Column

پی آئی اے کی نجکاری، فیصلہ کن قدم

پی آئی اے کی نجکاری، فیصلہ کن قدم
پاکستان طویل عرصے سے معاشی چیلنجز، مالی خسارے اور سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی جیسے مسائل کا شکار رہا ہے۔ ان مسائل کی ایک بڑی وجہ وہ سرکاری ادارے ہیں جو دہائیوں سے خسارے میں جارہے ہیں اور قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ( پی آئی اے) بھی انہی اداروں میں شامل رہی ہے، جسے بچانے کے لیے ہر سال اربوں روپے عوام کے ٹیکس سے دئیے جاتے رہے مگر کارکردگی میں خاطر خواہ بہتری نہ آسکی۔ ایسے میں پی آئی اے کی نجکاری کا حالیہ عمل ایک جرات مندانہ، بروقت اور قومی مفاد میں اٹھایا گیا فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پی آئی اے کے 75فیصد شیئرز 135ارب روپے میں عارف حبیب گروپ کنسورشیم کو فروخت ہونا نہ صرف حکومت کی توقعات سے بہتر ثابت ہوا بلکہ اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ پاکستان میں اب بھی سرمایہ کاری کی گنجائش موجود ہے اور بڑے سرمایہ کار ملکی معیشت پر اعتماد رکھتے ہیں۔ اس نیلامی میں تین بڑے کنسورشیم کی شرکت اس اعتماد کی واضح دلیل ہے۔ خاص طور پر یہ حقیقت کہ بولی کی ابتدائی حد 100ارب روپے مقرر تھی جب کہ حتمی سودا اس سے کہیں زیادہ رقم پر طے پایا، حکومت کی معاشی پالیسیوں اور نج کاری کے شفاف عمل پر ایک مثبت مہر ہے۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ پی آئی اے جیسے ادارے کو خسارے سے نکالنے کے لیے ماضی میں مختلف حکومتوں نے اصلاحاتی پیکیجز، بیل آئوٹس اور انتظامی تبدیلیاں کیں مگر سیاسی مداخلت، ناقص مینجمنٹ اور احتساب کے فقدان کے باعث یہ تمام کوششیں ناکام رہیں۔ نجکاری دراصل ان تمام مسائل کا عملی حل ہے، کیونکہ نجی شعبہ کارکردگی، منافع اور پیشہ ورانہ نظم و نسق کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ عارف حبیب گروپ کنسورشیم کی جانب سے پی آئی اے میں بھاری سرمایہ کاری اس امید کو تقویت دیتی ہے کہ قومی ایئر لائن اب ایک جدید، مسابقتی اور منافع بخش ادارہ بن سکے گی۔ اس سودے کے تحت 125ارب روپے براہِ راست پی آئی اے میں جائیں گے، جو ادارے کی بحالی، بیڑے میں اضافے، سروس کے معیار میں بہتری اور عالمی سطح پر ساکھ کی بحالی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ سرمایہ کاری حکومت کے لیے بھی ریلیف ثابت ہوگی، کیونکہ اب قومی خزانے سے پی آئی اے کو سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی کی یہ وضاحت بھی نہایت اہم ہے کہ نیویارک اور پیرس میں موجود پی آئی اے کے ہوٹل نجکاری کا حصہ نہیں ہیں۔ اس سے یہ تاثر زائل ہوتا ہے کہ قومی اثاثے اونے پونے داموں فروخت کیے جارہے ہیں۔ درحقیقت حکومت نے ایک متوازن حکمتِ عملی اپنائی ہے جس کے تحت بنیادی کاروبار کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا ہے جب کہ دیگر اثاثوں کے بارے میں مستقبل میں کھلی نیلامی کے ذریعے شفاف فیصلے کیے جائیں گے۔ نجکاری کے ناقدین عموماً خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سے ملازمین متاثر ہوں گے یا قومی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا، تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دنیا بھر میں کامیاب معیشتیں نجی شعبے کی شمولیت سے ہی ترقی کرتی ہیں۔ بھارت، ترکیہ، ملائیشیا اور مشرقی یورپ کی مثالیں ہمارے سامنی ہیں جہاں خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری نے نہ صرف ان اداروں کو منافع بخش بنایا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کیے۔ پاکستان میں بھی اب وقت آچکا ہے کہ حکومت کا کردار کاروبار چلانے کے بجائے پالیسی سازی اور ریگولیشن تک محدود ہو۔ پی آئی اے کی نجکاری اسی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ اس سے حکومت کو نہ صرف فوری مالی فائدہ ہوا ہے بلکہ مستقبل میں ٹیکس ریونیو میں اضافے کی بھی توقع ہے، جیسا کہ مشیر نجکاری نے عندیہ دیا ہے۔ مزید برآں، یہ سودا عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ایک مثبت پیغام ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ممکن ہے۔ منرلز، مائننگ، انرجی اور انفرا اسٹرکچر جیسے شعبوں میں نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ مستقبل میں معاشی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ خاص طور پر انرجی سیکٹر کی نجکاری، جس پر محمد علی نے زور دیا، معیشت کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پی آئی اے کی نجکاری محض ایک ادارے کی فروخت نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی سمت درست کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ اگر یہی شفافیت، سیاسی عزم اور پیشہ ورانہ سوچ برقرار رکھی گئی تو آنے والے برسوں میں نجکاری کے مزید کامیاب منصوبے سامنے آئیں گے۔ یہ فیصلہ نہ صرف موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے ایک نئی امید بھی۔ نجکاری اگر درست منصوبہ بندی، شفافیت اور قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر کی جائے تو یہ بوجھ نہیں بلکہ ترقی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔ پی آئی اے کا حالیہ سودا اسی حقیقت کا روشن ثبوت ہے۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ لازمی جیتنا ہوگی
کرک کے علاقے تھانہ گرگری کی حدود میں پولیس موبائل پر ہونے والا دہشت گرد حملہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان آج بھی دہشت گردی جیسے سنگین چیلنج کا سامنا کررہا ہے۔ اس افسوسناک واقعے میں پانچ پولیس اہلکاروں کی شہادت اور جوابی کارروائی میں آٹھ دہشت گردوں کی ہلاکت نے قوم کو غم اور غصے کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ حملہ نہ صرف پولیس پر بلکہ ریاست کی رٹ، امن و امان اور عوام کے تحفظ پر بھی براہ راست حملہ ہے۔ پولیس اہلکار معمول کے مطابق گیس پیداوار کمپنی مول کے ساتھ سیکیورٹی ڈیوٹی پر جارہے تھے کہ دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔ پولیس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی اور گاڑی میں سوار تمام اہلکار موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ یہ واقعہ دہشت گردوں کی بزدلی اور درندگی کی واضح مثال ہے جو نہتے محافظوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ قابلِ تحسین امر یہ ہے کہ واقعے کے فوری بعد پولیس نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا۔ ریجنل پولیس آفیسر کوہاٹ کے مطابق مارے جانے والے دہشت گرد تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھتے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک دشمن عناصر ایک بار پھر منظم انداز میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ شہید پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی، جس میں اعلیٰ سول و عسکری حکام کی شرکت نے یہ پیغام دیا کہ ریاست اپنے شہداء کو فراموش نہیں کرتی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، صدرِ مملکت اور وزیراعظم کی جانب سے مذمتی بیانات اور شہداء کے لواحقین سے اظہارِ تعزیت اس قومی یکجہتی کا مظہر ہیں جو ایسے سانحات کے بعد سامنے آتی ہے۔ تاہم صرف مذمتی بیانات کافی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو مزید مثر، منظم اور فیصلہ کن بنایا جائے۔ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پہلے ہی محدود وسائل میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہیں۔ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی اور سرحدی اضلاع ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سرحدی سیکیورٹی، مقامی انٹیلی جنس نیٹ ورک اور عوامی تعاون کو مضبوط بنائے تاکہ دہشت گردوں کے لیے زمین تنگ کی جا سکے۔ شہید پولیس اہلکاروں کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی، بشرطیکہ ریاست ان قربانیوں کو ایک واضح پالیسی، عملی اقدامات اور مستقل مزاجی کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے میں ڈھالے۔ قوم اپنے محافظوں کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہر صورت جیتنی ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button