Abdul Hanan Raja.Column

ہمالہ سے اونچی دوستی، آہنی ہاتھ اور فولادی عزم

ہمالہ سے اونچی دوستی، آہنی ہاتھ اور فولادی عزم
عبدالحنان راجہ
چند ماہ قبل تک صرف چین دوستی ہی ہمالہ کی بلندیوں کو پار کرتی تھی، پھر وقت نے انگڑائی لی، اللہ کا کرم ہوا اور اب پاکستان کی فولادی سنگتیں فروغ پا رہی ہیں۔
اس سے انکار نہیں کہ ہمالہ سے اونچی دوستی کے لیے فولادی عزم درکار اور اب اگر ان سنگتوں کا دروازہ کھلا ہے تو ظاہر ہے اس کے پیچھے وہی فولادی عزم ہی کارفرما ہے۔ سعودی عرب سے پہلا تعلق ظاہر ہے برابری کا تو نہ تھا مگر دفاعی معاہدہ نے نوعیت بدل دی ہے۔ ترکیہ سے برادرانہ تعلقات تو تھے مگر فولادی دوستی کا بندھن 10مئی کے بعد قائم ہوا اور چند روز قبل استنبول میں Milgemبحری جنگی جہازوں کی حوالگی کی تقریب میں ترک صدر نے بھی امیرالبحر کی موجودگی میں فولادی عزم کا اظہار کیا۔ ترکیہ دنیا کے ان 8دس ممالک میں شامل ہے جو اپنے دفاعی صلاحیتوں اور جدید ٹیکنالوجی میں دوسروں پر انحصار کم ترین سطح تک لے آیا ہے اور بلخصوص ڈرون ٹیکنالوجی اور جنگی بحری جہازوں کی صنعت میں ترکیہ نے دنیا کے بڑے ممالک کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ دو جہاز جو ترکیہ کے تعاون سے اب پاکستان میں تیار ہوں گے۔ سمندروں میں تیرتا فولاد یقینا ترکیہ اور پاکستانی قوم کے دلوں کو بھی فولادی بنانے گا ! علاوہ ازیں پاکستان اور ترکیہ مشترکہ طور پر ڈرون ایئر کرافٹ کیرئیر بھی بنانے جا رہے ہیں، اس سے بغیر پائلٹ جنگی طیارے بھی اڑائے جا سکیں گے۔ یہ ایئر کرافٹ کیرئیر بحر ہند میں چلتا پھرتا تیرتا جزیرہ ہوگا، اس سے بحیرہ عرب میں پاکستان نیوی کی ناقابل چیلنج بحری حکمرانی قائم ہو جائے گی۔ دفاعی پیداوار کے شعبہ میں باہمی تعاون یقینا ٹیکنالوجی اور ترقی کی نئی راہیں کھولے گا۔
ادھر لیبیا، اردن، متحدہ عرب امارات اور بنگلہ دیش بھی فولادی بندھن میں بندھنے کو بے چین۔
اولا یہ سب اللہ رب العزت کا کرم، پھر اس خون شہیداں کا صدقہ، جو پاکستان بنتے سے لیکر اب تک اس کے استحکام کے لیے مقدس زمین کی آبیاری کرتا چلا آ رہا ہے۔ فولادی دوستی کا نمو پاتا دائرہ یقینا 10مئی کی تاریخی کامیابی کا ثمر ہے کہ جب مسلح افواج کے آہنی پنجوں اور وطن کے شاہینوں نے گرگسوں کو ایسا دبوچا کہ جس نے نہ صرف ماضی کے داغ دھو ڈالے بلکہ جدید دور کی جنگی حکمت عملی کا ایسا رخ بھی متعین کیا کہ جس پر مغرب حیرت کننداں تو امریکہ بھی انگشت بدنداں۔
لاریب قدرت جب عزت، سرفرازی اور عظمت کے دروازے کھولتی ہے تو برسوں کا سفر لمحوں میں طے کراتی ہے۔ اور الحمد للہ آج ہم بابائے قوم کا یوم ولادت عزت و وقار کی دستار کے ساتھ منا رہے ہیں، مگر افسوس کہ سیاسی قیادت اور اداروں میں بیٹھے بعض ناسور اسے داغ دار کرنے پر تلے ہیں۔ عسکری مجاہدوں نے اپنا فریضہ سرانجام دیا اور عزت و وقار کے بند دروازے ضرب حیدری سے کھولے تو اب سیاسی قیادت، سول بیوروکریسی اور عوام پاکستان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ رگ و پے میں بسی بدعنوانی، جھوٹ بہتان اور کاہلی دور کر کے اپنے حصے کی ذمہ داری دیانت داری سے ادا کریں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں فولادی دوستی فولادی عزم کی مرہون منت اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔ دو سال قبل چین سے دوستی پر برف پڑی تھی تو سعودی عرب نے بھی ہاتھ کھینچ رکھا تھا اور پاکستان کی معاشی حیثیت اس گداگر جیسی کہ جسے کوئی بھیک دینے بھی تیار نہ تھا۔
