Column

اندھا بانٹے قومی اثاثے

اندھا بانٹے قومی اثاثے
تحریر: یاسر دانیال صابری
یہ کوئی ایک دن کی کہانی نہیں، نہ ہی کسی ایک حکومت کا قصور ہے۔ یہ ایک مسلسل چلنے والا سانحہ ہے جو نسل در نسل اس ملک کے مقدر سے کھیلتا آ رہا ہے۔ کبھی قومی مفاد کے نام پر، کبھی اصلاحات کے پردے میں، اور کبھی خسارے کا خوف دکھا کر ہمارے اجتماعی اثاثے یوں بانٹے جا رہے ہیں، جیسے یہ کسی فردِ واحد کی ذاتی جاگیر ہوں۔ آج اگر کوئی شہری یہ کہے کہ حکمرانوں نے ملک پر ’’ پاکستان برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگا دیا ہے تو شاید وہ مبالغہ نہیں کر رہا بلکہ ایک تلخ حقیقت بیان کر رہا ہے۔
یہاں سب سے پہلا سوال نیت کا نہیں، انصاف کا بنتا ہے۔ کیا ریاست صرف عوام کے لیے قربانی کا تقاضا رکھتی ہے؟ کیا کفایت شعاری، خسارہ، دیوالیہ پن اور اصلاحات صرف قومی اداروں کے حصے میں آتی ہیں؟ صدر، وزیراعظم، وزراء اور اشرافیہ کے ذاتی کاروبار آخر کیوں ہر بحران سے محفوظ رہتے ہیں؟ ان کے پراجیکٹس کبھی خسارے کا شکار کیوں نہیں ہوتے؟ اگر ہوتے بھی ہیں تو کیا انہیں بھی اسی طرح نیلام کر دیا جاتا ہے جیسے پی آئی اے، اسٹیل مل، پی ٹی سی ایل یا دیگر قومی اداروں کو کیا گیا؟
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قومی ادارے خسارے میں ہیں، یہ ریاست کے لیے بوجھ بن چکے ہیں، اس لیے ان کا فروخت ہونا ناگزیر ہے۔ مگر یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ انہیں خسارے میں کس نے ڈالا؟ کیا جہاز خود خسارے میں اڑے؟ کیا ریلوے کی پٹریاں خود زنگ آلود ہوئیں؟ یا ان اداروں کو سیاسی بھرتیوں، نااہل انتظامیہ، کرپشن اور ذاتی مفادات کی نذر کیا گیا؟ اگر ایک مریض کو غلط علاج سے بسترِ مرگ تک پہنچا دیا جائے تو قصور مریض کا نہیں، حکیم کا ہوتا ہے۔ مگر یہاں حکیم خود مریض کو بیچنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
پی ٹی سی ایل کی نجکاری اس ملک کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جسے آج بھی پوری طرح بند نہیں کیا جا سکا۔ بڑے دعوے کیے گئے، سنہری خواب دکھائے گئے، کہا گیا کہ اس سودے سے پاکستان جدید ٹیلی کمیونیکیشن کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ مگر آج دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سوال وہیں کھڑا ہے کہ ادائیگیاں مکمل کیوں نہ ہو سکیں؟ شرائط کیوں پوری نہ ہوئیں؟ قومی خزانے کو جو فائدہ ہونا تھا وہ کہاں گیا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معاہدے کے ذمہ داران کا احتساب کیوں نہ ہوا؟ اگر یہ کسی عام شہری کا جرم ہوتا تو شاید اب تک کئی سزائیں سنائی جا چکی ہوتیں، مگر یہاں معاملہ ’’ قومی مفاد‘‘ کے نام پر دفن کر دیا گیا۔
آج پی آئی اے کی باری ہے، کل کسی اور ادارے کی ہوگی۔ ہر بار اسکرپٹ وہی، اداکار بدل جاتے ہیں۔ پہلے ادارے کو مسلسل نقصان میں دکھایا جاتا ہے، اس کی ساکھ کو عوام کی نظر میں مشکوک بنایا جاتا ہے، پھر کہا جاتا ہے کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسے نجی ہاتھوں میں دے دیا جائے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعی کوئی چارہ نہیں؟ یا چارہ صرف اس لیے نظر نہیں آتا کہ اس میں محنت، دیانت اور خود احتسابی درکار ہے؟
