CM RizwanColumn

جنرل عاصم منیر کا سال

جگائے گا کون؟
جنرل عاصم منیر کا سال
تحریر: سی ایم رضوان
پیر کو کراچی میں کھلے مین ہول میں گرنے سے ایک اور بچے کی ہلاکت کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ اس طرح رواں برس کھلے مین ہولز اور نالوں میں گر کر جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد 27ہو گئی ہے۔ متوفیان میں کمسن بچے، بچیاں اور مرد سبھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے کورنگی مہران ٹائون میں 8سالہ بچہ گٹر میں گر کر جاں بحق ہو گیا تھا، بچے کی شناخت دلبر کے نام سے ہوئی جو گھر کے باہر کھیلتے ہوئے گٹر میں گر گیا تھا، بچے کی لاش اس کے چچا نے گٹر سے باہر نکالی۔ صرف کراچی ہی نہیں ملک بھر میں جہاں جہاں بھی گنجان آبادیاں ہیں وہاں صفائی ستھرائی اور نالوں گٹروں کے کھلے رہنے کے مسائل لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ یہی نہیں کئی دیگر معاملات میں بھی شہریوں کی جان، مال اور عزت ہمیشہ دائو پر لگی رہتی ہے مگر سول حکومت اور نام نہاد اپوزیشن کی آ جا کے صرف ایک ہی ترجیح رہ گئی ہے کہ اڈیالہ جیل میں بیٹھا شخص کیا کہہ رہا ہے، کیا سوچ رہا ہے، کیا کھا ریا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اسے کیا کہنا چاہئے کیا کرنا، حتیٰ کہ کیا سوچنا چاہئے۔ گویا ان سب کے نزدیک اس خبط کے علاوہ ملک بھر میں کرنے والا کوئی کام نہیں اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عوامی معاملات سے لاغرضی اور بے توجہی کے ضمن میں اگر پی ٹی آئی قائدین کو سول حکومت کے معاون اور اس کی بی ٹیم کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کیونکہ وہ ایک طرف تو وہ خود خیبر پختونخوا کے عوام کے لئے کچھ نہیں کر رہے اور دوسری طرف وہ باقی صوبوں اور وفاق سے متعلقہ عوامی و انتظامی مسائل سے بھی مسلسل پہلوتہی کر رہے ہیں۔ یعنی سسٹم کے خلاف پی ٹی آئی کے اضطراب نے پورے ملک کو مضطرب کیا ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئندہ ہم از کم پانچ سال کے لئے اسی سسٹم کو چلنا ہے اور یہ نہ صرف چل رہا ہے بلکہ ملک کے لئے بہت کچھ کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اگر موجودہ سال 2025کا جائزہ لیا جائے تو دیانتداری کے ساتھ یہی کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سال 2025پاکستانی سسٹم کے مدارالمہام چیف آف ڈیفنس فورسز جنرل سید عاصم منیر کا سال ہے۔ اور یہ پاکستان کے میڈیا یا حکومت کی رائے نہیں بلکہ ٹرمپ سمیت تمام عالمی سطح کے حکمران اور عالمی میڈیا کہہ رہا ہے کہ سال 2025پاکستان کے لئے غیر معمولی طور پر خوش قسمتی کا حامل فیصلہ کن سال ثابت ہوا ہے۔ اس سال کے اختتام پر یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں رہا جو ہم نے سال کے آغاز میں دیکھا تھا۔ اس سال کے وسط میں ازلی دشمن کے خلاف جنرل عاصم منیر کے لانچ کردہ آپریشن بنیان مرصوص نے سٹرٹیجک اور نفسیاتی دونوں سطحوں پر ایسے اثرات مرتب کیے ہیں کہ جن کا تصور بھی اس سے قبل کسی نے نہیں کیا تھا۔ آج دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط، پُراعتماد اور قابلِ اعتبار نظر آتا ہے۔
