سٹریٹ موومنٹ

سٹریٹ موومنٹ
محمد مبشر انوار
انسانی فطرت میں اقتدار کی خواہش بدرجہ اتم موجود ہے البتہ اقتدار نصیب سے ملنے والی شے ہے اور بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اقتدار کے حامل افراد میں ہوس اقتدار اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اکثر و بیشتر وہ عوام الناس کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے حتی کہ اقتدار کے حصول میں خونی رشتوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے، تاریخ ایسے خونی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دوسری طرف انسانی فطرت کا آزادانہ روش کا پہلو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اپنی آزادی کی خاطر طوفانوں سے لڑ جانا، یزیدوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرنا اور طویل و صبر آزما جدوجہد کرنا بھی اسی انسانی تاریخ کا حصہ ہے جبکہ وہ عناصر جن کا مطمع نظر بے شک اپنی آزادی کا حصول رہا ہے لیکن وہ پر تشدد طریقہ کار اختیار کرتے ہیں، ان کا انجام خال ہی اچھا نظر آتا ہے کہ ریاست، حکومت، حکمران بہرحال ایسے باغیوں کی نسبت زیادہ بااختیار ہے اور صحیح یا غلط ایسے عناصر کو کچلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ تاہم اکثر و اوقات ایسے آزادی پسند عناصر کو ناجائز کچلا جاتا ہے کہ وہ اپنے حق آزادی کی خاطر بروئے کار آ رہے ہوتے ہیں اور بالعموم حکومتیں ان کی آزادی کو سلب کئے بیٹھی ہوتی ہیں، جیسا موجودہ وقت میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کشمیریوں کے حق آزادی کو جبرا دبائے بیٹھا ہے تو دوسری طرف اس کا کزن اسرائیل ،فلسطینی ریاست کو تقریبا ہڑپ کئے بیٹھا ہے اور کسی صورت فلسطینیوں کو آزادی تو کیا ان کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے۔ تو دوسری طرف امسال شروع میں بنگلہ دیش میں آئے انقلاب کی صورت ہے کہ جہاں ایک فاشسٹ حکمران تقریبا دو دہائیوں سے بنگالی عوام کی آزادی سلب کئے بیٹھی تھی اور کسی بھی طور عوامی حقوق دینے کے لئے تیار نظر نہیں آتی ہے، تمام تر قوانین بالعموم جبکہ انتخابی قوانین بالخصوص اپنے حق میں موڑ کر، اپنے تئیں ساری زندگی کی حکمرانی اپنے نام کر چکی تھی۔ مخالفین کے لئے زندگی دوبھر ہوچکی تھی اور کسی بھی مخالف آواز کی کہیں کوئی شنوائی نہیں تھی، ریاستی مشینری کے گرد طوق غلامی ڈالا صاف نظر آتا تھا جو ریاست کی بجائے شیخ حسینہ واجد کی ذاتی غلام بنی دکھائی دیتی تھی، لیکن کب تک؟ کہتے ہیں کہ اونٹ کی کمر پر ایک تنکا اتنا بھاری ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ بھلا دیتا ہے، ایسا ہی کچھ بنگلہ دیش میں ہوا جب سرکاری نوکریوں کے حوالے سے رہی سہی آس امید بھی حسینہ واجد نے عوام سے چھینی تو عوام ایسے بپھرے کہ پھر نہ حسینہ واجد اور نہ اس کی ریاستی غلام مشینری کچھ کر پائی اور حسینہ واجد کو مختصر ترین وقت میں بنگلہ دیش چھوڑ کر، اپنے مربی و آقا بھارت کے پاس پناہ لینا پڑی۔ صد افسوس ! کہ اقتدار کا نشہ تاحال حسینہ واجد کے سر سے نہیں اترا اور دیار غیر میں بیٹھ کر بھی، اپنے ملک کی بے حرمتی میں اس حد تک اتر آئی ہے کہ کرائے کے قاتل کہوں یا ’’ را‘‘ کے تفویض کردہ ایجنٹ کہوں کہ حسینہ واجد کے خلاف بروئے کار آنے والے ایک طالبعلم کو قتل کروا کر اپنے نامہ اعمال میں ایک اور کالک کا اضافہ کر چکی ہے۔ کسی بے گناہ و نہتے شخص کا قتل، جسے ساری دنیا انسانیت کا قتل تسلیم کرتی ہے، اپنے اقتدار لٹنے کے صدمے اور انتقامی جذبے میں اندھی ہو کر، یہ گناہ کبیرہ بھی کر چکی ہے لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ وہ عورت جو آج دربدر ہے، اس کا انتقامی جذبہ اس قدر زیادہ ہے کہ کسی بھی طور اپنے مخالفین کو زندہ نہیں دیکھ سکتی، جب اقتدار میں تھی، تو اس نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا؟ اقتدار کے دنوں میں سب سے زیادہ ظلم و نفرت و انتقام کا نشانہ، جماعت اسلامی کے وہ سرکردہ رہنما بنے، جنہوں نے پاکستان دو لخت ہونے کی شدید مخالفت کی تھی، ان کی زندگی بنگلہ دیش میں کس کسمپرسی کے عالم میں گزری، انہیں کس طرح تیسرے درجے کا شہری بنایا گیا اور کس طرح طاقت کے نشے میں انہیں پھانسیاں دی گئی اور کس طرح اس پر خوشیاں منائی گئی، دنیا جانتی ہے لیکن اس کا انجام کیا نکلا؟
اس حقیقت سے تاریخ و سیاست کے کسی بھی طالبعلم کو قطعا انکار نہیں کہ سیاست کی سمجھ بوجھ، فہم و فراست و ادراک، جتنا بنگالیوں کا ہے، اس کا عشر عشیر بھی مغربی پاکستان کے لوگوں کو نہیں رہا اور اس کا ثبوت ایک طرف مسلم لیگ کی داغ بیل کا بنگلہ دیش میں رکھنا تو دوسری طرف یہ حالیہ انقلاب ہے کہ جس میں بنگالی عوام نے نتائج سے بے پرواہ ہو کر اپنی سیاسی فہم و فراست کا ثبوت پیش کیا۔ ممکنہ طور پر کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ چونکہ کوئی باقاعدہ انقلابی تحریک نہیں تھی، اس لئے فقط جذبات میں بہتے لوگوں کے جذبات کے باعث، یہ ممکن ہو گیا وگرنہ بنگالی عوام کی یہ خواہش ہی نہیں تھی، تو میرا سادہ سا سوال ہی کہ کیا غاصب، زبانی جمع خرچ سے عوامی حقوق دے دیتے ہیں یا جب تک عوام خاموش بھیڑ بکریوں کی سی روش پر گامزن رہے، اس کے حقوق مزید چھینتے جاتے ہیں؟ بہرکیف! حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے پچاس برس قبل جو آزادی حاصل کی تھی، جن عناصر نے تب ان کی صفوں میں گھس کر اپنے تئیں ’’ دو قومی نظرئیے‘‘ کو خلیج بنگال میں ڈبویا تھا، ان کی روحیں آج یقینا بلبلا رہی ہوں گی کہ آج اسی بنگلہ دیش میں پاکستان زندہ باد کے نہ صرف نعرے گونج رہے ہیں بلکہ وہی بنگلہ دیش آج پاکستان کے ساتھ دفاعی ہتھیاروں کے سودے اور معاہدے کرکے، ازلی دشمن کو واضح پیغام دے رہا ہے کہ ’’ دو قومی نظریہ‘‘ ایک ابدی و ازلی حقیقت ہے اور ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔ ایک لمحہ کے لئے اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ کوئی باقاعدہ تحریک نہیں تھی، اس کے باوجود اس کے نتائج ایسے ہیں کہ کئی ایک ایسے ممالک جہاں انسانی حقوق سلب کئے جارہے ہیں، ان کے لئے ایک مثال ضرور ہے کہ غاصبوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے عوام کا سڑکوں پر نکلنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر غاصب آزادی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے البتہ کسی غاصب کو نکالنے کے بعد اگر حالات نہ سدھریں تو ایسی تحریک یا انقلاب فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟
