Column

خود کلامی: نفسیاتی توازن، لسانی تشکیلات اور ادبی جمالیات

خود کلامی: نفسیاتی توازن، لسانی تشکیلات اور ادبی جمالیات
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری۔۔۔
انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اظہار کا متلاشی رہتا ہے۔ جب یہ اظہار دوسروں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا، تو وہ اپنی ذات کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اسی مڑنے کے عمل کو ہم ’’ خود کلامی‘‘ کہتے ہیں۔ عام طور پر خود کلامی کو ذہنی انتشار یا تنہائی کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن گہرے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ انسانی شعور کی پختگی اور ذہنی توازن برقرار رکھنے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جہاں انسان اپنے ہی باطن کا آئینہ دار بن کر خود سے سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی جواب بھی تلاش کرتا ہے۔
لسانیات اور نفسیات کی اصطلاح میں خود کلامی کو ’’ اندرونی گفتگو‘‘ (Inner Speech)کہا جاتا ہے۔ روسی ماہرِ نفسیات لیو وائیگوٹسکی کے مطابق، خود کلامی دراصل خارجی کلام کا داخلی روپ ہے۔ بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو وہ بلند آواز میں خود سے باتیں کرتا ہے تاکہ اپنے افعال کو منظم کر سکے، لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ یہ عمل خاموش ہو جاتا ہے اور ’’ فکر‘‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تاہم، شدید جذباتی تنا یا تخلیقی ابال کے وقت یہ دوبارہ الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
ادب کی دنیا میں خود کلامی ایک طاقتور فنی حربہ (Literary Device)کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس کے دو بڑے رخ ہیں
سولڈکی (Soliloquy): یہ ڈرامائی فن کی وہ قسم ہے جہاں کردار اسٹیج پر تنہا کھڑا ہو کر اپنے دل کے راز ناظرین کے سامنے کھولتا ہے۔ شیکسپیئر کے ڈراموں میں ہیملیٹ کی خود کلامی ’’ ہونا یا نہ ہونا‘‘ (To be or not to be)اس کی بہترین مثال ہے۔
داخلی مونو لوگ (Internal Monologue): ناول اور افسانے میں جب مصنف کردار کے ذہن کے اندر جاری خیالات کی رو کو من و عن بیان کرتا ہے، تو اسے داخلی مونو لوگ کہا جاتا ہے۔ اردو میں قرۃ العین حیدر اور منٹو کے ہاں اس کی اعلیٰ مثالیں ملتی ہیں۔
4۔ نفسیاتی پہلو اور سائنسی شواہد
نفسیاتی نقطہ نظر سے خود کلامی کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک ’’ تھراپی‘‘ ہے۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق (2017)نے اس موضوع پر ایک نیا در وا کیا ہے
تحقیق کے دوران 89رضاکاروں کو شدید ذہنی دبا اور منفی تصاویر کے ذریعے پریشان کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی دماغی لہروں (EEG)کا جائزہ لیا گیا۔ نتائج حیران کن تھے:
جن لوگوں نے اپنا نام لے کر خود سے بات کی ( مثلاً: ’’ صفدر، ہمت نہ ہارو‘‘) ان کے دماغ کا وہ حصہ جو جذبات کو کنٹرول کرتا ہے، فوری طور پر پرسکون ہو گیا۔
تیسرے شخص کے طور پر خود سے مخاطب ہونا (Third-person Self-talk)اعصابی نظام کو یہ پیغام دیتا ہے کہ مسئلہ کسی دوسرے کا ہے، جس سے جذبات کی شدت کم ہو جاتی ہے اور منطق غالب آ جاتی ہے۔
خود کلامی کے فوائد کو درج ذیل نکات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
ذہنی تنظیم (Mental Organization): بکھرے ہوئے خیالات کو الفاظ کی شکل دینے سے مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
جذباتی استحکام: غصے، اداسی اور خوف کی حالت میں خود سے مکالمہ ایک حفاظتی ڈھال کا کام کرتا ہے۔