امریکی اخبار کے بعد برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو کثیر الجہتی خارجہ پالیسی کا ماہر قرار دینا جہاں ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے وہیں یہ عالمی سطح پر پاکستان کا بڑھتا نفوذ بھی ظاہر کرتا ہے۔
کٹھن ترین حالات میں اتنی موثر اور کامیاب سفارت کاری سپہ سالار کے حصہ میں آئی تو مشرق و مغرب میں نئے دور کے آغاز کا سہرا بھی ان کے سر سجا۔ اگرچہ سفارت کاری سپاہی کا میدان ہے اور نہ معاشی اٹھان ذمہ داری۔ مگر جب قدرت کسی سے کام لینے کا ارادہ کرے تو پوشیدہ و خوابیدہ صلاحیتیں ظاہر ہو جاتی ہیں کہ جن کا انسان کو خود بھی ادراک نہیں ہوتا۔
مگر پے در پے کامیابیاں اندرونی بدخواہوں کو ہضم ہو رہی ہیں اور بیرونی دشمنوں کو اور یہی تو وجہ ہے کہ ملک کے اندر دہشت گردانہ کارروائیاں تیز ہوئیں تو مشرقی و مغربی محاذ بھی گرم کر دئیے گئے۔ مگر چہار جہتی محاذ بھی پائوں کی رکاب بننے میں ناکام۔ ایک ایک کر کے دشمن زیر ہو رہا ہے تو شہیدوں کا خون وطن کو سرفرازی کی منازل طے کرا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ ہم آہنگی پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے کہ ہوس چھپ چھپ کے سینوں پہ وار کرتی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ایسی مثالی ھم آہنگی عمران خان کو میسر آئی تو اب شہباز شریف کو۔ اب یہ قیادت کا کمال ہے کہ وہ اس کو کتنا پائیدار، مستقل اور ثمر بار بناتی ہے۔ سعودیہ کے بعد لیبیا سے دفاعی معاہدہ اور اتنا بڑا معاہدہ یقینا پاکستان کے مضبوط و روشن مستقبل کی نوید ہے مگر اس کے لیے سیاسی قیادت اور سول بیوروکریسی کو بھی اپنا کردار اسی جانفشانی، فعالیت اور دیانت سے ادا کرنا ہو گا جس طرح عسکری قیادت اپنے حصہ سے سوا سرانجام دے رہی ہے۔ بدعنوانی کی لعنت نے ہر ادارے کو اپنی گرفت میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ جس کے خلاف آپریشن کلین اپ کے سوا چارہ نہیں۔ دفاعی معاہدہ جات اور اس ضمن میں فوری عملی اقدامات بھی اس وجہ سے ممکن ہو رہے ہیں کہ اس میں بیوروکریسی دخیل نہیں وگرنہ سعودیہ ہو یا ترکیہ یا کوئی اور فولادی دوست، چند ہی ہفتے میں بیوروکریسی کی چالوں اور حیلوں سے پناہ مانگتے نظر آتے۔ بیوروکریسی ہو یا رائج نظام انصاف کسی میں سرمایہ کاروں کے لیے سہولت ہے اور نہ مظلوموں کے لیے رعایت۔ گنجان شہروں میں بائی پاس تیز رفتار سفر آسان بناتے ہیں تو اقتصادی پرواز کے لیے احتساب کا بائی پاس آپریشن۔ قومی ترقی کے لیے اگر ایک طرف بدعنوانی اور شرپسندی سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف فولادی دوستی کی !

جواب دیں

Back to top button