Column

نیو ائیر: تہذیبی یلغار اور اسلامی شعور

نیو ائیر: تہذیبی یلغار اور اسلامی شعور
تحریر : ثناء اللہ مجیدی
انسانی تاریخ میں وقت کی تقسیم، دنوں اور مہینوں کی تعیین اور سال کی گردش ہمیشہ سے ایک فطری ضرورت رہی ہے۔ مختلف تہذیبوں اور قوموں نے اپنے اپنے عقائد، موسمی حالات اور تمدنی تقاضوں کے مطابق تقاویم وضع کئے۔ کہیں نیا سال بہار کی آمد پر شروع ہوا، کہیں خزاں کے آغاز پر اور کہیں کسی مذہبی یا تاریخی واقعے سے جوڑ دیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودی اپنے مذہبی کیلنڈر کے مطابق مخصوص دنوں میں نئے سال کا استقبال عبادات اور خاص کھانوں کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے بعض خطوں میں لوگ علامتی طور پر پرندے آزاد کرتے اور خیر سگالی کے اظہار تک محدود رہتے تھے۔ برطانیہ اور امریکہ میں بھی طویل عرصے تک یکم جنوری نئے سال کا باقاعدہ آغاز نہیں سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ سترہویں صدی میں گریگورین کیلنڈر کو سرکاری طور پر اختیار کیا گیا اور یوں یکم جنوری کو سالِ نو کی حیثیت مل گئی۔ ابتدا میں یہ محض ایک تقویمی تبدیلی تھی، جس کا مقصد سرکاری اور انتظامی سہولت تھا، نہ کہ کوئی تہذیبی یا اخلاقی جشن۔
لیکن تاریخ کے صفحات یہ بھی بتاتے ہیں کہ انیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی رائل نیوی کے جوان طویل اور تھکا دینے والے بحری سفر میں شدید ذہنی دبائو اور بوریت کا شکار رہتے تھے۔ سمندر کی وسعتوں میں مہینوں قید یہ نوجوان تفریح کے لیے خود ساختہ تقریبات ایجاد کرنے لگے۔ کبھی ایک دوسرے کی سال گرہ منائی جاتی، کبھی جہاز پر موجود پالتو جانوروں یا گھروں کی فرضی سال گرہیں، کبھی ویک اینڈ کے نام پر محفلیں اور کبھی ایسٹر و کرسمس کے اہتمام۔ انہی غیر رسمی اور بے قاعدہ تقریبات کے دوران شیطانی وسوسے نے ایک نئی شکل اختیار کی کہ سال کے اختتام اور نئے سال کی آمد پر بھی ایک بھرپور جشن ہونا چاہیے۔ چنانچہ 31دسمبر کی رات کو ایک جہاز پر تمام افراد اکٹھے ہوئے، شراب نوشی ہوئی، رقص و سرور کی محفل جمی اور ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ پر جام ٹکرا کر ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دی گئی۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے نیو ائیر نائٹ کی بنیاد پڑی۔
ابتدا میں یہ محض چند افراد کی تفریح تھی، مگر آہستہ آہستہ اس کے ساتھ بتیاں گل کرنے، اخلاقی حدود توڑنے اور حیا سوز حرکات کا عنصر شامل ہوتا چلا گیا۔ ایک جہاز سے دوسرے جہاز، پھر ساحل اور بالآخر پورے مغربی معاشرے میں یہ رسم پھیل گئی۔ بڑے شہروں میں نیو ائیر نائٹ فحاشی، عریانی، شراب نوشی اور بے قابو آزادی کی علامت بن گئی۔ یہ محض ایک رات کا جشن نہ رہا بلکہ ایک ایسی ثقافتی یلغار بن گیا جس نے خاندانی نظام، اخلاقی قدروں اور انسانی وقار کو شدید نقصان پہنچایا۔ جدید دنیا کے چکاچوند بھرے اسٹیجز، آتش بازی، موسیقی اور نشے کی محفلوں کے پیچھے دراصل وہی پرانا شیطانی فلسفہ کارفرما ہے جو انسان کو لمحاتی لذت دے کر اس کی روح کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
اسلام کا مزاج اس پورے تناظر میں بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔ شریعتِ مطہرہ نے تہواروں اور خوشیوں کے مواقع کو عبادت، شکر اور اطاعتِ الٰہی کے ساتھ جوڑا ہے۔ اسلام میں صرف دو تہوار ایسے ہیں جو شرعی طور پر مقرر اور مشروع ہیں۔ ایک عیدالفطر، جو روزہ جیسی عظیم عبادت، صبر و ضبط، نفس کی تربیت اور تقویٰ کے عملی امتحان کے بعد عطا کی جاتی ہے۔ دوسری عیدالاضحی، جو حج جیسے عظیم فریضے، قربانی، اطاعت اور ایثار کی روح کے بعد منائی جاتی ہے۔ ان دونوں عیدوں کی بنیاد اللہ کے حکم، رسولؐ کی سنت اور امت کے اجماعی عمل پر ہے۔
نبی کریمؐ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد دیکھا کہ اہلِ مدینہ دو دن بطور تہوار مناتے ہیں، تو فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ‘‘ ( سنن ابی داود) ۔
یہ حدیث واضح اعلان ہے کہ اسلامی تہذیب میں ان دو عیدوں کے علاوہ کسی دن کو مذہبی یا تہواری حیثیت دینا درست نہیں۔
اسلام نہ صرف حرام اور فحاشی سے روکتا ہے بلکہ ان امور سے مشابہت سے بھی منع کرتا ہے جو غیر اسلامی تہذیب کی شناخت ہوں۔
