قیام امن اور پاکستان کا دوٹوک موقف

قیام امن اور پاکستان کا دوٹوک موقف
گزشتہ روز نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جو بیانات دئیے ہیں، وہ پاکستان کی عالمی سطح پر اثر و رسوخ کی نئی سمت کو ظاہر کرتے ہیں۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان حماس کو غیر مسلح کرنے کی کسی کارروائی میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ اس کا مقصد صرف عالمی امن میں حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے اس بیان میں سول اور ملٹری قیادت کی ہم آہنگی کا بھی اشارہ ملتا ہے، جو پاکستان کی پالیسی میں واضح سمت کا تعین کرتی ہے۔ اسحاق ڈار کا موقف اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی تنازعات میں براہ راست مداخلت کرنے کے بجائے امن کے قیام کے لیے معاون کردار ادا کرنے کو ترجیح دے گا۔ اس کے ساتھ اسحاق ڈار نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے متعدد اہم پہلوئوں کی وضاحت کی، جن میں بھارت کے ساتھ تعلقات، افغانستان میں امن اور بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔ اسحاق ڈار نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کی وضاحت کی کہ پاکستان کا اصل مقصد صرف قیام امن میں حصہ ڈالنا ہے اور وہ حماس یا کسی دوسرے گروہ کو غیر مسلح کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ یہ بیان اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک متوازن اور ذمے دار کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستان نے برطانیہ کو ڈیمارش کیا ہے اور بالکل ٹھیک کیا ہے’’ کیونکہ برطانیہ پر دہشت گردوں کے حوالے سے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام تھا۔ پاکستان کا موقف واضح ہے، وہ امن کی کوششوں میں شریک ہوگا، لیکن کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اس طرح پاکستان نے عالمی سطح پر اپنے کردار کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ہمیشہ عالمی برادری سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ جنوبی ایشیا میں قیام امن کی لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 4 دن کا تنازع ایک ایسا موقع تھا، جس میں پاکستان کی افواج نے عالمی سطح پر اپنی طاقت اور حکمت عملی کو دکھایا۔ اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ بھارت نے نور خان ایئر بیس پر حملہ کرکے سپر غلطی کی’’ اور اس کے بعد پاکستان کی افواج نے بھارتی دعوئوں کو پاش پاش کر دیا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے عالمی سطح پر اپنی حکمت عملی کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا، جس کے نتیجے میں بھارت کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔پاکستان کے اس موقف کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے، خاص طور پر امریکا کے صدر نے 60سے زائد بار پاکستان کی فتح کی تصدیق کی۔ اس کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں بھی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسحاق ڈار نے افغانستان کے حوالے سے بھی اہم نکات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے ہزار علما کا کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی نہ کرنے کا فتویٰ خوش آئند ہے۔ یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے
لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ افغانستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ ایک اہم پیش رفت ہے، جو نہ صرف افغانستان کی داخلی صورت حال کو بہتر بنائے گا بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک مثبت علامت ہوگا۔ پاکستان نے اس بات کو یقینی بنایا کہ انسانی بنیادوں پر افغانستان جانے والے یو این کے کنٹینرز کو روکنے کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ اس طرح پاکستان نے عالمی سطح پر اپنے انسان دوست اقدامات کو اجاگر کیا، جو نیک نیتی پر مبنی ہیں۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کی اقتصادی پوزیشن کے حوالے سے بھی اہم باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک ارب کی لائبلیٹی سرمایہ کاری میں تبدیل ہوجائے گی اور یو اے ای کی فوجی فائونڈیشن میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ اس کے ساتھ سعودی عرب اور چین سے حاصل ہونے والی سپورٹ اور سرمایہ کاری بھی پاکستان کی اقتصادی پوزیشن کو مستحکم بنانے میں اہم ثابت ہوئی ہیں۔ پاکستان کے عالمی اقتصادی تعلقات میں بہتری کی ایک بڑی وجہ اس کی سفارتی حکمت عملی ہے، جس میں نہ صرف سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے گئے ہیں بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کی پذیرائی بھی بڑھی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی معاشی طاقت کو مضبوط کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر اپنے موقف کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کیا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ جب تک جموں و کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، خطے میں مستقل امن قائم نہیں ہوسکتا۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جغرافیائی تبدیلیوں کی مذمت کی گئی ہے اور پاکستان نے اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ معاملہ کشمیری عوام کے حق استصواب رائے سے حل ہوگا، جس سے پاکستان کا موقف واضح ہے کہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہونا چاہیے۔