Column

ناصر الخرافی

ناصر الخرافی
تحریر : علیشبا بگٹی
ناصر الخرافی، جو ایک وقت میں دنیا کے 70ویں اور کویت کے 10ویں نمبر کے ارب پتی تھے۔ 17جون 1944ء کو کویت میں پیدا ہوئے اور 17اپریل 2011ء کو قاہرہ میں دل کے دورے کے باعث 67برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی دولت کا تخمینہ اپنے عروج پر 10ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھا۔
انہوں نے اپنے والد عبدالمحسن الخرافی کی قائم کردہ کمپنی M.A.Kharafi &Sonsکو 1993ء میں ایک چھوٹی کنٹریکٹنگ فرم سے ایک وسیع ملٹی نیشنل گروپ میں بدل دیا۔ ان کا کاروبار انفراسٹرکچر، کنسٹرکشن، پیٹرولیم، توانائی، ٹیلی کمیونی کیشن، خوراک، بینکنگ، ریئل اسٹیٹ، ہوٹلنگ اور سیاحت جیسے اہم شعبوں میں پھیلا ہوا تھا۔ خرافی گروپ 30سے زائد ممالک میں سرگرم عمل تھا۔
ناصر الخرافی ’’ امریکیانا فوڈ کمپنی‘‘ کے بڑے شیئر ہولڈر بھی تھے، جو KFC، Pizza Hut، Hardee,s، Krispy KremeاورCosta Coffeeجیسے عالمی فوڈ برانڈز چلاتی تھی۔
ان کی قیادت میں کمپنی نے صنعت، تعمیرات اور خدمات کے شعبوں میں بے مثال ترقی کی اور لاکھوں افراد کو روزگار دیا۔
دولت کے باوجود ان کی شخصیت انتہائی سادہ تھی۔ کم گو مگر نہایت سوچ رکھنے والے انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ملازمین کے مطابق وہ پہلے ’’ انسان کو دیکھتے تھے، پھر کام کو‘‘۔
ان کے فلاحی کام زیادہ تر خاموشی سے ہوتے تھے۔ سکول، ہسپتال، یتیموں کی کفالت اور غریب طلبہ کے وظائف، سب بغیر تشہیر کے۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک مزدور حادثے کا شکار ہوا تو اس کے گھر خود گیا۔ انہوں نے نہ صرف اس کا علاج کرایا بلکہ بچوں کی فیس بھی خود ادا کی۔
1990 ء کی جنگِ کویت کے دوران جب بہت سے سرمایہ دار اپنے وسائل بیرونِ ملک منتقل کر رہے تھے، ناصر الخرافی نے کویت ہی میں تعمیر نو کے منصوبے تشکیل دئیے۔ وہ کہا کرتے تھے: ’’ یہ مٹی میرے والد کی امانت ہے، میں اسے چھوڑ کر نہیں جائوں گا‘‘۔
زندگی کے آخری ایام میں ان کا ایک جملہ بار بار دہرایا جاتا تھا: ’’ دولت انسان کو مضبوط بناتی ہے، مگر زندگی بہت مختصر ہے‘‘۔ ان کا ایک اور مشہور قول ہے: ’’ کاروبار وہی کامیاب ہوتا ہے، جہاں انسان کو عزت ملے۔ پیسہ خود چل کر ایسے ادارے میں آتا ہے جہاں امانت داری ہو‘‘۔
سونے کی گاڑیاں، محلات، جہاز اور بے شمار خزانے، سب کچھ دنیا میں ہی رہ گیا۔ وہ خالی ہاتھ اپنے خالق کے پاس چلے گئے۔ وہ اپنے ساتھ ایک تنکا تک بھی نہ لے جا سکا۔ انسان کو پتہ ہے سب کچھ یہی رہ جائے گا۔ پتہ نہیں پھر بھی کیوں انسان کی حرص و ہوس ختم نہیں ہوتی۔ اور لالچ کی پیچھے چلتے چلتے ایک دن زندگی ہی ختم ہو جاتی ہے۔
ناصر الخرافی کی زندگی یہ حقیقت اجاگر کرتی ہے کہ انسان کے کام صرف اس کے اعمال، اخلاق اور انسانیت آتے ہیں۔ دولت، طاقت اور شہرت فانی ہیں، مگر کردار دائمی ہے۔

جواب دیں

Back to top button