ان حالات میں اگر پی ٹی آئی نامی ایک جتھہ اٹھ کر یہ کہے کہ ہمیں یہ نظام اور عاصم منیر کی پالیسی قبول نہیں تو کیا یہ وطن دشمنی اور غداری نہ ہو گی کہ آج اگر خدا خدا کر کے ملک کی دنیا میں عزت اور علاقائی طاقت کے حصول کے لئے راہ سیدھی ہوئی ہے تو ایک سیاسی شرارت کے طور پر سسٹم کو بدلنے کی بات یا کوشش کی جائے۔ کیا پاکستان کے باخبر حلقوں کو یاد نہیں کہ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہائوس میں براجمان ہوئے تھے تو بیشتر عالمی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پاکستان واشنگٹن کی سٹریٹجک ترجیحات سے نکل چکا ہے۔ عمومی تاثر بھی یہی تھا کہ حسب سابق اب آئندہ بھی امریکا کو اسلام آباد کی جزوی، علامتی اور وقتی ضرورت ہے مگر ہمارے سسٹم کے مدارالمہام جنرل عاصم منیر کی حکمت عملی کے مطابق اسلام آباد کی سفارت کاری اور طاقت کے موجودہ عالمی نظام پر ضرب کاری نے یہ مفروضہ دفن کر دیا۔ اب جنوبی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک، پاکستان ایک بڑے پالیسی ساز کے طور پر ابھرا ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ چند روز قبل فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا یہ کہن تھا کہ آپریشن بنیان المرصوص کے دوران انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی مدد کو محسوس کیا تھا۔ پھر ان کا یہ احساس پورے ملک حتیٰ کہ دنیا بھر پر گہرے اثرات چھوڑ گیا کہ یہ محض ان کا ذاتی احساس نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت ہے جسے آج بہت سے پاکستانی اور وہ وہ تجزیہ کار بھی محسوس کر رہے ہیں جو عاصم منیر یا پاک فوج کی ذرہ برابر بھی تعریف نہ کرنا چاہتے تھے مگر آج کوئی ان دیکھی طاقت ان کو کان سے پکڑ کر یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کر رہی ہے کہ اونچی آواز میں کہو کہ اللّہ تعالیٰ نے پاکستان کو عزت اور سربلندی کا ایک تاریخی موقع عطا کیا ہے۔ الحمدللہ کہ یہ منزل اتنی تیزی سے ملی کہ عالمی سطح کے تجربہ کار، مبصرین، حرب و ضرب اور سیاست و سفارت کے ماہرین بھی حیران رہ گئے۔ پاکستان کی عالمی حیثیت میں اس اچانک تبدیلی کو سمجھنے کے لئے مغربی میڈیا کی دو حالیہ تحریریں نہایت اہم ہیں۔ پہلی بریگیڈئیر جنرل مارک کیمِٹ کا مضمون Trump,s Surprising Policy Turn on Pakistan جو ’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں شائع ہوا۔ دوسری ایڈورڈ لوس کا مضمون Middle Powers Face a New Age of Uncertainty جو ’’ فنانشل ٹائمز‘‘ میں شائع ہوا۔ ان دونوں تحریروں کو ایک ساتھ پڑھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی سٹرٹیجک حلقوں میں اب پاکستان کو کس نظر سے دیکھا اور تسلیم کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی عالمی ساکھ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر سال 2025پاک امریکہ تعلقات میں ایک حقیقی موڑ ثابت ہوا ہے حالانکہ پچھلی کئی دہائیوں تک پاکستان کو ایک محدود سکیورٹی تناظر میں دیکھا جاتا رہا تھا اور اس کی حیثیت ایک ناقابل اعتماد شراکت دار کے علاوہ کچھ نہ تھی۔ ایسے میں پی ٹی آئی، بی ایل اے، ٹی ٹی پی وغیرہ کو سپورٹ کرنے والے پاکستان کے دشمنوں نے انہیں خوب موٹا تازہ کیا کہ اب چاروں طرف سے حملے کر کے نعوذباللہ اس ملک کے کڑاکے نکال دو مگر ’’ واللہ خیر الماکرین‘‘ کہ جنرل عاصم منیر باوجود بھرپور مخالفت اور مخالفانہ سازشوں کے آرمی چیف بن گئے۔ پھر رواں سال مئی میں ہونے والی پاک بھارت جھڑپوں میں پاک فوج کے عسکری کمالات نے ان تمام پاکستان دشمنوں کو چاروں شانے چت کر دیا اس کے بعد اب عالمی سطح پر یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ پاکستان ونر اور اس کے دشمن لوزر ہیں۔ کیونکہ بھارت کے ساتھ ہونے والے مختصر مگر فیصلہ کن عسکری تصادم میں پاک فوج کی حیران کن فتح نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کا نظم و ضبط پر مبنی، ہدفی اور موثر ردِعمل خطہ میں موجود اس کے تمام دشمنوں پر حاوی اور بھاری ہے۔ یہی امر واشنگٹن کے لئے حیران کن ثابت ہوا اور وہ بے ساختہ مان گیا کہ پاکستان ایک سنجیدہ دفاع کے ساتھ جنوبی ایشیا میں بڑی علاقائی طاقت کے طور پر کم از کم تب تک قائم و دائم رہے گا جب تک پاک فوج فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی موجودہ عسکری پالیسی پر عمل پیرا رہے گی ورنہ کل کلاں اگر خدا نخواستہ کوئی باجوہ جیسا جرنیل آ گیا تو وہ ٹینکوں میں تیل نہ ہونے کا رونا رو کر ملک کو اسی پوزیشن پر لے جائے گا جس پوزیشن کے اس ملک کے دشمن خواہشمند ہیں۔
