نیا سال اور نئی صبح کی امیدیں

نیا سال اور نئی صبح کی امیدیں
روشن لعل
ہر نئے برس کی طرح سال 2026کے آغاز پر بھی مبارکباد یں دینے اور وصول کرنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوگا جو لامتناہی محسوس ہونے بعد بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں کے مطابق اگر ہر نئے سال کی آمد پر نظر آنے والی سرگرمیوں کو گزشتہ برسوں کے آغاز پر برپا کیے گئے ہلے گلے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ بھی نیا محسوس نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ اور نئے سال میں فرق صرف ہندسوں کی تبدیلی کا ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کے علاوہ ان کے لیے تمام دن ، ہفتے، مہینے ہمیشہ وہی رہتے ہیں جو صدیوں سے ہو بہو چلے آرہے ہیں۔ گزرے ہوئے برسوں میں بہت کچھ من وعن ہونے کے باوجود ہر نیا سال نئی خوشیوں اور نئی امنگوں کے ساتھ نئے عہد کرتے ہوئے منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں سال کے آخری دن جہاں بھی رات کے بارہ بجتے ہیں وہاں بہت بڑی تعداد میں لوگ رنگ و نور کی محفلیں سجا کر ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک دیتے ہیں۔ جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہاں اس قسم کی باتیں کرنے والے بھی موجود ہوتے ہیں کہ جب کچھ بھی نیا نہیں تو پھر نئے سال کا جشن کیوں منایا جائے۔ نئے سال پر جشن منانے کی ایک توجیہ تو یہ پیش کی جاتی ہے کہ یہ جشن کوئی دور جدید کا فیشن نہیں بلکہ ہزاروں سال سے چلی آرہی روایت ہے جس پر موجودہ دور کے انسان نئی امنگوں اور نئے ولولوں کے ساتھ عمل کرتے ہیں ۔ بعض لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ نئے سال پر جشن منانے کی روایت ہزاروں سال پرانی ہے۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ نئے سال اور دیگر تہواروں پر جشن منانے جیسی روایتوں کو فروغ دینے میں منڈی کی معیشت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منافع خور نئے سال کے جشن سمیت تمام تہواروں پر منڈی کی معیشت کو زیادہ سے زیادہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر یاد رہے کہ ان تہواروں کی بنیاد بننے والی جن خوشیوں کو دوبالا کرنے کی وہ ترغیب دے رہے ہوتے ہیں ان خوشیوں سے محظوظ ہونے کا احساس ان منافع خوروں کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ خوش ہونے کا احساس انسانی جبلت کا حصہ ہے۔ اس انسانی جبلت نے ہی تہواروں کی شکل میں خوش ہونے کے مواقع پیدا اور تلاش کیے ہیں۔ جہاں تک نئے سال پر جشن منانے کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ اس دنیا میں منافع خوری کے نئے رجحانات کے فروغ پانے سے ہزاروں سال پہلے شروع ہو گیا تھا۔ کچھ حوالوں کے مطابق نئے سال کی آمد پر جشن منانے کا آغاز 2000قبل مسیح میں میسو پوٹیمیا کے شہر بے بی لون کے لوگوںنے کیا تھا۔
نئے سال کی آمد اور دوسرے تہواروں پر منائے جانے والے جشن خوشیوں کے حصول کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں خوشیوں بھرے لمحات کی موجودگی ہی اصل میں اس کی زندگی کے معیاری ہونے کی علامت ہے ۔ جس انسان کی زندگی میںجتنی زیادہ خوشیاں ہونگی اس کی زندگی اسی قدرزیادہ معیاری تصور کی جائے گی۔ معیاری زندگی کے لیے دیگر لوازمات کی طرح خوشیوں کا ہونا بھی ازحد ضروری ہے۔ جس طرح زندگی کی دوسری ضرورتوں کا کوئی نہ کوئی مول ہے اسی طرح خوشیاں بھی بے مول نہیں ہیں۔ مول کا مطلب صرف قیمت نہیں بلکہ قدر بھی ہے ۔ قدر اور قیمت کا فرق یہ ہے کہ کسی بھی شے کی قدر کا تعین اس کی قیمت سے نہیں ہوتا لیکن قدر وہ صفت ہے جس کی بنیاد پر چیزوں کی قیمتیں طے کی جاتی ہیں۔ قدر اور قیمت کے فرق کو سمجھنے میں اس پرانی کہاوت سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہیرے کی قدر صرف جوہری جانتا ہے جبکہ عام لوگوں کے لیے اس کی اہمیت پتھر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔
