محترمہ بے نظیر کی شہادت اور عصر حاضر کے تقاضے

محترمہ بے نظیر کی شہادت اور عصر حاضر کے تقاضے
تحریر: سید مشرف کاظمی
جب جنرل مشرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی بات چیت شروع ہوئی تو اسے مشرف کے ساتھ ڈیل کا نام دیا گیا، مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ اور نظریہ یہ تھا کہ اگر اس ڈیل کے بدلے میں سیاسی قیدیوں کو رہائی مل جاتی ہے اور جلاوطن سیاسی رہنما اور قیادت ایسی ڈیل کے بدلے پاکستان واپس آسکتی ہے تو مشرف کے ساتھ ڈائیلاگ بے معنی اور گھاٹے کا سودا نہیں۔ جب محترمہ کے ساتھ ڈائیلاگ کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، ان کے خاندان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کو جیل اور جلاوطنی سے رہائی نصیب ہوئی تو قومی اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود تمام تجزیہ کار محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت پر لکھنے پر مجبور ہوگئے۔ بلاشبہ محترمہ سیاسی دائو پیچ سے بخوبی آگاہ تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ وطن عزیز کو ایک ایسی سیاسی جماعت ہی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے جس کی جڑیں عوام میں مضبوط ہوں اور تمام صوبوں کو ایک سیاسی لڑی میں پرونے کے فن سے بھی آشنا ہو۔
مذکورہ بالا تمام مہارتوں، سیاسی بصیرت سے مالا مال محترمہ جب 27دسمبر2007ء میں سیاسی کمپین میں اتریں تو اس کے راستے میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑ ی تھیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ دہشتگردی کا طوفان تھا، ملک کا چپہ چپہ دہشتگردی سے متاثر تھا۔ مذہبی جلوس، محراب و منبر ، مزارات، سیاسی جلسے حتی کہ قومی تنصیبات بھی دہشتگردوں کے نشانے پر تھیں۔ دہشتگردوں کے ہاتھوں کسی بھی مکتبہ فکر کے افراد محفوظ نہ تھے۔ جرنیلوں سے لے کر سفارتکاروں تک کوئی بھی محفوظ نہ تھا۔ ایسے حالات میں محترمہ کے لیے سیاسی کمپیئن شرو ع کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔
آج دختر مشرق اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر شہید بھٹو کا یوم شہادت منایا جارہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کے سلسلے میں ملک کے چھوٹے، بڑے تمام شہروں میں تعزیتی سمینار منعقد کئے جائیں گے۔ جن میں مقررین پاکستان اور جمہوریت کیلئے محترمہ کی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جاتے تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وطن عزیز میں کبھی بھی جمہوری پودے کو پروان چڑھنے نہیں دیا گیا۔ کرپشن، اقربا پروری کا الزام لگا کر متعدد بار عوام کے منتخب نمائندوں کو گھر کی راہ دکھائی گئی۔ اگر بات گھر تک محدود رہتی تو شاید پاکستان کی جگ ہنسائی اس قدر نہ ہوتی، یہاں تو عوام کے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، کس جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی سب خاموش ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو نے جہاں نئی تاریخ رقم کی وہیں، ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو بھی سیاسی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب رہیں۔ پی پی نمائندہ جماعت بن کر ابھری، جس کے بعد بھٹو خاندان جمہوریت دشمنوں کے خلاف سیاست میں جدوجہد کا آغاز کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہا، دیکھتے ہی دیکھتے بین الاقوامی سطح پر اس خاندان کی سیاست کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے سبب ایک جرم سمجھا جانے لگا اور نادیدہ طاقتیں اس خاندان کو مٹانے کے لیے سر گرم عمل ہو گئیں۔ پہلے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو ناکردہ جرم میں سزائے موت سنا دی گئی۔ انہیں اس بات کا موقع بھی دیا گیا کہ وہ معافی نامہ داخل کریں اور آمر ضیا کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے نئی طرز کی کٹھ پتلی سیاست کریں۔ اس عظیم ہستی نے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دی اور پھانسی کے پھندے کو جھول کر امر ہو گئی۔ اس کے بعد بھی اس خاندان کے اندر اصولوں کی سیاست کے نام پر شہادتوں کا سلسلہ جاری رہا، جس کے تحت 18جولائی 1985ء کو شاہنواز بھٹو کو زہر دے کر قتل کیا گیا تو دوسری طرف میر مرتضیٰ بھٹو کو 20ستمبر 1996ء کو اپنی بہن کے دور اقتدار میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو جو صدمات جھیل جھیل کر بے حال ہو چکی تھیں، وہ دبئی کے ہسپتال میں وفات پا گئیں۔ 27دسمبر 2007ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جسے تاحیات فراموش نہیں کیا جا سکے گا، جیسے ہی بے نظیر بھٹو جلسہ گاہ سے باہر آئیں ظالم قوتوں کا نشانہ بن گئیں، چند گھٹنے بعد چاروں صوبوں میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جانے لگی، جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے، مگر جب سابق صدر آصف علی زرداری اپنے بچوں بلاول بھٹو زرداری، بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کے ساتھ پاکستان پہنچے تو انہوں نے اپنا غم بھلا کر عوام کا غم باٹنا شروع کر دیا۔ ایسے میں آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کو بچا لیا، جس کے بعد ملک کے اندر جمہوریت بحال ہوئی۔ آصف علی زرداری نے صدارتی منصب سنبھال کر آئینی مدت پوری کرنے والے پہلے صدر پاکستان کا اعزاز بھی حاصل کیا، لیکن ان کا یہ اعزاز اور ملک میں جمہوریت کی بحالی بینظیر بھٹو کی قربانی کے مرہون منت تھی۔
بینظیر بھٹو شہید کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک غمزدہ ماحول میں ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے کہ انہیں ہم سے جدا ہوئے 18سال بیت گئے، انہیں 27دسمبر 2007ء کو ایک حملے میں شہید کر دیا گیا تھا اور وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں، جیالوں اور دنیا بھر میں پھیلے اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئیں۔ اپنی شہادت کے دن انہوں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک بہت بڑے عوامی جلسے سے خطاب کیا تھا۔ وہ اپنے جلسے کی کامیابی پر بہت خوش تھیں۔ جلسہ ختم ہوا تو اپنی گاڑی پر جلسہ گاہ سے رخصت ہوئیں، اس دوران وہ گاڑی کا بالائی حصہ کھول کر کھڑی ہو گئیں تاکہ اپنے مداحوں کے نعروں کا جواب دے سکیں۔ ابھی انہوں نے اپنا سر باہر نکالا ہی تھا کہ ان پر اچانک سے فائرنگ ہوئی اور خود کش دھماکہ ہو گیا، وہ گرگئیں، ان کے سر پر بہت شدید چوٹیں آئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ اس حملے میں وہ اس قدر زخمی ہو گئیں کہ انہیں بچایا نہ جا سکا۔ اس طرح پاکستان کی سیاست کا ایک بہت بڑا کردار اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
محترمہ کی زندگی کے باب کا خاتمہ اس قدر جلد ہو جائے گا ایسا نہ تو ہماری قومی سیاست کے گمان میں تھا اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور اس کے کارکن جیالے کبھی سوچ سکتے تھے کہ وہ ان کی قیادت سے محروم ہو جائیں گے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے ایوان سے جیل منتقل ہوتے دیکھا اور ان کی پھانسی کے بعد دلیری اور بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بھی جیل بھی کاٹی اور مقدمات کا سامنا بھی کیا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی نظریے اور عوامی خدمت کا مشن لے کر انتخابی میدان میں اتریں تو عوام نے بھٹو کی بیٹی کو پر جوش انداز میں خوش آمدید کہا۔ ان کی شخصیت کے تمام پہلو شاندار تھے، وہ اعصابی طور پر توانا، دراز قامت، انتہائی خوش شکل اور مانوس چہرے والی خاتون تھیں، ان کی خود نوشت Daughter of the eastکے فلیپ پر لکھے’’ خوبصورت اور کرشماتی شخصیت کی مالک محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف بعد از نو آبادیاتی اسلامی ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے والی پہلی خاتون ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان اور پاکستان سے باہر کی دنیا میں ایک شہزادی کا رتبہ بھی حاصل کر لیا‘‘۔
