Column

جال

جال
کالم : بزمِ درویش
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
دسمبر کا درمیان آ چکا تھا، موسم سرما اپنے جوبن پر، سورج دیوتا بادلوں کے اس پار گہری نیند سو گیا تھا۔ مسلسل ابر آلود موسم، برفیلی ہوائیں، پہاڑی علاقوں میں مسلسل برفباری کی وجہ سے پورا ملک برفیلی ہوائوں کی وجہ سے ٹھنڈا ٹھار یخ برفشاں بن چکا تھا۔ شہر لاہور بھی مسلسل بارشوں اور برفیلی ٹھنڈی ہوائوں کی وجہ سے منفی سینٹی گریڈ کے قریب آگیا، شام ڈھلتے ہی انسان، چرند پرند، جانور گھروں، کونوں کدروں میں دبک جاتے، تاکہ منفی درجہ حرارت کی جان لیوا ٹھنڈ سے بچ سکیں۔ پہلے لوگ موسم سرما میں دسمبر کا انتظار کرتے تھے، لیکن اِس بار کی سردی تو جان لیوا ہو گئی تھی، اتنی شدید سردی انجوائے کر نے والی نہیں، بلکہ جان بچانے والی تھی۔ میں بھی حسب معمول شام ڈھلنے سے پہلے ٹھنڈ ے ٹھار لاہور کی کینال سڑک پر گھر کی طرف گامزن تھا۔ بوندا باندی، آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا، تیز ٹھنڈی ہوائیں، آرام د ہ گاڑی میں حرارت آمیز ہیٹر آن تھا، جس کی گرما گرم ہوا ہمارے جسموں کو زندگی بخش حرارت کا فیض بانٹ رہی تھی۔ شدید سردی سے بچائو کے لیے میں اور میرے دوست نے راستے سے گرما گرم کافی کے مگ بھی پکڑ لئے تھے، اب ہم ہاتھوں میں مزے دار گرما گرم تلخ و شیریں کا فی کے سپ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ گاڑی کا حرارت آمیز ماحول اور حلق میں اترتی گرما گرم مزے دار کافی نے اچھا ماحول بنا دیا تھا۔ ہمارے جسم اب سردی کا اچھے طریقے سے مقابلہ کرتے نظر آرہے تھے، کافی کے گرما گرم چند گھونٹ لینے کے بعد اعصاب و عضلات نارمل ہو گئے تھے، اب میں اچھے موڈ میں اطراف کی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا، جیسے ہی ہم انڈر پاس سے نکلے اور راستہ کشادہ ہوا تو کسی امیر زادے کی پراڈو، پیچھے گن مینوں کا ڈالا گزرا، امیر زادے کی رفتار اور انداز بتا رہے تھے کہ وہ اِس شہر اور سڑک کا اکلوتا مالک ہے، جیسے ہی پراڈو میرے پاس سے گزری تو فرنٹ سیٹ پر نسوانی جوان چہرہ دیکھ کر میرے بدن میں تو شاید آگ ہی لگ گئی، جوان لڑکی کا خوبصورت چہرہ آتش فشاں کے گو لے کی طرح پھٹا۔ لڑکی اور میری آنکھوں کا ایک لمحے کے لیے ٹکرائو ہوا، مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر حیرت و پریشانی، پھر شرمندگی کے گہرے رنگ پھیلتے چلے گئے، مجھ سے نظریں چار ہو نے سے پہلے اس کے چہرے پر قہقہوں کی موسلا دھار بارش برس رہی تھی، لیکن مجھے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی تھی، اِسی دوران پراڈو اور گن مینوں کا ڈالا تیزی سے آگے نکل گیا۔ گاڑیاں تو گزر گئیں، لیکن میں اپنی سیٹ کے کو نے پر آکر انہیں دور جاتا دیکھتا رہا، میرا یہ ری ایکشن میرے دوست کے لیے حیران کن تھا، وہ حیران و پریشان نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا، وہ سمجھ رہا تھا شاید امیر زادہ بدتمیزی سے گزرا ہے، اِس لیے میں پریشان ہو گیا ہوں، جب کہ سچ گاڑیاں نہیں، بلکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی لڑکی تھی، لڑکیاں تو ہر دوسری گاڑی میں ہو تی ہیں، لیکن یہ تو ناز تھی ( فرضی نام ) اور میں ناز کو جانتا تھا، جو مجھ سے ملنے بھی آتی رہی تھی۔ جب میرے پاس آتی تھی تو بہت سادہ اور شریفانہ لباس میں، اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بلا کی حسین تھی، لیکن آج تو اس کا انداز ہی بدلا ہوا تھا، آج اس نے اپنے بالوں کو سنہرا کلر کروا کر ڈیزائن دار بنایا ہوا تھا، آنکھوں میں گرین لینز اور چہرے پر تیز میک اپ اور ہونٹوں پر شوخ لپ سٹک۔ حسن کو وہ بطور ہتھیار استعمال کر رہی تھی، ناز کو دیکھ کر میں غصے کی آگ میں جھلسنے لگا، لیکن پھر یہ آگ مدہم پڑتی گئی۔ اب غصے کی جگہ پچھتاوا اور شرمندگی میری رگوں میں ڈورنے لگی۔ میں غصے اور شرمندگی کے جھولے جھولتا گھر آگیا۔ کھانا کھایا، نئی کتاب پڑھنا شروع کی، اپنی شروع کی ہوئی کتاب لکھنے کی کو شش کی، لیکن اعصاب و دماغ بو جھل تھے، کوئی بھی کام کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ اب میری شرمندگی اور پچھتاوا احساس ندامت میں بدل گیا تھا کہ ناز آج اگر اِس مقام پر ہے تو اِس میں میرا بھی پورا قصور ہے، کیونکہ وہ مدد مدد پکارتی میرے پاس بھی آئی تھی، جب میں نے بھی اس کی مدد نہ کی تو مجبورا اسے یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ ندامت کی آنچ میری ہڈیوں کے گودے تک پہنچنے لگی تو میں صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر اس ملاقات کو یاد کر نے لگا جب ناز پہلی بار میرے پاس میرے آفس آئی تھی، وہ سر کاری محکمے میں گریڈ 11کی ملازم تھی، اس کا باس اس سے کسی بات پر ناراض ہو گیا تھا، اس نے غصے میں آکر تبادلہ پنجاب کے دور دراز علا قے میں کر دیا تھا۔ اب وہ بیچاری اپنی ٹرانسفر کینسل کرانے کے چکر میں اِدھر ادھر ہاتھ پائوں مارتی ہوئی میرے پاس آگئی تھی کہ کوئی وظیفہ بتائیں کہ اس کا تبادلہ رک جائے۔ میں نے وظیفہ بتا دیا، اِس سلسلے میں وہ تین، چار بار میرے پاس آئی، آخری ملاقات میں اس نے ایسی بات کر دی کہ میں نے اسے اپنے پاس آنے سے منع کر دیا کہ دوبارہ زندگی میں کبھی میرے پاس نہ آئے۔ مجھے آج بھی آخری ملاقات یاد ہے، جب وہ آئی اور کہنے لگی سر آج میں نے تنہائی میں آپ سے ملنا ہے، اور پھر تنہائی میں جب اس نے کہا سر آپ مجھ سے دوستی کر لیں، مجھے اپنی keepبنا لیں،، اِس کے بدلے میں میری مدد کر دیں۔ اس کی بات سن کر مجھے لگا اس نے میرے منہ پر تیزاب پھینک دیا ہو، میری رگوں میں بچھو دوڑنے لگے، میں اس کی جرات اور بے باکی پر حیران تھا، اس کو خوب ڈانٹا اور کہا چلی جائو۔ جاتے جاتے وہ کہہ گئی سر اِس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے کسی طاقتور انسان کا دست شفقت چاہیے ہوتا ہے، ورنہ بھیڑیوں کا یہ معاشرہ میرے جیسی بے آسرا بچیوں کو ادھیڑ دیتا ہے۔ اِن بھیڑیوں سے بچنے کے لیے کسی طاقتور کی نو کری کر نا پڑتی ہے، آپ کے پاس میں نے معاشرے کے بااثر منسٹر، بیوروکریٹ دیکھے تو اِس لیے آپ کو دوستی کی آفر کی کہ آپ میری مدد کر دیا کریں گے، ورنہ خونخوار درندے مجھے اِس معاشرے میں جینے نہیں دے رہے، جہاں نوکری کرتی ہوں، وہاں میرا باس اپنی ناجائز خواہش کی تکمیل کے لیے تنگ کرتا رہا، جب میں نے بات نہیں مانی اس نے میری ٹرانسفر کر دی، اب وہ پیغام بھیجتا ہے میرے بستر تک آجائو تبادلہ بھی رک جائے گا اور دوبارہ کبھی تمہیں تنگ نہیں کروں گا، نوکری بھی تم شہزادیوں کی طرح کرو گی۔ بھٹی صاحب میں نے شریفانہ زندگی کو ترجیح دی تو اس نے میرا تبادلہ کرا دیا، میں اور میرے جیسی بے آسرا لڑکیاں اِن سرکاری دفتروں میں جب تک جنسی کھلونا نہیں بنتیں، آرام سے نوکری نہیں کر سکتیں۔ میرے ماں باپ مر چکے ہیں، میں اور میری دو بہنیں زندہ ہیں، جن کی کفالت میں کر تی ہوں، محلے میں بھی اوباش لڑکے بے آسرا سمجھ کر تنگ کرتے ہیں۔ پاکستان کے سارے شہروں میں مجھ جیسی لڑکیاں ہر موڑ، محلے، گلی میں مدد مدد پکارتی ہیں، لیکن سارے کوفی بن چکے ہیں، جہاں زینب کی پکار کوئی بھی سننے والا نہیں۔ ہمارے شہر موہنجودڑو ،ہڑپہ بن چکے ہیں، جہاں موت، بے حسی کا راج ہے، جہاں پر بے آسرا لڑکیاں نازک پھولوں کی طرح کچلی جاتی ہیں، کوئی ہماری آواز سننے والا نہیں ہے، مدد کا ہر دروازہ، کھڑکی بند ہے، آپ کو نیک انسان سمجھ کر مدد کی بھیک مانگی، آپ بھی عام انسانوں جیسے نکلے، پھر ناز چلی گئی اور جاکر کسی طاقتور کی keepبن گئی، تاکہ درندوں کے اِس معاشرے میں زندہ رہ سکے۔ میری رگ رگ پور پور ندامت کی آگ میں جھلس رہی تھی، پھر میں نے ایک فیصلہ کیا اور سو گیا، اگلے دن میں ناز کو مسیج کیا کہ بیٹا ایک بار آکر مل جائو، مجھے تم سے بات کر تی ہے، تو اگلے دن وہ میرے سامنے بیٹھی تھی، وہ شرمندہ شرمندہ سی تھی، اس کی مدد کے لیے میں اپنے بڑے بیوروکریٹ سے بھی مستقل مدد کر وعدہ لے چکا تھا، میں بولا ناز تم نے جو آفر کی تھی میں آج وہ قبول کرتا ہوں، لیکن رشتہ میں طے کروں گا، آج سے تم میری بیٹی ہو، میں اپنی بیٹی کی طرح تمہاری دیکھ بھال کروں گا اور اِس مدد میں فلاں سرکاری آفیسر بھی شامل ہے، اب تمہیں جب بھی ضرورت ہو گی ہم دونوں باپ بن کر تمہاری مدد کریں گے، میری بات سن کر ناز حیران ہوئی، پھر اس کے چہرے پر خوشی کے قوس قزاح کے رنگ بکھرتے چلے گئے اور آنکھوں میں تشکر کے موتی جھلملانے لگے۔ ناز شکریہ کر کے چلی گئی کہ توبہ کبھی غلط راستے پر جائوں، لیکن اس کے جانے کے بعد بھی میرا سانس گھٹ رہا تھا کہ پتہ نہیں آج بھی ناز جیسی کتنی لڑکیاں اپنی بقا کے لیے کسی طاقتور کے سامنے دوستی کی آفر کر رہی ہوں گی، پتہ نہیں کب و ہ عادلانہ نظام آئے گا جہاں ایسی بے کس لڑکیوں کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button