امریکی غزہ مشن کے دائرہ کار پر پاکستان کا نقطہ نظر

امریکی غزہ مشن کے دائرہ کار پر پاکستان کا نقطہ نظر
تحریر: عبد الباسط علوی
غزہ کئی سالوں کی ناکہ بندی اور مسلسل اسرائیلی حملوں کے بعد شدید انسانی تباہی کا سامنا کر رہا ہے، جس میں گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور ضروری بنیادی ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ شہریوں کو خوراک، پانی، بجلی اور طبی دیکھ بھال کی شدید قلت اور اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر گنجان اور غیر محفوظ پناہ گاہوں میں نقل مکانی، قحط اور بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔ صحت کے نظام کا زوال اور گہرے نفسیاتی صدمے کسی محفوظ پناہ گاہ کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بہت سی ریاستیں تشدد کو روکنے یا جواب دہی کو یقینی بنانے میں ناکامی پر بین الاقوامی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ انصاف ، قبضے کے خاتمے اور فلسطینی حقوق کو تسلیم کیے بغیر عارضی جنگ بندی ناکافی ہے۔
اس کے جواب میں بین الاقوامی استحکام فورس کے لیے امریکی حمایت یافتہ تجویز نے اقوام متحدہ میں شدید تقسیم کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ حامی اسے شہریوں کے تحفظ، امداد اور تعمیر نو کو مربوط کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن بہت سے ممالک، خاص طور پر عرب ریاستیں، پاکستان، چین اور روس، خبردار کرتے ہیں کہ فلسطینی خود ارادیت کے لیے واضح سیاسی راستے کے بغیر یہ صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ اسرائیل ، مخالف نقطہ نظر سے ، استدلال کرتا ہے کہ یہ منصوبہ اس کی سلامتی کے خدشات کو حل نہیں کرتا ہے اور اس کے کنٹرول کو محدود کرتا ہے ۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کے اندر شکوک و شبہات فزیبلٹی، فنڈنگ، کمانڈ اور اوپن اینڈ مداخلت کے خطرے پر مرکوز ہیں۔ جیسا کہ واشنگٹن ایک نظر ثانی شدہ مسودہ تیار کر رہا ہے تو یہ بحث انسانی ہمدردی کے انتظام اور تنازع کے سیاسی بنیادوں پر منصفانہ اور دیرپا حل کے لیی گلوبل سائوتھ کے مطالبات کے درمیان وسیع تر تنائو کی عکاسی کرتی ہے ۔
اقوام متحدہ کے دفاتر جہاں تکنیکی زبان میں قراردادوں پر بحث ہوتی ہے، غزہ کی تباہ حال گلیوں سے بالکل برعکس ہیں جہاں بھوک، بیماری اور موت کسی بھی سفارتی بیان سے زیادہ تلخ سچ بول رہی ہیں۔ ملبی سے خوراک تلاش کرنے والے بچوں، تباہ شدہ گھروں میں سونے والے خاندانوں اور ہسپتالوں میں زخمیوں کی تصاویر نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کے اس عزم کو مضبوط کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے اقدامات سیاسی مصلحت کے بجائے انصاف پر مبنی ہونی چاہئیں۔ پاکستان کے اصولی موقف کو اعلیٰ سطح کے مذاکرات اور زمینی سطح پر انسانی تکلیفوں کے درمیان اسی گہری خلیج کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ واقعہ عالمی سفارت کاری میں ایک بڑی تبدیلی کی بھی نشاندہی کرتا ہے جہاں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی روایتی بالادستی کو اب درمیانے درجے کی طاقتور ریاستیں چیلنج کر رہی ہیں جو ایسے انسانی بحرانوں پر خاموش رہنے سے انکار کر رہی ہیں۔ عرب بلاک اور دیگر غیر وابستہ ممالک کے ساتھ پاکستان کی فعال شراکت داری عالمی جنوب کے بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاسی کرتی ہے جو اب یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ تمام بین الاقوامی مداخلتوں کی بنیاد انصاف اور جوابدہی ہونی چاہیے۔ ان کا واضح پیغام ہے کہ دیرپا امن زبردستی مسلط نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے مشروعیت، ہمدردی اور جوابدہی کی بنیاد پر تعمیر کیا جانا چاہیے۔
یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان کو انسانی ہمدردی اور لاجسٹک امداد کا کردار دیا جا سکتا ہے جو کہ ایک مثبت پیشرفت ہے کیونکہ ہر پاکستانی غزہ کے معصوم لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی بنیادی توجہ فلسطین کے اصل مسئلے یعنی عوام کی خواہشات کے مطابق ایک الگ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر ہونی چاہیے۔ مزید برآں جنگ بندی کا سختی سے نفاذ ضروری ہے کیونکہ اسرائیل اس پر عمل نہیں کر رہا اور حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کو بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کے تحت جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے اور تمام معاہدوں اور جنگ بندی کی پاسداری پر مجبور کیا جانا چاہیے۔
جیسے جیسے واشنگٹن اور نیویارک میں معاملات جاری ہیں، غزہ میں انسانی المیہ ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ صاف پانی کی قلت، بیماریوں کا پھیلائو اور بے دخلی کے صدمے نے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں جن کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں نسل کشی کا خدشہ ظاہر کر رہی ہیں۔ اس تلخ حقیقت کے برعکس دنیا کے سفارت کار اب بھی الفاظ اور شقوں پر بحث کر رہے ہیں جو انسانی تکالیف سے بین الاقوامی حکمرانی کے لاتعلق ہونے کا ثبوت ہے۔ تاہم اس بیوروکریٹک جمود کے باوجود اخلاقی وضاحت کے ساتھ پاکستان کی آواز ایک یاد دہانی ہے کہ ضمیر پر مبنی سفارت کاری انسانیت کے بھلے کے لیے کام کر سکتی ہے۔ اسلام آباد کا اصولی موقف اس سچائی پر زور دیتا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی قرارداد یا امن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک عالمی برادری اس ناانصافی کو حل نہیں کرتی جو ان مصائب کی بنیاد ہے۔ فلسطین کا اصل مسئلہ یعنی حق خودارادیت اور آزاد ریاست کا قیام مستقل امن کے لیے ناگزیر ہے اور پاکستانی قوم ہمیشہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے۔ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت بشمول وزیراعظم اور فیلڈ مارشل نے ہمیشہ بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے اور پوری قوم اس مسئلے کے اس منصفانہ حل کی امید رکھتی ہے جو خطے میں حقیقی امن لا سکے۔





