ColumnImtiaz Aasi

اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش، بانی کا انکار

اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش، بانی کا انکار
امتیاز عاصی

وزیراعظم شہباز شریف نے اپوزیشن جماعتوں کوایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ تحریک تحفظ آئین کی مشاورتی کانفرنس میں حکومت سے مذاکرات کا عندیہ دینے کے باوجود معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے جس حکومت کے پاس ایک وزیراعلیٰ کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کا اختیار نہیں ہے ایسی حکومت سے مذاکرات بے معانی ہیں جب کہ بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان کا کہنا ہے جو لوگ مذاکرات کی بات کرتے ہیں وہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھی نہیں ہیں۔ دراصل بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہونے سے سیاسی معاملات بد اعتمادی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک بات واضح ہے بانی پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو تحریک چلانے کا ٹاسک دے رکھا ہے، جس کے بعد مذاکرات کی بات ختم ہو جاتی ہی۔ گو پی ٹی آئی تحریک تحفظ آئین میں شامل ہے لیکن حالات سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا تحریک تحفظ آئین اور بانی پی ٹی آئی کے مابین روابط کا فقدان ہے شائد یہی وجہ ہے محترمہ علیمہ خان نے واضح طور پر کہا ہے مذاکرات کی باتیں کرنے والے بانی پی ٹی آئی کے ساتھی نہیں ہیں جس کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے پی ٹی آئی کے بانی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لئے کسی صورت رضامند نہیں ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں اپوزیشن جماعتوں میں بداعتمادی عیاں ہے۔ حکومت مخالف جماعتوں میں اعتماد کی فضا قائم ہوتی حکومت کے خلاف ایک بھرپور تحریک کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔ اگر ہم ماضی کے سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو سیاسی جماعتوں کی حکومت مخالف تحریکوں کو ہمیشہ اداروں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ شائد انہی وجوہات کی بنا اپوزیشن جماعتیں یکجا نہیں ہوسکی ہیں اور حکومت کے خلاف تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے تحریک تحفظ آئین کے قائد محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں ہونے والی مشاورتی کانفرنس میں ایک کمیٹی قائم کی ہے جو صوبائی اور ضلع کے سطح پر احتجاجی تحریک چلانے کے لئے عوام کو متحرک کرے گی۔ مشاورتی کانفرنس کے اعلامیہ کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات اظہر من التمش ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو ماسوائے وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی کے کسی پر اعتماد نہیں ۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کے مطابق بانی نے وزیراعلیٰ کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا ٹاسک دے دیا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے بانی کی ہدایات کی روشنی میں مستقبل قریب میں حکومت مخالف تحریک کا آغاز کرے گی۔ جیسا کہ اخبارات میں آیا ہے بانی پی ٹی آئی کا فوکس اپنے وزیراعلیٰ پر ہے جس سے انہیں قوی امید ہے وہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے صدق دل سے لائحہ عمل اختیار کرے گا۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالیں تو تمام صوبوں کے عوام سے کے پی کے سبقت لے گیا ہے۔ گویا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بانی پی ٹی آئی کو کے پی کے عوام سے حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کی امیدیں وابستہ ہیں۔ درحقیقت حکومت کے پاس مذاکرات کا ٹاسک نہیں ہے حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی اس کے پاس مذاکرات کا مینڈیٹ ہوتا جو حکومت فارم 45میں مبینہ طور پر ردوبدل کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہو وہ اپوزیشن سے کیا مذاکرات کرے گی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے سیاسی سرگرمیوں پر قدغن ہے عدلیہ آزاد ہے نہ صحافت آزاد ہے گویا یہ صورت حال ملک و قوم کے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ بھی پہلا موقع ہے جب کسی سیاسی جماعت کے رہنما اور ورکرز جیلوں میں ہیں اور انہیں فوجی عدالتوں سے سزائیں ہو چکی ہیں۔ موجودہ حکومت غیر جانبدار ہوتی وہ سانحہ نو مئی کے اصل حقائق جاننے کے لئے عدالتی کمیشن قائم کرکے کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ سکتی تھی۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا یہی تو شکوہ ہے ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں لیکن سانحہ نو مئی کے حقائق کا پتہ چلانے کے لئے کمیشن قائم نہیں ہو سکا ہے جس سے معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے۔ ویسے تو کوئی عام واقعہ ہو حکومت عدالتی کمیشن قائم کر دیتی ہے لیکن سانحہ نو مئی جیسا واقعہ کے حقائق جاننے کے لئے کوئی کمیشن قائم نہیں ہو سکا۔ برسراقتدار دونوں جماعتیں جمہوری اقدار کی سوچ رکھنے والی ہوتیں وہ کبھی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں کرتی۔ بدقسمتی سے دونوں جماعتوں کے بہت سے رہنمائوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات تھے جنہیں اقتدار میں آنے کے بعد ختم کرا لیا گیا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے الیکشن میں عوام نے انہیں مینڈیٹ دینے سے گریز کیا تاہم اس کے باوجود انہیں اقتدار دے دیا گیا۔ کہتے ہیں ملک میں سرمایہ کاری آرہی ہے اگر یہ بات سچ ہے تو سرمایہ کار یہاں سے واپس کیوں جا رہے ہیں، قومی اداروں کی نج کاری کیوں ہو رہی ہے ؟۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور ورکرز کی سزائوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیلوں کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ گویا اس اعتبار سے عوام کو منی مارشل لاء کا سامنا ہے ۔ ہمیں تو پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی سمجھ نہیں آتی وہ بار بار جے یو آئی کی طرف دیکھ رہے ہیں کسی طرح وہ ان کی حکومت کے خلاف تحریک کا حصہ بن جائے۔ اللہ کے بندوں جے یو آئی کے امیر کے خلاف بانی پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار میں کیسا رویہ اپنائے رکھا ۔ پی ٹی آئی کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے جے یو آئی کبھی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دے گی۔ سیاسی جماعتوں کو جب تک بعض اداروں کی آشیرباد حاصل نہ ہو وہ کسی تحریک کا حصہ نہیں بنتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مذہبی جماعتوں نے تحریک چلائی تو انہیں طاقتور حلقوں کی آشیرباد حاصل تھی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی بھٹو کے خلاف تحریک کی کامیابی کے بعد طاقتور حلقوں نے مذہبی جماعتوں کے قائدین کو سہالہ ریسٹ ہائوس میں پابند سلاسل کر دیا، جس کا مقصد عوام کو یہ بتلانا مقصود تھا مذہبی جماعتوں کی تحریک کو کسی کی آشیر باد حاصل نہیں تھی۔

جواب دیں

Back to top button