Column

عام آدمی کا سال 2025: صبر کی آخری حد

عام آدمی کا سال 2025: صبر کی آخری حد
کالم نگار:امجد آفتاب
مستقل عنوان:عام آدمی
سال 2025عام آدمی کے لیے محض ایک عدد نہیں بلکہ ایک طویل آزمائش کا نام تھا۔ یہ سال ترقی کے دعوں، معاشی بہتری کے بیانات اور پالیسیوں کی فائلوں میں تو خاصا متحرک دکھائی دیا، مگر زمینی حقیقت اس سے کہیں مختلف رہی۔ گلی کوچوں، دیہات، شہروں اور کچی آبادیوں میں رہنے والا عام آدمی اس سال بھی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبا رہا۔
مہنگائی 2025ء کی سب سے بڑی اور سب سے تلخ حقیقت بن کر سامنے آئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال کے مختلف حصوں میں مہنگائی کی شرح میں کمی بیشی ضرور ہوئی، مگر عام آدمی کے لیے یہ کمی محض کاغذوں تک محدود رہی۔ آٹا، چینی، گھی، دالیں اور سبزیاں ایسی بنیادی ضرورتیں بن گئیں جن کی قیمتیں ہر مہینے نیا جھٹکا دیتی رہیں۔ ایک عام گھرانے کا باورچی خانہ اس مہنگائی کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی جنگ گاہ بنا۔
شہروں میں رہنے والا تنخواہ دار طبقہ اس مہنگائی سے خاص طور پر متاثر ہوا۔ تنخواہیں سالوں تک جمود کا شکار رہیں، جبکہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بار بار اضافہ ہوتا رہا۔ بجلی کا بل اب صرف استعمال کا حساب نہیں رہا بلکہ ایک خوف بن چکا تھا، جو ہر مہینے گھر کے بجٹ کو تہس نہس کر دیتا تھا۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے کا مطلب صرف گاڑی مہنگی چلانا نہیں تھا بلکہ ہر شے کی قیمت میں اضافہ تھا کیونکہ نقل و حمل مہنگی ہوئی تو سب کچھ مہنگا ہو گیا۔
دیہی علاقوں میں صورتحال اس سے بھی زیادہ سنگین رہی۔ کسان کو فصل کا مناسب دام نہ مل سکا، جبکہ کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں۔ ایک طرف پانی اور موسم کے مسائل، دوسری طرف منڈی میں استحصال یوں دیہی عام آدمی بھی 2025ء میں دوہرے دبائو کا شکار رہا۔ دیہات میں غربت زیادہ نمایاں، مگر آواز کم سنائی دی۔
بے روزگاری 2025ء کا دوسرا بڑا المیہ رہی، خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے۔ ایک نوجوان گریجویٹ علی کی مثال لیں، جو اعلیٰ تعلیم کے بعد دو سال سے نوکری کی تلاش میں ہے۔ ہر اشتہار میں یا تو تجربہ مانگا جاتا ہے یا کم تنخواہ پر طویل اوقاتِ کار کی پیشکش کی جاتی ہے۔ علی جیسے ہزاروں نوجوان یا تو مایوسی کا شکار ہوئے یا اپنے شعبے سے ہٹ کر کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ کئی نوجوانوں نے ملک چھوڑنے کو واحد حل سمجھا، مگر ہر کسی کے لیے بیرونِ ملک جانا ممکن نہ ہو سکا۔
دیہاڑی دار مزدور، رکشہ ڈرائیور، ریڑھی بان اور گھریلو ملازمین 2025ء کے سب سے خاموش مگر سب سے زیادہ متاثر طبقے ثابت ہوئے۔ ان کے لیے ہر دن ایک نیا سوال لے کر آتا تھا: آج کام ملے گا یا نہیں؟ جس دن کام ملا، اس دن گھر میں چولہا جلا، جس دن کام نہ ملا، اس دن بچوں کی آنکھوں میں سوال اور والدین کی پیشانی پر فکر کے آثار نمایاں رہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ محنت کرتا ہے، مگر سب سے کم پالیسیوں کا حصہ بنتا ہے۔
خواتین اور گھریلو معیشت کا پہلو بھی 2025ء میں شدید دبائو کا شکار رہا۔ گھروں کی خواتین نے محدود آمدن میں بجٹ کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سبزی آدھی، گوشت کم، دودھ ناپ تول کر یہ سب فیصلے صرف معاشی نہیں بلکہ جذباتی بھی تھے۔ بچوں کی غذائی ضروریات اور تعلیم کے اخراجات نے مائوں کو خاموش قربانیوں پر مجبور کیے ۔ یہ وہ جدوجہد ہے جو اعداد و شمار میں نظر نہیں آتی، مگر ہر گھر میں محسوس کی جاتی ہے۔
صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبے بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے گئے۔ سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی کمی اور نجی اسپتالوں کے بھاری اخراجات نے بیماری کو خوف بنا دیا۔ کئی گھرانوں میں علاج موخر ہوا، کیونکہ جیب اجازت نہیں دیتی تھی۔ تعلیم کے شعبے میں بھی فیسوں، کتابوں اور یونیفارم کے اخراجات نے والدین کو پریشان رکھا، اور کئی بچے بہتر تعلیم کے خواب ادھورے چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود عام آدمی مکمل طور پر ٹوٹا نہیں۔ اس نے صبر کیا، برداشت کی اور کم میں گزارا۔ یہی 2025 ء کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کب تک؟ ایک معاشرہ زیادہ دیر تک صرف صبر کے سہارے نہیں چل سکتا۔
سال 2025ہمیں یہ واضح پیغام دے کر جا رہا ہے کہ اگر پالیسیوں کا مرکز واقعی عام آدمی نہ بنایا گیا، اگر روزگار کے مواقع، مہنگائی پر قابو اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ترجیح نہ دی گئی، تو یہ خاموش برداشت کسی دن بلند آواز میں سوال بن سکتی ہے۔
میرا یہ کالم کسی فرد یا حکومت پر الزام نہیں، بلکہ ایک اجتماعی حقیقت کی نشاندہی ہے۔ کیونکہ 2025ء عام آدمی کے لیے ترقی کا نہیں، بقا، صبر اور مسلسل جدوجہد کا سال تھا اور اب وقت آ گیا ہے کہ عام آدمی کو صرف وعدوں نہیں، عملی ریلیف دیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button