
لاہور، 26 دسمبر — وزیراعظم پاکستان برآمدات میں مسلسل کمی پر تشویش میں مبتلا ہیں اور انہوں نے برآمدات میں بہتری کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ بات وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ہدایت دی ہے کہ کاروباری برادری سے براہِ راست رابطہ کیا جائے اور برآمدات میں اضافے کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے۔ اس موقع پر صدر لاہور چیمبر فہیم الرحمان سہگل نے وفاقی وزیر کا خیرمقدم کیا۔ اجلاس میں سینئر نائب صدر تنویر احمد شیخ، نائب صدر خرم لودھی اور ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین احد امین ملک، شعیب اختر، عامر علی اور افتخار احمد بھی شریک تھے۔
رانا تنویر حسین نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات میں 36 سے 38 فیصد تک کمی ہو چکی ہے جو ایک انتہائی سنجیدہ اور تشویشناک صورتحال ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پیداواری لاگت میں اضافہ، مہنگی توانائی اور پیچیدہ ٹیکس نظام برآمد کنندگان کے لیے بڑے مسائل بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کاروباری برادری سے مسلسل رابطے میں ہیں اور گزشتہ دو برسوں کے دوران تاجروں سے مشاورت پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے مختلف شعبوں کے لیے ورکنگ گروپس قائم کیے ہیں جن کی قیادت خود کاروباری نمائندے کر رہے ہیں تاکہ پالیسی سازی میں زمینی حقائق کو شامل کیا جا سکے۔
اس موقع پر صدر لاہور چیمبر فہیم الرحمان سہگل نے کہا کہ اگر برآمدات میں کمی کا موجودہ رجحان برقرار رہا تو روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ روپے کی قدر میں مزید کمی سے مہنگائی بڑھے گی اور صنعتوں پر لاگت کا دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ جولائی سے نومبر کے دوران پاکستان کی غذائی برآمدات 1.95 ارب ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں یہ 3.15 ارب ڈالر تھیں، یعنی 38 فیصد کمی واقع ہوئی جو نہایت تشویشناک ہے۔فہیم الرحمان سہگل نے کہا کہ زرعی برآمدات میں کمی کی بنیادی وجوہات میں فی ایکڑ کم پیداوار، تحقیق و ترقی میں کم سرمایہ کاری، زرعی اجناس کی اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور غیر مستقل پالیسیاں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی ہر سال تقریباً 47 لاکھ افراد بڑھ رہی ہے جبکہ زرعی پیداوار اور خوراک کی فراہمی اسی رفتار سے نہیں بڑھ رہی، جو مستقبل کے لیے سنگین خطرہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ چاول کی برآمدات 1.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر 769 ملین ڈالر رہ گئیں، سبزیوں کی برآمدات 110 ملین ڈالر سے کم ہو کر 66 ملین ڈالر ہو گئیں جبکہ تیل دار بیجوں اور گری دار میووں کی برآمدات 262 ملین ڈالر سے گھٹ کر 92 ملین ڈالر رہ گئیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں گندم، چاول اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں واضح کمی آئی ہے۔ گندم کی پیداوار 3200 کلوگرام فی ایکڑ، چاول کی پیداوار 2714 کلوگرام سے کم ہو کر 1494 کلوگرام اور کپاس کی پیداوار 590 کلوگرام فی ایکڑ رہ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا تقریباً 60 فیصد انحصار ٹیکسٹائل برآمدات پر ہے، مگر کپاس کی پیداوار اور معیار میں کمی سے ویلیو ایڈیشن متاثر ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لمبے ریشے والی کپاس برآمد کر دی جاتی ہے جبکہ مختصر ریشے والی کپاس مقامی صنعت میں استعمال ہوتی ہے، جس سے اعلیٰ معیار کی ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔
انہوں نے بجلی اور توانائی کی بلند قیمتوں کو برآمدی مسابقت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور سندھ حکومت کی جانب سے عائد انفراسٹرکچر سیس فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مد میں برآمد کنندگان سے 9.15 ارب ڈالر وصول کیے جا چکے ہیں مگر اس کے استعمال کا کوئی شفاف آڈٹ موجود نہیں۔انہوں نے کہا کہ فائنل ٹیکس رجیم سے برآمد کنندگان کا اخراج، ریفنڈز میں تاخیر اور بلند پیداواری لاگت نے صنعتی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود تقریباً 6 ارب ڈالر کی غذائی درآمدات کر رہا ہے جو خوراک کے تحفظ کے لیے خطرناک ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان سے 50 ہزار میٹرک ٹن چاول درآمد کرنے کی منظوری کا خیرمقدم کیا۔
انہوں نے لائیوسٹاک اور پراسیسڈ گوشت کے شعبے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی حلال فوڈ مارکیٹ کا حجم تقریباً 3 ٹریلین ڈالر ہے اور پاکستان اس میں نمایاں حصہ حاصل کر سکتا ہے۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ حکومت کا ہدف برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دینا ہے تاکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کیا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 12.5 فیصد ہو چکا ہے اور آئندہ ایک سے ڈیڑھ سال میں اس کے سنگل ڈیجٹ میں آنے کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر وقتی سہارا ہیں، مستقل حل نہیں، اصل حل برآمدات میں اضافہ ہے۔ انہوں نے زراعت کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خوراک کے تحفظ کے بغیر قومی سلامتی ممکن نہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ کاروباری برادری کی تجاویز وزیراعظم اور متعلقہ فورمز تک پہنچائی جائیں گی اور برآمدات میں اضافے کے لیے مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔





