Column

قومی اثاثوں کی فروخت لمحہ فکریہ

قومی اثاثوں کی فروخت لمحہ فکریہ
تحریر : صفدر علی حیدر
تمہید: انسانی فطرت اور دولت کی جستجو
انسان فطرتاً آسائش پسند اور نفع خور ہے۔ ازل سے ابد تک اس کی تگ و دو کا محور مادی وسائل کی فراہمی، دولت کا حصول اور وقتی خوشیوں کی جستجو رہی ہے۔ تاہم، انسانی تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ وہ معاشرے جو صرف حال کی بنیاد پر مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں، اکثر تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جاتے ہیں۔
مالی فائدہ حاصل کرنا کسی بھی فرد یا ریاست کا حق ہو سکتا ہے، مگر جب یہ فائدہ ’ قومی اثاثوں‘ کی قربانی دے کر حاصل کیا جائے، تو یہ معاشی حکمت عملی نہیں بلکہ قومی خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ مقالہ اسی تناظر میں قومی اداروں کی فروخت کے سماجی، معاشی اور نفسیاتی اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔
غالب کی فاقہ مستی: ایک استعارہ
اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری میں ’ فاقہ مستی‘ کا ایک خاص تصور ملتا ہے۔ غالب تہی دستی کے عالم میں بھی اپنے وقار اور مستقبل سے وابستہ امید کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ ان کی فاقہ مستی محض غربت نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ صبر تھا، جس میں وہ دنیا کے دکھ سمو کر بھی زندگی کے رنگ دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
اگر اس فلسفے کو قومی تناظر میں دیکھیں تو یہ ہمیں ’ قومی غیرت‘ اور ’ صبرِ استقلال‘ کا درس دیتا ہے۔ غالب سکھاتے ہیں کہ مشکل وقت میں اپنے گھر کے برتن بیچ کر پیٹ بھرنا دانشمندی نہیں، بلکہ اصل کمال اس فاقے میں بھی اپنے اثاثوں کو بچا کر رکھنا اور بہتر وقت کا انتظار کرنا ہے۔ آج جب ہم پی آئی اے یا ریلوے جیسے اداروں کو خسارے کے نام پر بیچنے کی بات کرتے ہیں، تو ہم غالب کے اس فلسفہِ وقار سے انحراف کر رہے ہوتے ہیں۔
لوک دانش اور زمین کا تقدس
پاکستانی معاشرت اور لوک ادب میں زمین کو ’ ماں‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ دیہی دانشور کا یہ قول کہ:’’ زمین بیچ کر حاصل ہونے والا پیسہ ہاتھ کی میل ہے جو نکل جاتی ہے، مگر زمین نسلوں کا سہارا ہوتی ہے‘‘، یہ ایک گہری معاشی حقیقت پر مبنی ہے۔ زمین یا کوئی بھی بڑا قومی اثاثہ جب بیچا جاتا ہے، تو حاصل ہونے والی رقم وقتی طور پر بجٹ کے خسارے کو تو کم کر سکتی ہے، مگر وہ پیداواری صلاحیت (Productive Capacity)ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے، جو نسل در نسل روزگار اور استحکام کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ اثاثے ریاست کے بازو ہوتے ہیں، اور بازو کاٹ کر پیٹ بھرنے کا عمل کسی بھی طور پر صحت مند معاشرے کی علامت نہیں ہو سکتا۔
نجکاری کا عالمی منظرنامہ
دنیا کے مختلف ممالک میں قومی اثاثوں کی فروخت یا نجکاری (Privatization)کے تجربات نے ہمیشہ مثبت نتائج برآمد نہیں کئے۔
برطانیہ کی ریلوے : نجی کمپنیاں صرف منافع کے لیے کام کرتی ہیں، سروس کا معیار گرا، کرائے بڑھ گئے اور عوامی سہولت ایک ڈرائونا خواب بن گئی۔
ہندوستان کی ٹیلی کمیونیکیشن: چند سرمایہ داروں نے بے پناہ عیش حاصل کیا، مگر دور دراز علاقوں کے غریب عوام کے لیے سہولیات مہنگی اور ناقابل رسائی ہو گئیں۔
عرب دنیا کی ایئر لائنز: مالی فائدہ ہوا، مگر قومی شناخت اور خود مختاری متاثر ہوئی۔
یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ وقتی فائدے کے لیے قومی یا عوامی اثاثے بیچنے سے معاشرتی نقصان اور دیرپا اثرات لازمی پیدا ہوتے ہیں۔
معاشی و سماجی اثرات کا تجزیہ