بدقسمتی سے پاکستان میں بھی سیاسی حالات دن بدن دگر گوں ہی نظر آ رہے ہیں کہ ایک طرف عوام ہے اور دوسری طرف غیر منتخب حکومت، جس کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے کہ اسے زبردستی لاکر بٹھایا گیا ہے، جس کا کام احکامات کی بجاآوری سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک ایسی حکومت، جو ایک مخالف سیاسی رہنما سے اس کے خاندان، وکلا اور سیاسی کارکنان کی ملاقات تک نہیں کروا سکتی، ایسی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ سیاسی بلوغت رکھتی ہے یا سیاسی پختگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے، عبث ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف ہے کہ جو یہ دعویٰ رکھتی ہے کہ اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے یہ عوام کو سڑکوں پر لانے کے قابل دکھائی نہیں دیتی کہ ماضی میں نو مئی ہو یا چھبیس نومبر، اس کی قیادت عوامی رہنمائی میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے اس کے برعکس ہر احتجاج کے بعد، اس کی قیادت اپنی ساکھ گنوانے کے علاوہ کچھ نہیں کر پائی۔ بالخصوص چھبیس نومبر کو جو کچھ ہوا، ایسا کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو کہرام مچ گیا ہوتا، حکومتوں کا دھڑن تختہ ہو چکا ہوتا مگر سر پر کفن باندھ کر آنے والی قیادت، وقوعہ سے یوں نو دو گیارہ ہوئی کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تاہم اس قیادت کی سنجیدگی کے متعلق تب جو سوالات تھے وہ بعد ازاں ثابت ہو گئے کہ قیادت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی تھی، اس پس منظر میں یہ کیسے ممکن تھا کہ احتجاج کامیاب ہوتا؟ اس کا منطقی نتیجہ ایک ہی تھا کہ عوام ایسی قیادت سے متنفر ہوتے اور ایسے کسی احتجاج کا مستقبل میں حصہ نہ بنتے لیکن یہ عمران خان کا نصیب ہے کہ ایک طرف کے پی کے عوام آج بھی اس پر فریفتہ ہیں تو دوسری طرف پنجاب کے عوام بھی اس کو اپنا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں البتہ پنجاب پر مسلط حکمران، کسی قانون کو تسلیم نہیں کرتے اور عمران خان کی حمایت میں نکلنے سے قبل ہی، عوام کی چادر، چاردیواری کے تقدس کو پامال کرنے سے نہیں چوکتے، لہذا پنجاب سے عوام کی متاثر کن تعداد سڑکوں پر نظر نہیں آتی۔ جبکہ انقلاب یا تحریک صرف سوشل میڈیا پر بپا نہیں ہوتے، اس کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور پنجاب کے حکمرانوں کواس کا بخوبی احساس ہے کہ اگر پنجاب کے عوام سے دباؤ ختم کیا جاتا ہے تو اس کا اثر پورے پاکستان پر ہو گا اور سارا پاکستان باہر نکل آئے گا۔ قومی کانفرنس میں جو کچھ ہوا ہے اور جو اعلانیہ و مطالبات جاری کئے گئے ہیں، ان میں سے ایک چیف آف الیکشن کمیشن کی تبدیلی ہے، حیرت ہے کہ اس حکومت نے اگر چیف آف الیکشن کمیشن بدل بھی دیا تو کیا وہ واقعی غیر جانبدار رہے گا یا کیا ضمانت ہے کہ وہ اسی چیف آف الیکشن کمیشن کا تسلسل نہیں ہوگا؟ دوسری بات گزشتہ برس چھبیس نومبر کو بننے والی تحریک کی رفتار، دوبارہ تحریک انصاف کو میسر ہو گی؟ کیا تحریک انصاف ایک بار پھر ڈی چوک کا رخ کرے گی یا نئے لائحہ عمل کے ساتھ میدان میں اترے گی؟ کیا قریہ قریہ گلی گلی کوچہ کوچہ بند کر پائے گی؟ یا جو سننے میں آ رہا ہے کہ اڈیالہ کا رخ کرے گی؟ کیا اس طرح عمران خان کے نظرئیے کے ساتھ وفا کرے گی یا دغا کرے گی؟ بالفرض اگر عمران خان کو اس طرح رہا کروا بھی لیا جائے تو کیا عمران خان اس رہائی کو تسلیم کر لے گا، اپنے نظریہ قانون کی بالادستی کے خلاف جائے گا کہ وہ آج بھی قانون کی بالادستی کا علمبردار بنا ہوا ہے؟ کیا ایسے کسی بھی عمل سے حکومت خاموش رہے گی یا سختی کے ساتھ بروئے کار آئے گی، اس کا نتیجہ کیا ہوگا، آزادی یا خانہ جنگی؟ دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی سٹریٹ موومنٹ کا لائحہ عمل کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ اس کے ممکنہ امکانات کی ہلکی سی جھلک مجھے تو یہی دکھائی دیتی ہے۔