اسحاق ڈار نے پاکستان اور بنگلادیش کے تعلقات میں بہتری کو بھی سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال سب سے بڑی پیش رفت بنگلادیش سے متعلق ہوئی۔ پاکستان نے بنگلادیش کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں اور اس بات کا عزم کیا ہے کہ انتخابات کے بعد بنگلادیش کے ساتھ مزید تعمیری بات چیت کی جائے گی۔ اسحاق ڈار کے بیانات اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہونے والی حالیہ پیشرفتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک طاقتور اور متوازن کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان نے نہ صرف اپنے دفاعی شعبے میں کامیاب حکمت عملی اپنائی ہے، بلکہ اقتصادی میدان میں بھی عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کیا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے عالمی سطح پر امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی خارجہ پالیسی میں اس بات کا عزم پایا جاتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستان کا یہ نیا وژن عالمی سطح پر اس کی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔
یورپ: پاکستانیوں کیلئے روزگار کے دَ ر وا
وزارتِ سمندر پار پاکستانیز و ترقی انسانی وسائل کی خصوصی کوششوں سے پاکستانی محنت کشوں کے لیے اٹلی میں روزگار کے دروازے کھل گئے ہیں۔ اٹلی نے پاکستان کے لیے روزگار کا کوٹہ مختص کر کے یورپ میں پاکستانی ورک فورس کے لیے ایک نیا راستہ کھولا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستانی محنت کشوں کے لیے نئی امید ہے بلکہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے بھی اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ اٹلی نے پاکستان کے لیے تین سال کے دوران 10500روزگار کے مواقع مختص کیے ہیں۔ اس میں ہر سال 3500پاکستانیوں کو سیزنل اور نان سیزنل بنیادوں پر روزگار حاصل ہوگا۔ اس میں 1500پاکستانیوں کو سیزنل اور 2000پاکستانیوں کو نان سیزنل نوکریاں ملیں گی۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جس کا فائدہ پاکستانی ہنرمند اور نیم ہنرمند ورک فورس کو ہوگا، خصوصاً وہ لوگ جو شپ بریکنگ، ہاسپٹلٹی، ہیلتھ کیئر اور زراعت کے شعبوں میں کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز چودھری سالک حسین کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اٹلی نے پاکستان کے لیے یہ روزگار کوٹہ الاٹ کیا۔ ان کی جانب سے اٹلی سے خصوصی درخواست کی گئی تھی، جس کو منظور کیا گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے محنت کشوں کو عالمی سطح پر باعزت روزگار فراہم کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ پاکستانی محنت کشوں کے لیے یہ نیا قدم اہم پیش رفت ہے۔ اٹلی کی جانب سے ویلڈرز، ٹیکنیشنز، شیف، ویٹرز، ہائوس کیپنگ اسٹاف، نرسنگ، میڈیکل ٹیکنیشنز اور فارمنگ کے شعبوں میں روزگار کی فراہمی پاکستانی محنت کشوں کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ یہ قدم پاکستانی حکومتی اقدامات کا حصہ ہے، جس میں عالمی سطح پر پاکستانی ورک فورس کے لیے نئے دروازے کھولنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چودھری سالک کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور پاکستان کے محنت کشوں کے لیے خوش آئند خبر ہے۔ اٹلی کے اس اقدام کے بعد دیگر یورپی ممالک سے بھی امید کی جارہی ہے کہ وہ پاکستانی ورک فورس کے لیے اپنے دروازے کھولیں گے۔ اس کے ساتھ پاکستان اور اٹلی کے درمیان جوائنٹ ورکنگ گروپ کا دوسرا اجلاس فروری 2026 ء میں اسلام آباد میں منعقد ہوگا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان ورک فورس کے حوالے سے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ خوش آئند پیش رفت نہ صرف پاکستانی محنت کشوں کے لیے سنہری موقع ہے بلکہ اس سے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ اور معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس اقدام سے پاکستانی ورک فورس کی مہارت اور کام کی صلاحیت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جائے گا، جس سے ملکی معیشت کی مضبوطی میں مدد ملے گی۔ اٹلی کے ساتھ اس معاہدے کا طے پانا مثبت قدم ہے جسے محنت کشوں کی فلاح کے لیے سنگِ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر یہی اقدامات دیگر یورپی ممالک میں بھی کیے جائیں تو پاکستان کی ورک فورس کو عالمی سطح پر نئی پہچان ملے گی اور اس سے معیشت میں واضح بہتری آئے گی۔