نبی کریمؐ کا فرمان ہے: ’’ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے شمار ہوگا ‘‘ ( سنن ابی داود) ۔
فقہاء نے اس حدیث کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ ایسی رسومات، تقریبات اور تہوار جن کی بنیاد غیر مسلم اقوام کے مذہبی یا تہذیبی شعائر پر ہو، ان میں شرکت یا ان کی تائید مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ جب اسلام نے جائز اور مباح امور میں بھی غیر مسلموں کی مشابہت کو ناپسند فرمایا ہے تو وہ رسم جو شرعاً، عرفاً اور عقلاً ناجائز ہو، اس میں مشابہت کیسے درست ہو سکتی ہے؟۔
نیو ائیر کی موجودہ تقریبات محض ایک دن یا رات کا مسئلہ نہیں رہیں بلکہ پوری دنیا کی ثقافت پر گہرے اثرات چھوڑ رہی ہیں۔ فحاشی، عریانی اور بے حجابی کے جراثیم آہستہ آہستہ نوجوان نسل کی اخلاقیات کو چاٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بے حیائی، آوارگی اور جنسی بے راہ روی کو آزادی اور ماڈرنزم کا نام دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں، جو نظریاتی طور پر ایک اسلامی ریاست کہلاتا ہے، یہ صورتحال مزید تشویشناک ہے۔ ایک طبقہ اپنے من پسند جوڑوں کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ایسی محفلوں کا حصہ بنتا ہے جہاں ایمان اور حیا دونوں دائو پر لگ جاتے ہیں، جبکہ دوسرا طبقہ سڑکوں، چوراہوں اور چوکوں پر آتش بازی، ہوائی فائرنگ اور دیگر خطرناک حرکات کے ذریعے نئے سال کا استقبال کرتا ہے۔ ہر سال اخبارات میں درجنوں اموات اور سینکڑوں زخمیوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں، مگر افسوس کہ یہ سانحات بھی ہمارے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے نیو ائیر منانا، اس پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا، خصوصی کارڈز یا پیغامات بھیجنا سب ناجائز ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف ایک غیر اسلامی رسم کی ترویج ہے بلکہ اس کی تہذیبی تائید بھی ہے۔ اہلِ علم نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس نیت سے مبارک باد دے کہ یہ محض دنیاوی سال کی تبدیلی ہے تو بھی یہ عمل محلِ نظر ہے، کیونکہ عملاً وہ ایک ایسی رسم کو تقویت دے رہا ہوتا ہے جو فحاشی اور گناہ سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر کوئی دوست یا عزیز نیو ائیر کارڈ یا پیغام بھیج دے تو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اسے مسئلہ کی شرعی حیثیت سے آگاہ کیا جائے اور اس رسم سے لاتعلقی کا اظہار کیا جائے، تاکہ حق واضح ہو اور باطل کی تائید نہ ہو۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اسلام وقت کی قدر و قیمت سکھاتا ہے۔
قرآن مجید میں بار بار زمانے کی قسم کھائی گئی: ’’ وَالْعَصْرِ، ِنَّ النْسَانَ لَفِي خُسْرٍ‘‘۔
مومن کے لیے سال کی تبدیلی جشنِ غفلت نہیں بلکہ محاسبہ نفس کا موقع ہونی چاہیے۔ کیا ہم نے گزرے سال کو اللہ کی اطاعت میں گزارا؟ کیا ہماری زندگیاں قرآن و سنت کے قریب ہوئیں یا مزید دور؟ یہی وہ سوالات ہیں جو ایک مسلمان کو نئے سال کے دہانے پر خود سے پوچھنے چاہئیں۔
صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کا طرزِ عمل یہی تھا کہ وہ وقت کے گزرنے کو آخرت کی تیاری کے پیمانے سے ناپتے تھے، نہ کہ آتش بازی اور شور و غوغا سے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تہذیبی یلغار کو پہچانیں اور اسلامی شعور کو بیدار کریں۔ مغرب کی اندھی تقلید ہمیں وقتی خوشی تو دے سکتی ہے، مگر اس کے نتائج اخلاقی زوال، خاندانی انتشار اور روحانی خلا کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ایک زندہ قوم وہ ہوتی ہے جو اپنی اقدار پر فخر کرے، نہ کہ دوسروں کی گندگی کو ترقی کا نام دے کر اپنائے۔ اگر ہم واقعی ایک اسلامی معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ سمجھانا ہوگا کہ عزت، وقار اور خوشی کا اصل سرچشمہ اللہ کی اطاعت میں ہے، نہ کہ نیو ائیر نائٹ کی رنگین مگر کھوکھلی محفلوں میں۔
سال کی تبدیلی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ زندگی محدود ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو ہر آنے والے دن کو اللہ کی رضا کے قریب ہونے کا ذریعہ بنائے۔ یہی اسلامی شعور ہے اور یہی تہذیبی یلغار کا واحد موثر جواب ہے۔

جواب دیں

Back to top button