انڈر پلے مافیا سرگرم۔ میرٹ کا قتلِ عام

انڈر پلے مافیا سرگرم۔ میرٹ کا قتلِ عام
تحریر : رفیع صحرائی
خبر ہے کہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں’’ انڈر پلے‘‘ کے نام سے چلنے والا غیر قانونی کاروبار پورے عروج پر ہے۔ یہ دھندہ کئی خاندانوں کے لیے قیامت کا روپ دھار چکا ہے۔ پشاور، مردان، چارسدہ، نوشہرہ اور صوابی سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں یہ دھندا منظم گینگوں کے ذریعے زور و شور سے جاری ہے، جس نے لاتعداد لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں گھر اور جمع پونجی سے بھی محروم کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق انڈر پلے کے اس دو نمبر کاروبار میں بااثر اور نامی گرامی افراد بھی ملوث ہیں جبکہ سہولت کار مجبور اور مالی مشکلات کے شکار افراد کو لالچ دے کر اس جال میں پھنسا دیتے ہیں۔ ایک بار اس گروہ کا شکار بننے والا شخص اکثر زندگی بھر کے لیے اپنی گاڑیوں، گھروں اور زمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق متاثرین کا کہنا ہے کہ کئی افراد اس دھندے میں لٹنے کے بعد ذہنی دبائو اور معاشی بدحالی کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کر چکے ہیں جبکہ متعدد لوگ منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انڈر پلے گینگ نہ صرف مالی استحصال کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات اپنے مسلح غنڈہ عناصر کے ساتھ متاثرین کے گھروں پر چڑھائی بھی کرتے ہیں، جنہیں اس غیر قانونی کاروبار سے باقاعدہ حصہ دیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا ایک ایسا صوبہ ہے جس کی تاریخ قربانیوں، غیرت اور اصول پسندی سے عبارت رہی ہے، مگر افسوس کہ آج اسی سرزمین پر ایک ایسا خاموش مافیا سرگرم ہے جو نوجوانوں کے مستقبل، اداروں کے وقار اور ریاستی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس مافیا کو عرفِ عام میں’’ انڈر پلے مافیا‘‘ کہا جاتا ہے۔
انڈر پلے مافیا کا طریقہ واردات نہایت سادہ مگر انتہائی خطرناک ہے۔ یہ مافیا کھلے عام دھاندلی نہیں کرتا بلکہ میرٹ کے نام پر میرٹ ہی کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ اہل، قابل اور محنتی امیدواروں کے نمبر جان بوجھ کر کم کیے جاتے ہیں جبکہ سفارش، رشوت یا تعلقات کی بنیاد پر کم اہل افراد کو آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ فائلوں، مارک شیٹس اور انٹرویو نمبروں کے پردے میں ہوتا ہی، اس لیے ثبوت دینا عام امیدوار کے لیے تقریباً ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر تحریری امتحان کے بعد انٹرویو کا مرحلہ اس مافیا کا پسندیدہ اور منافع بخش ہتھیار بن چکا ہے۔ اس مافیا کے ہاتھوں تحریری امتحان میں نمایاں پوزیشن لینے والا امیدوار انٹرویو میں اچانک’’ نالائق‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس حد تک نالائق جیسے اس میں اہلیت نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو جبکہ کم نمبروں والا امیدوار مٹھی گرم کر کے انٹرویو میں غیر معمولی نمبر لے کر کامیاب ہو جاتا ہے۔ چونکہ انٹرویو ایک سبجیکٹو مرحلہ ہے اس لیے یہاں سوال اٹھانا بھی گستاخی تصور کیا جاتا ہے۔اس پورے کھیل میں سب سے افسوسناک کردار اداروں کے اندر موجود ان کالی بھیڑوں کا ہے جو امانت دار ہونے کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ مگر طاقت، دبا یا ذاتی فائدے کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شکایت کرنے والا امیدوار در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس کی اپیلیں دبا دی جاتی جاتی ہیں، اسے تاریخیں دے دے کر تھکا دیا جاتا ہے اور آخرکار وہ یا تو مایوس ہو کر خاموش ہو جاتا ہے یا ملک چھوڑنے کا سوچنے لگتا ہے۔
