Column

25دسمبر کا امتیاز ۔۔۔ ولادتِ قائد اعظم!

25دسمبر کا امتیاز ۔۔۔ ولادتِ قائد اعظم!
عابد ضمیر ہاشمی
آج 25دسمبر کو ملک بھر میں قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا150 واں یومِ پیدائش مِلّی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کی شکل میں عظیم تحفہ دینے والے قائد اعظم محمد علی جناحؒ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ قوم آج عقیدت و احترام سے ان کا یوم پیدائش منا رہی ہے۔ قائد اعظمؒ کے کارنامو ں اور تاریخی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اسٹینلے والبرٹ نے تحریر کیا: ’’ چند افراد نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کی نمایاں کوشش کی اور دُنیا کا نقشہ تبدیل کی، لیکن شائد ہی کسی رہنما کو قومی ریاست قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہو، یہ کارنامہ محمد علی جناحؒ نے سرانجام دیا، ایسی شخصیت جنہیں نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی مانتے تھے‘‘۔
قائد اعظمؒ ایک ہمہ گیر سیاسی رہنما تھے یہ ان کی سچی اور پر خلوص جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ بے شمار دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک مقتدر مملکت پاکستان وجود میں آئی۔ قائد اعظمؒ پاکستان کو مضبوط و مستحکم، ترقی یافتہ اور خود کفیل بنانا چاہتے تھے مگر زندگی نے ان کو مہلت نہ دی اور وہ مختصر علالت کے بعد 11ستمبر1948ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ قائد اعظم ؒ کہتے تھے کہ میرا کام اب ختم ہوچکا ہے اب مجھے مرنے کا افسوس نہ ہوگا، چند برس قبل یقینا میری آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں اس لیے نہیں کہ مجھے دُنیا کی تمنا تھی یا میں موت سے خوف کھاتا تھا بلکہ اس لیے کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا تھا اور قدرت نے جس کام کے لیے مجھے چنا تھا، میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ وہ کام پورا ہوگیا ہے میں اپنا فرض نبھا چکا ہوں، پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرے اور ناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنائے۔
قائداعظمؒ جس پاکستان کو مضبوط و مستحکم، ترقی یافتہ اور خود کفیل دیکھنا چاہتے تھے آج اسی پاکستان کی ہم نے چو لیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور وہ ترقی کی راہ سے بھٹک کر گداگری کی راہ پر آن پڑا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ سونا اگلتی زرخیز زمینیں، سمندر، پہاڑ، میدان، سونا، چاندی، تانبے، قیمتی پتھر، کوئلے کے ذخائر، قدرتی نمک کے ذخائر، قدرتی گیس، تیل، سال میں چار موسم، پاکستان کپاس کی پیداوار کے حوالے سے دُنیا کا پہلا ملک، چینی پیدا کرنے والا 5واں، گندم پیدا کرنے والا 9واں ملک ہے، مگر پھر ہم مجبور ہیں۔ جس کے گھر میں پیٹ بھرنے کے لیے کھانا ہو۔ جس کے پاس تن ڈھکنے کے لیے کپڑا موجود ہو۔ جس قوم کا تھوڑی سی محنت کرنے پر تابناک مستقبل قدم چومے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے دست دراز کرے۔ وہ قوم جس پر زکوٰۃ دینا فرض ہو۔ وہ قوم خود غیر مذہب لوگوں سے جھولی پھیلائے اور دوسروں سے صدقہ و خیرات مانگ رہی ہے۔ قائد اعظم جس قوم کو معاشی چکی میں پسنے سے بچانا چاہتے تھے آج اسی قوم کا برا حال ہے اور ایسا صرف اس لیے ہوا ہے کیونکہ ہم نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ایمان داری، دیانت داری، مستقل مزاجی، فرض شناسی، روشن خیالی اور عمدہ اصولوں کو بھی ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا ہے۔ آج ہم اپنے دفتروں میں بڑے فخر کے ساتھ اپنے قائد کی بڑی سی تصویر لگاتے ہیں کہ ہم تو بڑے محب وطن اور قائدانہ سوچ کے حامل ہیں، اور پھر اسی دفتر میں بیٹھ کرنا انصافی، بددیانتی، رشوت، سفارش، اقرباء پروری اور دوسرے بہت سے معاملات میں سارا سارا دن ہیر پھیر کرتے رہتے ہیں اور ہماری پشت پر لگی ہے قائد کی تصویر! کیا یہ ان کی پر خلوص قربانی کی توہین نہیں ہے۔ اگر ہم ان کی سیاسی بصیرت اور عمدہ اصولوں سے رو گردانی نہ کرتے تو یقینا آج ہمارا حال کچھ اور ہوتا۔ مگر ہم نے نہ صرف ان کے احسانات بلکہ ان کے قول و عمل کو بھی فراموش کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نو جوان نسل بھی اپنے عظیم قائد کی پر وقار زندگی سے پوری طرح آگاہ نہیں اگر ان سے غیرملکی فلمسٹاروں کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ فر فر پورا بائیو ڈیٹا بتائیں گے، ٹی وی ڈراموں کا پوچھا جائے تو یقینا سبھی یاد ہونگے، مگر اگر ان سے قائد اعظمؒ کی زندگی کا کوئی حوالہ پوچھا جائے تو نتیجہ غلط جواب کی صورت میں نکلے گا، مگر اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے یہ سارا کیا دھرا تو ہمارا ہے ہم نے ان کو بتایا ہی کب ہے اور سکھایا ہی کب ہے؟ ان کے سامنے ایمان داری، دیانت داری، مستقل مزاجی، فرض شناسی، روشن خیالی اور عمدہ اصولوں کا مظاہرہ کیا ہی کب ہے؟ افسوس کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ نوجوان نسل جسے قائد اعظمؒ قوم کا سرمایہ کہتے تھے کو بھی تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
ہم سب کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ صرف نام رکھنے یا دفتروں میں ان کی تصاویر آویزاں کرنے یا سالانہ برسی منانے سے قائداعظمؒ کے مقاصد کی تکمیل نہیں ہوسکتی جب تک ان کی سیرت کو اختیار کرکے اصول پسندی اور فرض شناسی کو اختیار نہیں کیا جاتا۔ آج ہمیں تجدید عہد کرنا ہوگا کہ ان کے فرمودات کے مطابق عمل پیرا ہوکر اور اپنے اندر ایمان، اتحاد اور تنظیم قائم کرکے پاکستان کی قسمت بدلنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔ یوم قائد اعظم تجدید عہد کا دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے قوت ایمانی اور سیاسی حکمت عملی کے اسلحہ سے لیس ہو کر انتھک محنت اور جدوجہد کر کے اس خطہ ارضی کو حاصل کیا۔ یہ خطہ ارضی ہم نے پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ کا ایمان افروز نعرہ لگا کر بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا، لیکن ہم بنیادی مقصد ہی بھول گئے۔ ان حالات میں روح قائد پکار پکار کر ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم خواب غفلت سے کب بیدار ہوں گے؟ قیام پاکستان کے مقصد کو کب پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے؟ قائد کے خواب کو کب شرمندہ تعبیر کریں گے؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا؟۔ اس وطن، آزادی کی قدر کیجیے، کیوں ہم تصور نہیں کر سکتے کہ ہمارا کیا حال ہوتا۔ ہم ہندوئوں کی غلامی کر رہے ہوتے، سینما گھروں کے گیٹ کیپر، ٹیکسی ڈرائیور، گوالے، کھیتوں میں کام کرنے والے، سائیں، مالشی، دھوبی وغیرہ ہوتے۔ لیکن ایک فرشتہ خصلت، مجاہد قائد اعظمؒ نے ہمیں اس لعنت سے بچا لیا۔ ہم ان کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ملک سے وفا داری کرنا ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button