تازہ ترینخبریںدنیاسیاسیاتپاکستان

حماس کے ترجمان کا نام مشہور صحابی کے نام پر ، ابو عبیدہ بن جراح کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں ؟

ابوعبیدہ ابن الجراح جنہیں دربار رسالت سے امین الامت کا خطاب ملا قبیلہ فہر سے متعلق تھے۔ جو قریش کی ایک شاخ تھی۔ اصل نام عامر بن عبد اللہ تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت عمر 40 سال تھی۔ بالکل ابتدائی زمانے میں مشرف باسلام ہوئے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح ابتدا میں قریش کے مظالم کا شکار ہوئے۔ حضور سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے لیکن مکی دور ہی میں واپس لوٹ آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چند روز قبل اذن نبی سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور حضور کی آمد تک قبا میں قیام کیا۔ مواخات مدینہ میں معزز انصاری صحابی ابوطلحہ کے بھائی بنائے گئے۔ بے مثال خدمات اسلام کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن صحابہ کو دنیا میں جنت کی بشارت دی ان سے ایک ہیں۔

فاروق اعظم نے خالد بن ولید کو ابوعبیدہ ابن الجراح کے ماتحت کر دیا۔ قیادت کی ان تبدیلیوں سے جہاد کے مقاصد کے حصول اور مہمات کی تربیت و کامرانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس کا بہت بڑا سبب ابوعبیدہ بن الجراح کا وہ منجھا ہوا انداز قیادت تھا جس کی وجہ سے وہ دوسری پوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اپنی صائب رائے پیش کرتے۔ اس پر عمل کرتے اور کرواتے اور اپنے ساتھیوں کا بھرپور تعاون حاصل کرتے۔ خالد بن ولید بھی ان کی شخصیت اور صلاحیتوں کے مداح تھے اور آپ کی پر کشش شخصیت اور سادہ اور پروقار زندگی ایک طرف رومیوں کے سفیر کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرنے والی تھی تو دوسری طرف سرفروشان اسلام کو عزم جہاد دینے والی۔

ابوعبیدہ ابن الجراح جنگ یرموک کے فاتح ہیں جس نے ہرقل شاہ روم کو شام چھوڑنے پر مجبور کیا۔ بیت المقدس کے فاتح ہیں جو دینا کا عظیم روحانی مرکز ہے۔ آپ نے بیت المقدس میں پہلی نماز وہاں پڑھی جہاں آج کل مسجد اقصیٰ ہے۔ ابوعبیدہ فتح شام کے بعد شام کے پہلے گورنر تھے۔ وہ جرنیل بھی تھے۔ اچھے منتظم بھی اور دین اسلام کے مبلغ بھی تھی۔

امین الملت کی زندگی کا آخری معرکہ حمص کی وہ خونریز جنگ ہے جس میں ہرقل نے شام واپس پلٹنے کی آخری کوشش کی لیکن ناکام ہوا اور اس کے بعد اس نے کبھی شام کا رخ نہ کیا۔

*امین امت کا لقب*
شعبہ نے کہا: میں نے ابواسحاق کو صلہ بن زفر سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اہل نجران آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک امین شخص بھیجیے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے پاس ایسا شخص بھیجوں گا جو اس طرح امین ہے جیسے امین ہونے کا حق ہے۔“ لوگوں نے اس بات پر اپنی نگاہیں اٹھائیں (کہ اس کا مصداق کون ہے) کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو روانہ فرما دیا۔ [صحيح مسلم/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 6254]

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اے امت! ہمارے امین ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔“ [صحيح مسلم/كتاب فضائل الصحابة/حدیث:
6252

*حدیث میں جنتی ہونے کی بشارت*

عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔

*وفات*

18ھ میں مسلمانوں کے لشکر میں طاعون کی وبا پھوٹ نکلی جسے عمواس کی طاعون کہا جاتا ہے۔ اس موذی وبا نے بہت سے مسلمانوں کی جان لے لی ان میں سے ایک سپہ سالار اعظم امین الملت ابوعبیدہ بھی تھے۔ جن کو عمر فاروق نے مدینہ واپس بلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ’’ میں مسلمانوں کی فوج میں ہوں اور میرا دل ان سے جدا ہونے کو نہیں چاہتا۔ ‘‘ اس طرح اٹھاون برس کی عمر میں یہ تاریخ ساز شخصیت مالک حقیقی سے جا ملی۔

جواب دیں

Back to top button