوتی تھیں، جہاں بیٹھنا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ ان کے محفل اور باتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
آج وہ دنیا کہاں چلی گئی؟ سب ختم ہوگیا۔ سب بدل گیا۔ لوگ بھی بدل گئے۔ سادہ کم ، چالاک ، مفاد پرست ، کرسی پرست زیادہ ہوگئے۔ اسی وجہ سے گائوں میں بھی اب زندگی کا انداز بھی بدل گیا۔ سب کچھ بدل گیا۔ جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو۔ درخت کٹ گئے اور کنکریٹ کے جنگل اُگ آئے۔ مرغیاں اور بکریاں گھروں سے نکل گئیں۔ لکڑی کی آگ کی جگہ گیس کے چولہوں نے لے لی۔ بیلوں اور اونٹوں کی جگہ ٹریکٹر آگئے۔ بچوں کے کھیل موبائل سکرینز میں قید ہو گئے، بلکہ اب تو سب کے سب موبائل سکرینز میں قید ہیں۔ اور بزرگوں کی محفلوں کی جگہ بھی موبائل نے لے لی۔
دیہات میں بھی پہلے والی بال، کرکٹ آیا۔ پھر ڈائجسٹوں اور اخبارات کی باری آئی۔ اس کے بعد ٹیلی فون ، وی سی آر ، ڈش ، کلر ٹی وی آیا۔ اب تو ٹچ سکرین موبائل بھی فور جی کے ساتھ آگیا۔
آج وہ خالص دودھ، وہ مٹی کی مہک، وہ گرم روٹیاں، وہ بے فکری کے کھیل ، سب یادوں کے صندوق میں بند ہیں۔ بچپن اب ایک خواب ہے، مگر کیا خوبصورت خواب تھا۔ زندگی کی دوڑ میں جب کبھی وہ دن یاد آتے ہیں تو دل بس یہی کہتا ہے۔ کہ وہ دن کتنے سادہ، کتنے پُرسکون اور کتنے پیارے تھے۔ کاش وقت پلٹ آئے، مگر گزرا ہوا زمانہ دوبارہ نہیں آتا۔ ماضی صرف یادیں دے جاتا ہے۔
ابو بتاتے ہیں جب میں گائوں گیا۔ تو گائوں کی گلیوں میں افسردگی کے عالم میں چلتا رہا۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ یہ وہ گائوں نہیں رہا تھا۔ جہاں میں کبھی پلا بڑھا، کھیلا کودا اور بڑا ہوا تھا۔ مجھے لگا میں بوڑھا ہو رہا ہوں۔ پہلی دفعہ سب کچھ اجنبی اجنبی سا لگا۔ بڑھتی ہوئی آبادی نے گائوں کو برباد کر دیا تھا۔ گائوں میں بھی لوگ شاید بڑھتی ہوئی گندگی اور بے ہنگم زندگی میں خوش ہیں۔ تو ان کی خوشی کیوں چھینی جائے؟ اب یہ حالت ہے، لگتا ہے نہ آپ اس گائوں میں پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی آپ کا اس سے تعلق ہے۔ میں اسی افسردگی کے عالم میں اپنے ٹوٹے پھوٹے پرانے کچے مکان کو دیکھ کر افسردہ ہوگیا۔ جیسے اندر سے کچھ ٹوٹ رہا ہو۔ ایک عجیب سی اداسی تھی۔