محترمہ بینظیر بھٹو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے ہمارے جدید عہد کی ایک بہت بڑی سیاسی لیڈر ہی نہیں بلکہ لیڈر شپ کا رول ماڈل تھیں۔ انہوں نے عوام میں اپنی مقبولیت کا عروج دیکھا، عوام نے انہیں ٹوٹ کر چاہا اور ان پر اپنی جانیں نچھاور کر دیں، جواب میں انہوں نے بھی اپنی زندگی کی آسود گیوں کو ایک طرف رکھ دیا اور عوام کے حقوق، جمہوریت اور سول بالادستی کی جدوجہد کو مقصد بنایا۔ ان کے تین بچے ہیں، جن کی انہوں نے اعلیٰ درجے کی تربیت کی، وہ بہترین ماں، مثالی بہن اور وفا شعار شریک حیات تھیں، ایک بیٹی کی حیثیت سے وہ ایسی اولاد تھیں جس پر اس کا باپ اور ماں فخر کر سکیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو قائد عوام کی بیٹی تھیں، جو اسلامی بلاک اور تیسری دنیا کی اقوام کے لیڈر تھے۔ جنہوں نے پاکستان میں عوام کی سیاست کو رواج دیا اور وطن عزیز کے اقتدار اعلیٰ میں ان کو شراکت دار بنایا۔ عوام میں بھٹو صاحب کی پذیرائی نے انہیں ایک ایسا مقام عطا کر دیا تھا جس کا ان کے ہم عصر سیاستدان تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ایک پرکشش اور خوبصورت شخصیت تھے۔ اپنے طرز فکر کے حوالے سے ان کا وژن بہت بڑا تھا اور قومی سیاست کو عالمی تناظر میں دیکھتے تھے۔ ان کی موت جن حالات میں ہوئی اس کی ایک علیحدہ تاریخ ہے، جو متنازعہ بھی ہے اور المناک تھی۔ جس نے پاکستان کی قومی سیاست کے لیے بھیانک نتائج مرتب کئے، جن کا تسلسل آج بھی جاری و ساری ہے اور عام آدمی آج بھی ایسا سمجھنے سے قاصر ہے کہ بھٹو کی جان لینے سے قوم اور ملک کو کیا فائدہ حاصل ہوا۔ بظاہر یہ سمجھ لیا گیا کہ بھٹو کو ختم کرکے پیپلز پارٹی اور عوام کی سیاست کا بھی خاتمہ کر دیا گیا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بھٹو صاحب پر جب ایک شخص کے قتل کے الزام کا مقدمہ عدالتوں میں زیر سماعت تھا تو صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور ایک گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد عدالتوں کے ذریعے ایک عوامی لیڈر کو موت کی سزا دینا ہے۔ ان حالات میں بینظیر بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کچھ عناصر سازش کرکے ایسا سمجھتے ہیں کہ قائد عوام کی زندگی کو ختم کرکے عوام کو ان کی قیادت سے محروم کیا جا سکتا ہے تو وہ شائد بھول رہے ہیں کہ عوام کو قیادت سے کبھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو قیادت ہم دیں گے اور بیگم نصرت بھٹو قیادت کے خلا کو پورا کرنے کے لیے سیاست میں آئیں گی اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی رہنمائی کریں گی۔ اگر انہیں بھی راستے سے ہٹانے کی سازش کی گئی تو عوام اسے قبول نہیں کریں گے اور اس کی مزاحمت کریں گے۔ جس کی قیادت میں خود کروں گی، لیکن ہم طالع آزمائوں کو خبردار کر دینا چاہتے ہیں کہ میرے بعد میرے دو بھائی ہیں اور آخر میں ہماری ایک بہن ہے اور ہم عوام کے پاس جائیں گے، لیکن اگر وہ تصور کرتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی ہمارے خاندان کے تمام لوگوں کو ختم کرکے عوام کی مزاحمت اور حقوق کی جدوجہد کو ختم کیا جا سکتا ہے تو ایسا کبھی ممکن نہیں ہو گا، کیونکہ پھر عوام میں سے کوئی اٹھے گا اور لوگوں کے ہجوم اس کے ساتھ ہوں گے، جو حکمرانوں سے بھٹو خاندان کے خون کا حساب مانگیں گے اور ان کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔
بینظیر بھٹو نے ایسا اس وقت کہا تھا جب ان کی عمر بہت کم تھی اور ہماری عدالتیں ان کے والد کی زندگی کے فیصلے کر رہی تھیں۔ پھر تاریخ ایسے مناظر کو نہیں بھول سکے گی جب گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے بھٹو کی قبر بنی اور ان کے بعد وہ المناک لمحہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کی خبر سنی گئی اور پورا ملک غم و اندوہ میں ڈوب گیا۔ شہید محترمہ کے حامیوں اور مخالفوں میں کوئی تمیز نہ ہو رہی تھی اور مبہوت ہو کر رہ گئے، گھروں کے اندر باہر لوگ دھاڑیں مارتے ہوئے نکل آئے۔ ہر آنکھ پرنم، زبان پر خاموشی چھا گئی اور ملک کے کئی حصوں میں خوفناک ہنگامے پھوٹ پڑے۔ پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے، جگہ جگہ آگ اور دھوئیں کے بادل چھا گئے، ہنگاموں میں اضافہ ہو رہا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس ہولناک منظر نامے کا دورانیہ کب تک چلے گا، محترمہ کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اپنی معمول کی نشریات کو روک کر محترمہ کی شہادت کی خبر نشر کرنا شروع کر دی۔ عالمی جرائد اور اخبارات نے شہادت کے اس المیے کو غیر معمولی بنا دیا۔ اداریے لکھے گئے اور ویب سائٹس پر تبصروں کی بھر مار ہو گئی ۔ وال سٹریٹ جنرل نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے اور محترمہ کی شہادت پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ بینظیر بھٹو ایک متاثر کن شخصیت تھیں، ان کے مداح اور ان کے نقاد سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ دو دفعہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے والے بینظیر بھٹو پاکستان کی سب سے باصلاحیت سیاستدان تھیں، محترمہ کے بعد غریبوں اور مزدوروں کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں رہا۔ میڈیا کی آزادی اور عدالتوں کے فیصلوں پر کوئی بات کرنے والا نہیں رہا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سٹرٹیجک غلطیوں پر روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ ان کی موت سے پاکستان کی قومی سیاست میں ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو شائد کبھی پورا نہ ہو سکے۔ کچھ حلقے بجا طور پر ایسا سمجھتے ہیں کہ اگر بے نظیر بھٹو زندہ رہتیں تو بہت کچھ مختلف ہوتا۔ مگر سب سے زیادہ کمی ان کے نہ ہونے کی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس نے واحد جمہوری اور لبرل نظریات کی حائل لیڈر کو مٹا ڈالا۔ وہ عالم اسلام کے لبرل نظریات کا استعارہ بھی تھیں۔ آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین تقریر کرنے والی ایک انتہائی خوبصورت خاتون، جس نے 35سال کی عمر میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے لیے ایک مضبوط امید اور اپنے عوام کی نمائندہ طاقتور آواز تھیں۔ نیوز ویک نے ان کی موت پر ’’ پاکستان میں جمہوریت کی ہیرو‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا، جس میں کہا گیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو ملک میں جمہوریت کی بحالی کا ایک نمونہ تھیں، لیکن ان کی موت کے بعد پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس میں آسانی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
آج وطن عزیز میں پھر ایسی صورتحال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے نوجوان بلاول بھٹو کو سیاسی میدان میں اتارا ہے۔ اب تک کی صورتحال کے مطابق بلاول بھٹو ایک کامیاب وزیر خارجہ ثابت ہوئے ہیں۔ قومی امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں وہ مزید بہتر طریقے سے پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑیں گے۔ اس وقت وطن عزیز میں حکومت سیٹ اپ میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شریک اقتدار ہے اور وہ عوامی مفاد کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے ورکر میں پنجاب کی سطح پر مایوسی پائی جاتی ہے۔ لہذا پیپلز پارٹی کی قیادت کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کو محض تقریبات پر محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ویژن کے مطابق پیپلز پارٹی کے ورکروں کو بھی ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین تقریر کرنے والی ایک انتہائی ذہین خاتون جس نے 35سال کی عمر میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے لیے ایک مضبوط امید اور اپنے عوام کی نمائندہ طاقتور آواز تھیں، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری نے محترمہ کی شہادت پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو ایک متاثر کن شخصیت تھیں ان کے مداح اور ان کے نقاد سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ دو دفعہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے والے بینظیر بھٹو پاکستان کی سب سے باصلاحیت سیاستدان تھیں۔





