Column

اداریہ۔۔ باجوڑ اور کراچی میں کامیاب آپریشنز

اداریہ۔۔
باجوڑ اور کراچی میں کامیاب آپریشنز
پاکستان ایسا ملک ہے جو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور اندرونی خلفشار کا سامنا کرتا رہا ہے۔ گزشتہ روز باجوڑ اور کراچی میں ہونے والے سکیورٹی آپریشنز اس بات کے مظہر ہیں کہ ہمارے سکیورٹی ادارے نہ صرف انتہا پسندی کے خلاف فعال ہیں بلکہ عوامی تحفظ کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ ان آپریشنز نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داریوں سے پیچھے نہیں ہٹتے، اور عام شہریوں کی حفاظت ان کا اولین فریضہ ہے۔ 29دسمبر 2025ئ کو ضلع باجوڑ کے علاقے خار میں سکیورٹی فورسز نے بھارتی پراکسی تنظیم فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا۔ اس آپریشن کے دوران فورسز نے نہ صرف موثر کارروائی کی بلکہ پانچ بھارتی سپانسرڈ دہشت گرد ہلاک کر دئیے گئے۔ یہ دہشت گرد مختلف حملوں میں ملوث تھے، جن میں سکیورٹی اہلکاروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام شہریوں کے قتل کی متعدد وارداتیں شامل تھیں۔ اس آپریشن میں میجر عدیل زمان، جو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی تھے، بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ ان کی قربانی ایک ایسا جذبہ ہے جو نہ صرف سکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ایک قوم کے دفاع کے جذبے کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ میجر عدیل زمان کی قربانی یہ بتاتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں جان کا نذرانہ پیش کرنا ناقابل فراموش اور قابل تحسین عمل ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ اور گولا بارود بھی برآمد ہوا، جو واضح کرتا ہے کہ یہ عناصر صرف معاشرتی انتشار پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ حقیقی طور پر ریاست اور عوام کے خلاف ہتھیار اٹھاکر سرگرم تھے۔ علاقے میں کسی بھی ممکنہ خطرے کو ختم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی طرف سے جاری سینیٹائزیشن آپریشن اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو دوبارہ فعالیت کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ نے اس کامیاب آپریشن پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا اور جام شہادت نوش کرنے والے میجر عدیل زمان کو یاد کیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاست دہشت گردی کے خلاف اپنی فورسز کے ساتھ مکمل کھڑی ہے اور ان کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ دوسری طرف، کراچی میں سکیورٹی اداروں نے ایک اور بڑے منصوبے کو بروقت ناکام بنایا۔ دہشت گردوں نے ایک کم عمر طالبہ کو خودکُش حملے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر سکیورٹی اداروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس بچی کو بچالیا۔ وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ بچی سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کے زیر اثر آئی تھی۔ دہشت گردوں نے بچی کی ذہن سازی کی اور اسے ریاست مخالف سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر بروقت اقدامات نے ایک ممکنہ انسانی المیہ کو ٹال دیا۔ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کے مطابق، بچی کو انسٹا گرام اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے ذہن سازی کی گئی تھی۔ ابتدائی طور پر اس کے ذہن میں نفرت انگیز مواد ڈال کر اسے ریاست مخالف بنایا گیا اور بعد میں اسے خودکُش بمبار بنانے کی کوشش کی گئی۔ سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی اور اس بچی کی بازیابی ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف انسانی جان بچائی گئی بلکہ دہشت گرد تنظیموں کی منصوبہ بندی کو بھی ناکام بنایا گیا۔ یہ واقعہ والدین، اساتذہ اور معاشرتی اداروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھنا اور انہیں آن لائن خطرات سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ یہ معاشرتی ذمے داری بھی واضح ہوتی ہے کہ ہر فرد اور خاندان دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے تاکہ ممکنہ خطرات کو بروقت روکا جا سکے۔ باوجود مختلف صوبوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے، سکیورٹی فورسز کی موثر کارروائی یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داری بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ باجوڑ میں میجر عدیل زمان کی قربانی اور کراچی میں بچی کی بازیابی دونوں واقعات یہ واضح کرتے ہیں کہ دہشت گرد صرف ریاست کے دشمن نہیں بلکہ معاشرتی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ یہ حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ نہ صرف سکیورٹی فورسز بلکہ عام شہری بھی اپنے ماحول میں ہوشیاری اور تعاون کے ساتھ رہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں بچوں اور نوجوانوں کو نفرت انگیز پراپیگنڈے اور سوشل میڈیا کے ذریعے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اس لیے والدین اور اساتذہ کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔ صدر، وزیراعظم اور وفاقی وزرا کی طرف سے سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ دہشت گردی کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ کراچی اور باجوڑ میں کامیاب آپریشنز نہ صرف دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے ساتھ قوم میں ایک اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں داخلی انتشار پھیلانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہیں، جس میں بچوں کا ذہن سازی کے ذریعے استعمال ایک انتہائی خطرناک حربہ ہے۔ اس لیے حکومت، سکیورٹی ادارے اور معاشرتی ادارے سب کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا تاکہ یہ خطرات کم سے کم ہوں اور عوام کی زندگی محفوظ بنائی جاسکے۔ باجوڑ میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن اور کراچی میں ایک کم عمر طالبہ کو خودکُش بمبار بننے سے بچانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں میں مسلسل فعال ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بناتے بلکہ عوام کے لیے تحفظ اور اعتماد بھی فراہم کرتے ہیں۔ میجر عدیل زمان کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وطن کی حفاظت کے لیے جان کی قربانی دینا ایک عظیم جذبہ ہے۔ یہ حالات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فورسز کی ذمے داری نہیں بلکہ ہر شہری، والدین، اساتذہ اور معاشرتی اداروں کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خطرات سے پاک کرنے کے لیے ہمیں متحد رہنا ہوگا، اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہوگی اور اپنے سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھنا ہوگا۔
شذرہ۔۔
بھارت کی ایک اور آبی جارحیت
ایک بار پھر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب پر دلہستی سٹیج ٹو پن بجلی منصوبے کی منظوری دے کر پاکستان کے جائز آبی حقوق کو چیلنج کیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی معاہدوں کی روح کے منافی ہے بلکہ خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے اس بھارتی اقدام کی سخت مذمت اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان اس آبی جارحیت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کر سکتا۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں عالمی ضمانتوں کے تحت طے پایا تھا اور اسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو مغربی دریاں، خصوصاً چناب، جہلم اور سندھ کے پانی پر تسلیم شدہ حقوق حاصل ہیں۔ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرنے یا اس کی خلاف ورزی کی کوششیں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ شیری رحمان نے بجاطور پر اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ دلہستی سٹیج ٹو منصوبہ پاکستان کی آبی، زرعی اور ماحولیاتی سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کا زرعی نظام بڑی حد تک دریاں کے پانی پر انحصار کرتا ہے اور کسی بھی غیر معمولی یا اچانک کمی سے نہ صرف فصلیں متاثر ہوں گی بلکہ غذائی تحفظ بھی داؤ پر لگ سکتا ہے۔ چناب میں پانی کے بہائو میں غیر معمولی کمی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ یہ منصوبہ دفاعی اور تزویراتی لحاظ سے بھی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ پانی کی دستیابی کسی بھی ملک کی قومی سلامتی سے جڑی ہوتی ہے اور اگر ایک ملک دوسرے کے پانی پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں۔ شیری رحمان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کسی ایک ملک کی صوابدید نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی دستاویز ہے، جس کی خلاف ورزی سخت ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے پانی محض ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک ریڈ لائن ہے، جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ بھارت اگر ایسے یک طرفہ اقدامات سے باز نہ آیا تو خطے میں عدم استحکام بڑھے گا اور اسے ماضی کی طرح سخت سفارتی اور سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کو عالمی فورمز پر مثر انداز میں اجاگر کرے اور عالمی برادری کو بھارت کے خطرناک عزائم سے آگاہ کرے۔ خطے کے امن، ترقی اور استحکام کا تقاضا یہی ہے کہ بھارت بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرے، آبی جارحیت سے باز آئے اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے، کیونکہ پانی پر سیاست نہیں بلکہ تعاون ہی پائیدار امن کی ضمانت ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button