واشنگٹن کی دیرینہ بھارت اول پالیسی کی بنیاد یہ تصور تھا کہ نئی دہلی جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کا موثر تحفظ کر سکے گا جو کہ اب دم توڑ گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بھارت میں داخلی سیاسی انحراف، شہری آزادیوں پر قدغنیں، غیر مستقل عسکری کارکردگی، ناقابل برداشت اور کمزور سفارتی رویہ اس تصور کو یکسر مٹا چکے ہیں جبکہ عاصم منیر کے پاکستان کی پیشہ ورانہ عسکری و سفارتی صلاحیتوں نے اس کی حیثیت کو مقابلتاً مضبوط کیا ہے۔ یاد رہے کہ 2025ء میں پاک، امریکہ تعلقات میں بہتری کا آغاز کسی بڑے اعلان سے نہیں ہوا تھا بلکہ یہ انقلاب خاموشی سے انسدادِ دہشت گردی اور انٹیلی جنس تعاون کے ذریعے ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے عملی اقدامات نے اس کی سنجیدگی کا واضح ثبوت فراہم کیا۔ اس بناء پر اس سال مارچ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی کھلے عام تعریف اس بات کا اشارہ تھی کہ یہ نیا جائزہ اعلیٰ ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اسلام آباد نے اس موقع پر بھی اپنی سٹریٹجک بصیرت کا بروقت مظاہرہ کیا اور محدود تعاون بتدریج اعتماد میں تبدیل ہوا اور تعلقات مضبوط ہوتے چلے گئے۔ پھر مئی کا عسکری تصادم اس رفتار کو مزید تیز کرنے کا باعث بنا اور واشنگٹن کو جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی وسیع تر حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنا پڑی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس نئے اعتماد کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی عسکری اصلاحات ہیں۔ جدید کاری، کمانڈ اسٹرکچر کی تنظیمِ نو اور چیف آف ڈیفنس فورسز کے کردار کو فعال بنانے سے عملی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نہ صرف آرمی چیف کے طور پر بلکہ ایک مربوط اور موثر عسکری نظام کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ خاص طور پر چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدہ پر ترقی کے بعد امریکی سٹریٹجک حلقوں میں فیلڈ مارشل سیّد عاصم منیر ایک منظم، باوقار اور بااختیار قیادت کے طور پر سامنے آئے ہیں یعنی ایسی کمانڈ جو بغیر کسی نمائش کے احترام حاصل کرتی ہے۔ واشنگٹن میں ان کی اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں اور پاکستان کے تعاون پر مبنی سفارتی رویہ نے بھارت کے سہمے ہوئے، غیر فیصلہ کن انداز کے سفارتی رویہ کے مقابلے میں امریکا کا اعتماد مزید مضبوط اور دیرپا کر دیا ہے۔ اب اور آنے والے وقت میں پاکستان امریکی اسٹریٹجک سوچ میں ایک مرکزی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے۔ ایران کے ساتھ ایک خاموش رابطہ کاری کا ممکنہ ذریعہ اور اسی دوران غزہ کے معاملے میں اس کی اہمیت اور خطے میں استحکام پیدا کرنے والا کردار، یہ سب باتیں واشنگٹن میں متحمل انداز میں مگر واضح طور پر تسلیم کی جا رہی ہیں۔ سال 2025ء میں پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نظم و ضبط، حکمتِ عملی اور یکسوئی کے ذریعے اس نے وہ احترام، اثر و رسوخ اور عزت حاصل کی ہے جسے وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button