انڈر پلے مافیا کے اثرات صرف ایک امیدوار تک محدود نہیں رہتے۔ نااہل افراد کی بھرتی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور عوام کا ریاست پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب نوجوان یہ سوال کرنے لگتا ہے کہ اگر محنت، قابلیت اور دیانت کا کوئی صلہ نہیں تو پھر راستہ کیا بچتا ہے؟گزشتہ دنوں بڑی دیدہ دلیری سے خیبر پختونخوا میں ایک چوکیدار کو سب انجینئر کا عہدہ تفویض کرنے کا واقعہ پیش آ چکا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ حالات کس قدر بگڑ چکے ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مورخہ 16دسمبر 2025ء کو پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا نے ایک آپریٹر کم چوکیدار ( جو درجہ چہارم یعنی BS۔4کے مساوی گریڈ پر کام کر رہا تھا) کو عارضی طور پر ’’ سب انجینئر‘‘ کے فرائض انجام دینے کا حکم نامہ جاری کیا۔ یہ فیصلہ چیف انجینئر ( سینٹر) کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ یہ عوامی مفاد میں اور سپرنٹنڈنگ انجینئر پی ایچ ای سرکل ڈی آئی خان اور ایگزیکٹو انجینئر پی ایچ ای ڈویژن ٹانک کی سفارش پر کیا گیا ہے۔
اس اقدام پر شدید عوامی ردعمل اور تنقید ہوئی کیونکہ ایک انتہائی نچلے گریڈ کے ملازم کو تکنیکی اور انتظامی طور پر اعلیٰ ذمہ داری سونپنا ادارے کے قوانین کے تقاضوں کے خلاف اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف تھا۔ اس طرح کا واقعہ عموماً اُن معاملات کا حصہ سمجھا جاتا ہے جہاں غیر مناسب عہدوں پر عارضی چارج یا ذمہ داریاں دینا سرکاری نظم و نسق میں شفافیت اور میرٹ کے اصولوں کے لیے چیلنج بن جاتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ ایسے افسران یا ملازمین کو ملتی ہوں جن کے پاس پیشہ وارانہ قابلیت یا تکنیکی مہارت نہیں ہوتی۔کسی ایک محکمے یا شعبے میں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی ترجیحات میں صرف احتجاجی سیاست اور اپنے لیڈر کی رہائی ہے۔ موجودہ وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی خود یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ اس عہدے پر صرف اپنے قائد کی رہائی کے لیے آئے ہیں۔ انہیں صوبے کے ترقیاتی یا انتظامی امور سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ صوبے کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حق دار سے اس کا حق چھین کر غیر مستحق افراد کو دیا جا رہا ہے۔ لمبی لمبی دہاڑیاں لگائی جا رہی ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ مافیا خوف اور دھمکیوں کے ذریعے لوگوں کو خاموش رکھنے میں کامیاب رہتا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر متاثرین سامنے آنے سے بھی کتراتے ہیں۔ عوامی حلقوں نے پشاور پولیس اور اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ انڈر پلے کے اس منظم کاروبار میں ملوث عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے تاکہ مزید لوگ اس تباہ کن کھیل کا شکار نہ بن سکیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت خیبر پختونخوا اور متعلقہ ادارے اس مسئلے کو محض ’’ چند شکایات‘‘ سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ میرٹ میں شفافیت لانے کے لیے عملی اقدام کیے جائیں۔ اس کے لیے مکمل ڈیجیٹل مارکنگ، انٹرویوز کی ویڈیو ریکارڈنگ، تھرڈ پارٹی آڈٹ اور شکایت کنندگان کا تحفظ ضروری ہے۔
اگر آج انڈر پلے مافیا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کی گئی تو کل یہی مافیا ہماری نسلوں کے خواب، اداروں کی ساکھ اور ریاست کے مستقبل کو انڈر پلے کرتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خیبر پختونخوا کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہے گی یا میرٹ کے ساتھ کھڑی ہو گی؟۔