یادداشت اور توجہ: جب ہم بلند آواز میں کوئی کام خود کو یاد دلاتے ہیں، تو ہمارا بصری اور سمعی نظام مل کر اس معلومات کو دماغ میں پختہ کر دیتا ہے۔
خود احتسابی: یہ انسان کو اپنی غلطیوں کا ادراک کرنے اور شخصیت کی تعمیر نو کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اردو شاعری میں خود کلامی کا عنصر میر تقی میر کے سوز اور غالب کی فکر میں نمایاں ہے۔ لیکن اس اصطلاح کو شعری مجموعے کے عنوان کے طور پر متعارف کروا کر پروین شاکر نے اسے ایک نئی شناخت دی۔
پروین شاکر (1952-1994)کی شاعری ایک ایسی نسائی خود کلامی ہے جو معاشرے کے بند دروازوں کے پیچھے ایک عورت کی سچی آواز ہے۔ ان کا مجموعہ ’’ خود کلامی‘‘ (1980)دراصل ان کے داخلی تضادات، محبت کی حسرتوں اور سماجی جبر کے خلاف ایک خاموش احتجاج ہے۔
ان کے لہجے میں جو سچائی ہے، وہ خود کلامی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ان کی یہ غزل اس مقالے کی ادبی معراج ہے:
اِک نہ اِک روز تو رُخصت کرتا
مُجھ سے کِتنی ہی مُحبّت کرتا
سب رُتیں آ کے چلی جاتی ہیں
موسمِ غم بھی تو ہجرت کرتا
بھیڑیے مُجھ کو کہاں پا سکتے؟
وُہ اگر میری حفاظت کرتا
میرے لہجے میں غرور آیا تھا
اُس کو حق تھا کہ شکایت کرتا
کُچھ تو تھی میری خطا ورنہ وُہ کیوں
اِس طرح ترکِ رفاقت کرتا
اور اُس سے نہ رہی کوئی طلب
بس، مِرے پیار کی عزت کرتا
اس غزل کا ہر شعر خود کلامی کے اس درجے پر ہے جہاں شاعرہ اپنی ذات کا محاکمہ کر رہی ہے۔
’’ میرے لہجے میں غرور آیا تھا‘‘ کہنا ایک ایسی جراتِ رندانہ ہے جو صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی ذات کے ساتھ سچا مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
اگرچہ خود کلامی ایک مثبت عمل ہے، لیکن ایک استاد اور ادیب کے طور پر ہمیں اس کی حدود کا تعین بھی کرنا چاہیے۔ جب انسان سماجی تعلقات سے مکمل کٹ کر صرف اپنی خیالی دنیا میں رہنے لگے اور اسے حقیقت اور خواب میں فرق محسوس نہ ہو، تو یہ ’’ شیزوفرینیا‘‘ جیسی نفسیاتی الجھنوں کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، تخلیقی انسان کے لیے یہ تنہائی نہیں بلکہ ’’ خلوت‘‘ ہے جس میں وہ اپنی شاہکار تخلیقات کو جنم دیتا ہے۔
( ابن صفی جیسا بلند پایہ ادیب تین سال تک اس مرض کا شکار رہا )
اب دیکھنا یہ ہے کہ خود کلامی کو قوت کیسے بنایا جائے
مثبت جملوں کا انتخاب کریں: ’’ میں یہ نہیں کر سکتا‘‘ کے بجائے ’’ میں اسے کیسے سیکھ سکتا ہوں؟‘‘ کہیں۔
اپنا نام لے کر بات کریں: یہ آپ کو اپنے جذبات سے ایک فاصلہ فراہم کرے گا جس سے فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔ تحریر کی صورت میں خود کلامی: اپنی ڈائری لکھنا بھی خود کلامی کی ایک بہترین اور مربوط شکل ہے، جو حیدری صاحب جیسے ادیبوں کا خاصہ ہے۔
مختصر یہ کہ خود کلامی انسانی شعور کا وہ روشن چراغ ہے جو داخلی اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے۔ یہ ادب کا حسن بھی ہے اور نفسیات کا علاج بھی۔ پروین شاکر کی شاعری سے لے کر جدید سائنسی تجربات تک، ہر چیز اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جو شخص اپنے آپ سے ہم کلام ہونا جانتا ہے، وہ کائنات کی بھیڑ میں کبھی تنہا نہیں ہوتا۔جیسا کہ آپ کی کتاب ’’ مٹھی میں کائنات‘‘ کا عنوان ظاہر کرتا ہے، خود کلامی وہ ہنر ہے جس کے ذریعے انسان پوری کائنات کے حقائق کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔
کتابیات (References): شاکر، پروین، ’’ خود کلامی‘‘ ( مجموعہ کلام)۔
فاروقی، شمس الرحمٰن، ’’ شعرِ شور انگیز‘‘ ( ادبی خود کلامی پر بحث)۔
Moser, J. S. (2017), Third
person self-talk as an emotion regulation strategy”, Scientific Reports. Vygotsky, L. S., Thought and Language, MIT Press.

جواب دیں

Back to top button