سیاسی جماعتوں کے مقابل جماعتوں کا مستقبل

سیاسی جماعتوں کے مقابل جماعتوں کا مستقبل
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے جب کبھی سیاسی جماعت کے قائد کو سنگل آئوٹ کرنے کی کوشش کی گئی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں جن سیاست دانوں کی خدمات حاصل کی گئیں ان کی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔ آج ہمارے ملک کو کچھ اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی کے مقابل نیشنل پیپلز پارٹی وجود میں آئی جس کے بعد سندھ نیشنل محاذ بنا لیکن آج ان جماعتوں کا کہیں وجود دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح جن سیاست دانوں نے اپنی جماعتوں سے بے وفائی کی ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوگیا۔ بھٹو حکومت کے وزیر مولانا کوثر نیازی کی پیپلز پارٹی، مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اور ممتاز بھٹو کا سندھ نیشنل محاذ کدھر ہے؟ گو بھٹو کی پیپلز پارٹی آج بھی موجود ہے تاہم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھٹو کی پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا جہاں بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی برائے نام رہ گئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ نون سے مسلم لیگ ق کو نکالا گیا جو گجرات تک محدود ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مستقبل بارے جو حقائق بیان کئے گئے ہیں ان سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا سیاسی جماعتوں کا وجود ان کے قائدین سے وابستہ ہے۔ بدقسمتی سے سیاست دان تاریخ سے سبق نہیں لیتے عہدوں اور منصب کی ہوس میں اپنا سیاسی کیرئیر دائو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کے سنیئر رہنما شاہ محمود قریشی سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں قید کاٹ رہے ہیں پی ٹی آئی کے بعض حلقے جنہیں بانی پی ٹی آئی نے اپنے سے دور رکھا ہوا ہے شاہ محمود اور کوٹ لکھپت جیل میں قید دیگر رہنمائوں کی پیرول پر رہائی کے لئے سرگرم ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس تحریک تحفظ آئین کے رہنمائوں نے اپنے طور پر حکومت سے مذاکرات کی بات چلا رکھی ہے۔ تعجب ہے بانی پی ٹی آئی وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو تحریک چلانے کا کہہ رہے ہیں اور بانی کی بہن علیمہ خان نے واضح طور پر کہا ہے جو لوگ حکومت سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں وہ عمران خان کے ساتھی نہیں ہیں۔ ان تمام باتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے اپوزیشن جماعتوں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ہاں البتہ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے مذاکرات کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیا ہے ملک میں شفاف الیکشن کرائے جائیں ۔ تحریک تحفظ آئین سیاسی قیدیوں کی رہائی کے علاوہ جن باتوں کا مطالبہ کر رہی ہے وہ آئین اور قانون کی بالادستی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرگان اور کچھ پارٹی رہنما خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر ہم شاہ محمود قریشی کی بات کریں تو موصوف پہلے مسلم لیگ نون میں تھے جس کے بعد پیپلز پارٹی میں قدم رکھا اور اب تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ اس ناچیز کے خیال میں شاہ محمود کے لئے سیاست میں یہ آخری موقع ہے اگر وہ پی ٹی آئی کے بانی سے بے وفائی کرتے ہیں ان کا سیاسی مستقبل ممتاز بھٹو، مولانا کوثر نیازی اور مصطفیٰ جتوئی ویسا ہوگا۔ پی ٹی آئی کے جن رہنمائوں نے جبر کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے ان سیاسی مستقبل تاریک ہو چکا ہے اس کے ساتھ بعض سیاست دان جبر کے سامنے جھکنے کی بجائے سیاست سے کنارہ کش ہونے کو ترجیح دیتے ہیں مگر دلی طور پر وہ اپنی جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اگر ہم حماد اظہر کی بات کریں تو یہ بات ان پر صادق آتی ہے ضمنی الیکشن سے کنارہ کشی سے یہ بات واضح ہو گئی تھی وہ جبر کا مقابلہ کرنے کی بجائے کنارہ کشی میں عافیت سمجھتے ہیں گویا انہوں نے اس پر عمل کرکے دیکھا دیا ہے۔ دراصل سیاست دانوں کی اکثریت کا مطمع نظر اقتدار سے وابستہ ہے سیاست دانوں کو ملک اور قوم کا مفاد عزیز نہیں انہیں اپنے مفادات کی پڑی رہتی ہے۔ سیاست دانوں میں اقتدار کی ہوس نہ ہو اور مفادات عزیز نہ ہو تو وہ آج بھی آئین اور قانون کی بالادستی اور نئے انتخابات کے انعقاد کے مطالبات کے لئے یکجا ہو سکتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کا المیہ ہے وہ مفادات کی سیاست سے نہیں نکلتے اس کے برعکس غریب عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ کا حصول ان کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو ذاتی مفادات عزیز نہ ہوتے جیسا کہ الیکشن میں مبینہ طور پر وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ سڑکوں پر ہوتے ۔ سیاسی رہنمائوں کے ذاتی مفادات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جب جنرل باجوہ نے تمام سیاست دانوں کو پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کو کہا تھا وہ جمہوریت پسند ہوتے صاف انکار کر دیتے اور آئندہ الیکشن کا انتظار کرتے۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں سیاست دانوں کو ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد نگران حکومت میں جے یو آئی حصہ دار تھی ملک کی سب سے بڑی وزارت مواصلات جے یو آئی کے امیر کے بیٹے کے پاس تھی۔ آج جے یو آئی کو کی پی کے کی وزارت اعلیٰ مل جائے مولانا حکومت کی مخالفت چھوڑ دیں گے۔ جب تک سیاست دان ذاتی مفادات کے خول سے نہیں نکلیں گے ہمارا جمہوری نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔ سیاست دان جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہوتے وہ جنرل باجوہ سے ملاقات نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں کو مفاد اداروں سے جڑا ہوتا ہے ان کی سیاست کا دارومدار بعض اداروں کی مرہون منت ہوتا ہے۔ ہمارے ملک جو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ہیں۔ جن سیاست دانوں کی سیاست کا مرکز ادارے ہوں وہ آئین اور قانون کی بالادستی کے بات کرتے اچھے نہیں لگتے۔ آئین میں ترامیم کے ذمہ دار کیا ہمارے ادارے ہیں یا سیاست دان ہیں؟ سیاست دانوں میں اخلاقی جرات ہوتی وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ہوتے آئین میں ترامیم نہ ہونے دیتے۔ بہرکیف سیاسی جماعتوں سے علیحدگی اختیار کرنے والے سیاست دانوں کا مستقبل تاریک ہوتا ہے اور یہی تاریخ کا سبق ہے۔