خوشیوں کی قدر بھی ہیرے کی قدر جیسی ہے۔ خوشیوں کی قدر کو وہ انسان پہچان ہی نہیں سکتا جو یہ نہ سمجھتا ہوکہ مل بیٹھ کر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے اور ان کی خوشیوں میں شریک ہونے سے خوشیوں کا احساس کس قدر دوبالا ہو جا تا ہے۔ مل بیٹھے بغیر نہ تو صحیح معنوں میں خوشیاں بانٹی جاسکتی ہیں اور نہ دوسروں کی خوشیوں میں شرکت کی جاسکتی ہے۔ نئے سال کی آمد پر جشن منایا جانا ایک ایسی روایت ہے جو زمانہ قدیم سے انسانوں کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی چلی آرہی ہے۔ لوگوں کے مل بیٹھنے کو زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک انسانی رابطے کی بہترین شکل مانا جاتا ہے۔ گو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے لاکھوں میل کے فاصلے سمیٹتے ہوئے لوگوں کو آن لائن رابطے کے مواقع فراہم کر دیئے ہیں، مگر اس طرح کا رابطہ اب بھی براہ راست رابطے کا متبادل نہیں بن سکا کیونکہ اس سے تشفی کا وہ احساس اجاگر نہیں ہوتا جو مل بیٹھنے سے پیدا ہوتا ہے۔
وطن عزیز ایک ایسی ریاست ہے جہاں خوشیاں بانٹنے اور آزادی اظہار کی غرض سے مل بیٹھنے والے انسانوں کی حوصلہ شکنی کے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں۔ یہاں نئے سال کا جشن خاص طور پر ایسا ایونٹ ہے جسے ناقابل فہم جواز تراش کر غیر مقبول بنانے کی کوششیں عرصہ سے جاری ہیں۔ اس طرح کی کوششوں کے باوجود یہاں نیا سال منانے کی خواہشوں کو دبانا کبھی ممکن نہیں ہو سکا۔ حیران کن طور پر نیا سال منانے کی خواہشوں کو سخت جبر کے ماحول میں بھی ختم نہیں کیا جاسکا تھا۔ آج یہاں ماضی جیسا جبر تو موجود نہیں ہے مگر معاشی مجبوریاں اتنی زیادہ ہیں کہ خوشیوں کی قدر ہونے کے باوجود لوگوں کے اندر انہیں خواہشوں کے مطابق منانے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اس طرح کی صورتحال کے باوجود نئے سال کی آمد پر زندہ دل لوگ ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سال نو پر کیا جا سکتا ہو۔ پوری دنیا میں نئے سال کی آمد پر لوگ نیک تمنائوں کا تبادلہ کرتے ہوئے گزشتہ سال کی تلخ یادوں کو فراموش کرکے نئے عزم کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اکثر پاکستانی دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم سے کم ہوتی ہوئی آمدن کی وجہ سے ایسی کسی ایسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو سکتے کہ آنے والا برس ان کے لیے گزرے ہوئے سال سے بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے حالات کے باوجود بھی یہاں پر امید لوگ نئے سال پر نئے عہد کرتے پائے جاتے ہیں۔ سال نو پر نئے عہد کرنے والوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ملک کے غیر یقینی اور تلخ حالات کے باوجود ان بے روزگار نوجوانوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ان نوجوانوں کی امیدیں اپنی زندگی کو معیاری بنانے اور خوشیوں سے بھر پور دیکھنے کی خواہشوں سے وابستہ ہیں ۔ ہو سکتا ہے ان نوجوانوں نے گزشتہ برس بھی سال نو پر کچھ ایسے عہد کیے ہوں جو پورے نہ ہو سکے ہوں۔ یہ نوجوان سابقہ عہد پورے نہ ہونے کے باوجود نئے برس میں زندگی کی نءی صبح طلوع ہونے کی امید میں نئے عہد کرتے ہوئے یہ ثابت کریں گے کہ ان کے پرانے عہد تو زائد المیعاد ہو سکتے ہیں مگر زندگی کی روانی کے دوران بدلتے ہوئے ماہ و سال میں نئی امنگوں کے ساتھ نئے عہد کرنے کی گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی۔