یہ بھی ایک عجیب تماشا ہے کہ جو لوگ قومی اداروں کو چلاتے ہیں، وہی ان کی ناکامی کا جواز بنا کر انہیں بیچنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی وزیر یا مشیر اپنی ذمہ داری میں ناکام ہو تو کیا وہ خود استعفیٰ دیتا ہے؟ کیا اسے بھی یہ کہہ کر ہٹا دیا جاتا ہے کہ وہ بوجھ بن چکا ہے؟ نہیں، وہاں تو مدت پوری ہوتی ہے، مراعات ملتی ہیں، اور ناکامی کو بھی کامیابی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نجکاری سے کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے، مگر کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اگر نیت لوٹ مار کی ہو تو نجی ہاتھوں میں جا کر بھی ادارے عوام کے لیے مہنگے اور ناقابلِ رسائی ہو جاتے ہیں۔ بجلی، گیس، مواصلات سب مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ قیمتیں بڑھتی گئیں، سہولتیں کم ہوتی گئیں، مگر منافع مخصوص جیبوں میں جاتا رہا۔ ریاست نے ہاتھ کھڑے کر دئیے اور عوام کو بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا قومی اثاثے صرف مالی حساب کتاب کا معاملہ ہوتے ہیں؟ کیا پی آئی اے صرف ایک ایئر لائن ہے، یا یہ پاکستان کی شناخت، وقار اور خود اعتمادی کی علامت بھی ہے؟ کیا ریلوے صرف پٹریوں اور انجنوں کا نام ہے، یا یہ عوام کی سستی اور محفوظ سفری ضرورت کا ذریعہ بھی ہے؟ مگر ہمارے پالیسی ساز شاید ان پہلوں کو اہم ہی نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کے لیے ریاست ایک کاروبار ہے اور عوام محض صارف۔ یہاں فیصلے ہمیشہ بند کمروں میں ہوتے ہیں اور عوام کو بعد میں بتایا جاتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ نہ پارلیمان میں سنجیدہ بحث، نہ شفاف معلومات، نہ عوامی رائے کی کوئی قدر۔ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے حکمران خود کو قوم کا وکیل تو کہتے ہیں مگر موکل سے پوچھنا گوارا نہیں کرتے۔
اگر واقعی نیت اصلاح کی ہوتی تو سب سے پہلے احتساب شروع ہوتا۔ وہ افسران، سیاستدان اور مافیا کٹہرے میں کھڑے ہوتے جنہوں نے ان اداروں کو لوٹا، کمزور کیا اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ پیشہ ورانہ انتظامیہ لائی جاتی، سیاسی مداخلت ختم کی جاتی، اور اداروں کو وقت دیا جاتا کہ وہ اپنے پاں پر کھڑے ہو سکیں۔ مگر یہ راستہ مشکل ہے، اس میں طاقتور حلقوں کے مفادات متاثر ہوتے ہیں، اس لیے آسان راستہ چنا جاتا ہے: فروخت۔
اندھا بانٹے قومی اثاثے یہ محض ایک فقرہ نہیں بلکہ اس پورے نظام کی عکاسی ہے جہاں نہ بینائی ہے، نہ احساس، نہ جواب دہی۔ اگر یہی روش جاری رہی تو ایک دن واقعی کچھ بھی بیچنے کو نہیں بچے گا۔ تب شاید حکمرانوں کے پاس یہ کہنے کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا کہ حالات ایسے ہی تھے۔ مگر آنے والی نسلیں یہ نہیں مانیں گی۔ وہ پوچھیں گی کہ جب سب کچھ تمہارے پاس تھا تو تم نے سنبھالا کیوں نہیں؟ تم نے اصلاح کیوں نہ کی؟ تم نے بیچنے کے سوا کچھ سوچا کیوں نہیں؟
یہ وقت ابھی بھی ہاتھ سے پوری طرح نہیں نکلا۔ اگر نیت ہو، تو قومی اثاثے بچائے جا سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے اندھا بانٹنے کے بجائے دیکھ کر، سوچ کر اور قوم کو ساتھ لے کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ورنہ تاریخ کا فیصلہ بہت بے رحم ہوتا ہے، اور وہ کسی عذر کو قبول نہیں کرتی۔

جواب دیں

Back to top button