پی آئی اے، ریلوے یا TCLجیسے اداروں کی فروخت پر غور کریں تو صرف مالی فائدے کو نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ پسِ پردہ چھپے سماجی اور نفسیاتی اثرات پر بھی غور لازم ہے۔
روزگار کا قتلِ عام: نجی سرمایہ کار کے لیے پہلا قدم ’ ڈائون سائزنگ‘ ہوتا ہے۔ لاکھوں خاندان بے روزگار ہو جاتے ہیں، جو صرف افراد نہیں بلکہ پورے سماجی ڈھانچے کی تباہی ہے۔
سماجی ربط کی شکست : ریلوے اور پی آئی اے ملک کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ ان کی فروخت سے دور افتادہ علاقوں کا رابطہ مرکز سے کٹ جاتا ہے یا اتنا مہنگا ہو جاتا ہے کہ غریب کی پہنچ سے باہر ہو جاتا ہے۔ثقافتی ورثے کا زیاں: یہ ادارے تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ کئی دہائیوں کی یادیں اور قومی وقار وابستہ ہے۔ انہیں بیچنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے بزرگوں کے تمغے بازار میں بیچ آئے۔
’’ زندہ لاکھ کا، مرا سوا لاکھ کا‘‘ ایک نئی تعبیر
حکومتی زعماء جب کسی قومی ادارے کو کوڑیوں کے مول بیچ کر قوم کو مبارکباد دیتے ہیں، تو وہ دراصل اس کے ’ مردہ ‘ ہونے کا جشن منا رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ ادارہ زندہ رہتا اور بہتر انتظام اور شفاف قیادت کے ساتھ چلایا جاتا، تو یہ تاحیات قوم کی خدمت کرتا۔ اسے مار کر ہڈیوں کی قیمت نکالنا کوئی کارنامہ نہیں۔
حکومتی رویہ اور عوامی اضطراب
پی آئی اے جیسے بڑے اثاثے کی فروخت پر حکومتی سطح پر جو شادیانے بجائے جا رہے ہیں، وہ اس ذہنی پسماندگی کی علامت ہیں جہاں ’ نجات‘ صرف بیچنے میں دیکھی جاتی ہے۔ کسی ادارے کو ٹھیک کرنا مشکل کام ہے، اسے بیچ دینا آسان۔ حکمران طبقہ آسان راستہ اختیار کر کے قوم کے مستقبل کو گروی رکھ رہا ہے۔ یہ رویہ فکری بانجھ پن کا عکاس ہے، جہاں مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے خود مسئلے کو ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔
تجویز کردہ حل اور راہِ عمل
قومی اثاثوں کو بچانے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
پیشہ ورانہ انتظام: اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک کر کے متعلقہ شعبے کے ماہرین کے سپرد کیا جائے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ: مکمل فروخت کے بجائے اشتراکِ عمل کی راہ نکالی جائے تاکہ ملکیت ریاست کے پاس رہے اور کارکردگی نجی شعبے جیسی ہو۔
احتساب اور شفافیت: خسارے کی اصل وجہ کرپشن اور نااہلی ہے، اس کا علاج فروخت نہیں بلکہ کڑا احتساب ہے۔نتیجہ: فاقہ مستی، غیرت اور پائیدار ترقی
قومی اثاثے کسی بھی قوم کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ان کی فروخت وقتی طور پر جیب کو تو بھر سکتی ہے، مگر روح کو خالی کر دیتی ہے۔ مرزا غالب کی اس ’ فاقہ مستی‘ کو اپنانا ہوگا جو غیرت اور خود داری پر سمجھوتہ نہیں کرنے دیتی۔ اصل خوشی اور ترقی اداروں کو بیچنے میں نہیں بلکہ انہیں فعال اور منافع بخش بنانے میں ہے۔
اگر آج ہم نے اپنے اثاثوں کی حفاظت نہ کی، تو آنے والی نسلیں ہمیں ایک ایسی قوم کے طور پر یاد رکھیں گی جس نے اپنے مستقبل کی بنیادیں چند سکوں کے عوض بیچ ڈالیں۔ یاد رکھیے، پیسہ ہاتھ کی میل ہے، مگر قومی وقار اور اثاثے صدیوں کی محنت سے بنتے ہیں۔
عملی مثال: زمینی اثاثے اور ذاتی تجربہ
’’ مجھے نئے مکان کی تعمیر کے لیے اپنی زمین بیچنی پڑی۔ ماں نے حسرت سے کہا: تمہارے بڑے مربعوں کے حساب سے زمینیں خرید کر اثاثے بنا گئے، تم نے تو ایک مرلہ کبھی نہیں خریدا۔ الٹا بیچنے پر تلے ہو‘‘۔
یہ ذاتی تجربہ بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اثاثے بیچنے سے عارضی فائدہ تو ہوتا ہے، مگر نسلوں کی محنت، وقار اور استحکام ضائع ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button